’’ حق کی خاطر سر کٹانے کا نام کر بلا ہے ‘‘

قیصر محمودعراقی
کریگ اسٹریٹ ، کمرہٹی ، کولکاتا ۔۵۸
Mob: 6291697668
محرم الحرام اسلامی سال کا آغاز ہے ۔ اس ماہ میں ایسا تاریخی اور انقلابی سانحہ پیش آیا کہ ہر سال یہ عظیم قربانیاں اہل ایمان کویہ درس دیتی ہیں کہ اصل زندگی خدا کی راہ میں  اپنا سب کچھ قربان کر دینا ہے ۔ میدان کر بلا میں  غلبہ یزیدی سپاہ کا ہو ا تھا جب کہ شہادت سید نا امام حسین ؓ اور ان کے جاں نثار ساتھیوں کے حصے میں آئی تھی ، لیکن حق اور سچ یہ ہے کہ یہ امام حسن ؓ  کی جیت تھی۔
امت مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو رسم کی شکل دینے کی عادی ہو چکی ہے ، شہادت حسین ؓ کا واقعہ بھی سالانہ رسم کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔ واقعہ کر بلا ہر سال جس عظیم مقصد کے لئے دی گئی شہادت کی یاد دلانے آتا ہے ، اس مقصد کو کسی بھی جگہ یاد نہیں دلایا جا تا ۔ یکم محرم سے ہی سڑکوں اور محلوں میں ہر طرف ماتم کا سما بندھ جا تا ہے لیکن افسوس کہ کسی بھی جگہ حضرت امام حسین ؓ کے مقصد شہادت کی بات نہیں دہرائی جا تی ۔ جبکہ واقعہ کر بلا ہر پہلو سے کوئی نہ کوئی سبق دیتا نظر آتا ہے مگر ہمارے علمائے کرام صرف اور صرف واقعات کر بلا بیان کر کے اپنی ذمہ داری سے فارغ ہو جا تے ہیں ، کر بلا سے جو عظیم سبق ملی ہے اُسے امت کو نہیں بتاتے ۔ یہی وجہہ ہے کہ محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی اس واقعے پر مسلمان چند دن خوب ماتم کر کے ، تعزیہ اور اکھاڑہ نکال کر یہ اطمینان کر لیتے ہیں کہ ہم نے امام حسین ؓ سے وابستگی کا حق ادا کر دیا ہے ۔ جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ 
اسلامی تاریخ کا ہر واقعہ اپنے اندر عبرت و موعظت کا بے پناہ سامان رکھتا ہے اور عملی زندگی میں اس سے بہت کچھ رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ کسی بھی تاریخی واقعہ سے عملی رہنمائی حاصل کر نے پر کم ہی تو جہ دی جا تی ہے جبکہ زندہ قومیں ماضی سے روشنی حاصل کر کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لئے کوشاں رہتی ہیں ۔ واقعہ کر بلا کا اگر مطالعہ کیا جا ئے اور شہادت امام حسین ؓ کی شہادت کے مقصد کو سمجھا جا ئے تو امت مسلمہ اور ایک مومن کے لئے ان کے شہادت میں سے بے شمار ایسے پیغامات ملتے ہیں جس کے ذریعہ امت مسلمہ اور ایک مومن کی عملی زندگی کی بہترین رہنمائی ہو سکتی ہے ، جس کو اپنا کر امت مسلمہ اور ایک مومن اپنی زندگی اور معاشرے کو سنوار سکتے ہیں ۔
حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کا امت مسلمہ کو سب سے بنیادی پیغام یہ ہے کہ انسان کو حق اور دین حق سے اس درجہ عشق ہو نا چاہیئے کہ وہ حق کے لئے جان قربان کر نے سے بھی گریز نہ کر ے ۔ یزید کے بیعت کے وقت جو صورت حال تھی اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اسلامی نظام حکومت اپنی اصل سے ہٹ رہا ہے ۔ نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں خلافت کا نظام رائج تھا اور اسلام جس نظام حکومت کی بنیاد رکھتا ہے وہ یہی نظام خلافت ہے ۔ یزید کی آمد کے ساتھ اسلامی نظام حکومت کی ڈگر سے ہٹ کر ملوکیت میں تبدیل ہو گیا ہے اور یہ اسلامی نظام حکومت سے ایسی تبدیلی تھی کہ جس کے اثرات صدیوں تک باقی رہے ۔ ملوکیت خلافت کی ضد ہے ۔ خلافت و  ملوکیت ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔ خلافت میں امیر المومنین کا طرز زندگی ایک عام رعایا کی طرح ہو تا ہے لیکن ملوکیت میں شاہانہ ٹھاٹ باٹ ہو تی ہے ۔ خلافت میں لوگوں کو خلیفہ کے محاسبہ کی آزادی ہوتی ہے ملک کا ادنی سا شہری بھی خلیفہ کی باز پرُس کر سکتا ہے لیکن ملو کیت میں ایسا نہیں ہو تا ۔ ملوکیت میں بادشاہ محاسبہ سے ماورا ہو تا ہے ۔ خلافت میں سارے معاملات کتاب و سنت کے مطابق طے کئے جا تے ہیں۔ جبکہ ملوکیت میں بادشاہ سارے فیصلے اپنی انفرادی رائے سے نافذ کر تا ہے ۔ خلافت و ملوکیت کے اس فرق سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یزید کا اقتدار میں آنا کسی خطر ناک تبدیلی کا پیش خیمہ تھا ۔ ایسے موقع پر اگر حضرت حسین ؓ یزید کے سامنے ڈٹ کر نہ کھڑے ہو تے اور جان کی قربانی نہ دیتے تو اسلامی خلافت کے تصور کا کتابوں میں محفوظ رہنا بھی مشکل ہو تا ۔
حضرت امام حسین ؓ کی شہادت سے دوسرا بڑا اور اہم پیغام امت مسلمہ کو یہ ملتا ہے کہ ایک مسلمان مومن کو مشکل سے مشکل حالات میں بھی حق پر ڈٹے رہنا چاہیئے ۔ کیسے بھی حالات ہوں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہو نا چاہیئے ، باطل کے خوف سے ایمان کو کمزور نہیں کرنا چاہیئے ۔ حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کا تیسرا اہم پیغام یہ ملتا ہے کہ مومن کو مخالفانہ ماحول سے کبھی متاثر نہیں ہو نا چاہیئے ۔ بیعت یزید کے وقت زیادہ تر لوگ خوف کے مارے خاموشی اختیار کئے ہو ئے تھے ۔ ماحول بالکل مخالفانہ تھا لیکن حضرت امام حسینؓ نے اس کی پرواہ نہیں کی اور حق کے لئے اُٹھ کھڑے ہو ئے ۔ حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ مومن کو حق کے دفاع کے لئے ظاہری اسباب پر بھروسہ نہیں کر نا چاہیئے ، علمبردان حق کبھی ظاہری اسباب ، تعداد و اسلحہ سے مرعوب نہیں ہو تے ۔ واقعہ کر بلا سے یہ بات بھی واضح ہو تی ہے کہ مصیبت ہو یا خوش حالی میں مومن احکام الہیٰ کا پابند ہو تا ہے ۔ عین حالات جنگ میں بھی حضرت امام حسین ؓ اور ان کے اہل و عیال نے نماز ترک نہیں کی ۔ حضرت اما م حسین ؓ کی شہادت اس بات کی بھی نشاندہی کر تی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کسی کو بھی تاریخ میں بلند مقام عطا فرمایا اُسے پہلے آزمائش میں مبتلا کیا ۔ ایمان کے ساتھ اتحاد ضروری ہو تا ہے ۔ اہل ایمان کی زندگی آسان نہیں ہو تی ، آزمائشوں پر پورا اُترنے والے لوگ ہی عظیم ہو تے ہیں۔ واقعہ کر بلا صرف ایک واقعہ نہیں ہے ، یہ حریت ، خوداری ، شعور ، شجاعت ، ایثار و قربانی کی ایک ایسی عظیم داستان ہے جو قیامت تک لکھی ، پڑھی اور دہرائی جا ئے گی ۔ حضرت امام حسین ؓ نے اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات کے لئے اپنی جان کی قربانی دی ، انہوں نے اپنے عمل سے قیامت تک کے لوگوں کو بتا دیا کہ حق کے لئے سر کٹوایا جا سکتا ہے اور مومن کا سر حق کے لئے کٹ تو سکتا ہے لیکن باطل کے آگے جھک نہیں سکتا لیکن آج امت مسلمہ میں جتنے انتشار اور مسائل ہیں وہ حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کے مقصد کو بھلانے کی وجہہ سے ہے ۔ آج بیشتر مسلمان بدعات و خرافات میں ملوث ہیں اور حسین ؓ کی آڑ میں یزید یت کو فروغ دے رہے ہیں ۔
قارئین حضرات: بس یوں جا لیں کہ آج کے نوجوان طبقہ کی زبان پر صرف حسین ؓ کا نام رہ گیا ہے مگر کر دار و عمل یزید والا ہے ، ابن زیاد اور ثمر لعین والا ہے ۔ امام حسین ؓ نے میدان کر بلا میں تلواروں کے سائے میں نماز ادا کر کے بتایا کہ اے میرے نانا جان کی امتیو! اگر تم پر بھی اس طرح کے حالات پیش آئیں تو کوئی خوف کوئی غم نہ کر نا اور وقت نماز آ جا ئے تو تلواروں کے سائے میں بھی نماز قضانہ ہو نے دینا ،مگر واہ رے آج کی امت مسلمہ ! ڈھول تاشے میں اسقدر مگن ہے کہ نماز فوت ہو رہی ہیں لیکن اس کی فکر نہیں مگر تعزیہ داری نہیں چھوڑنا ہے  اکھاڑے ضرور سے ضرور نکا لنا ہے ۔ کھچڑا پکا نا اور ملیدہ ضرور بنانا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنی شنا خت تعزیہ دار کے نام سے کرانا پسند کر تے ہیں ۔ بہت سارے ہمارے معاشرے کے نوجوان ایسے ہیں جنہیں خلیفہ کا مفہوم نہیں معلوم لیکن اکھاڑہ کا خلیفہ بن کر اور پیسے سے پگڑی خرید کر اپنے سروں پر باندھ کر خود کو خلیفہ ثابت کر نے پر تلے ہو تے ہیں ۔
کیا امام حسین ؓ نے اسی لئے اپنا پورا خاندان راہ خدا میں لٹا یا تھا ؟ کیا اپنے نا نا جان کے دین کی آبیاری اسی لئے کی تھی ؟ کہ اب ہم واقعہ کر بلا کو صرف ایک رسم کے تحت منائیں ؟ جہاں محرم کا چاند نمودار ہوا کہ ہم ،ہمارے ہیں حسین ؓ ،ہمارے ہیں حسین ؓ کا راگ الاپتے ہیں ، تعزیہ بناتے ہیں ، اکھاڑہ نکالتے ہیں ، مصنوعی کر بلا کی زیارت کر تے ہیں اور وہاں پر نذر و نیاز کر تے ہیں ، پائک بنتے ہیں ، منتیں مانگتے ہیں گویا ہم مقصد حسین ؓ اور قیام حسینؓ کو نظر انداز کر ت کے ان رسومات کی بجا آوری کو فرض سمجھنے لگے ہیں ، ان بدعات و خرافات کا تقاضا امام حسین ؓ نے ہم سے نہیں کیا ۔ آج ہمیں یزید سے اس لئے نفرت ہے کہ اس نے آل رسول ﷺ کو شہید کیا ؟ لیکن امام حسین ؓ  کو یزید سے کیوں نفرت تھی ،کبھی یہ جا ننے کی کوشش نہیں کی ۔ سنو خرافاتی ذہن کے مالکو! ہماری اور امام حسین ؓ کی نفرت کی دلیل میں بہت فرق ہے ، امام حسین ؓ کی اس لئے نفرت تھی کہ یزید اللہ کے دین کو پامال کر رہا تھا ، وہ اللہ کے قانون کی حد توڑرہا تھا ، وہ اللہ کے دین کی بے حرمتی کر رہا تھا، اگر آج ہماری نفرت کی دلیل بھی وہی ہو تی جو امام حسین ؓ کی تھی تو ہمیں ہر دور کے یزید سے نفرت ہو تی ۔ آج کا یزید وہ ہے جو دین الہیٰ کو پا مال کر رہا ہے ، رسول ﷺ اور آلِ رسول ؓ کے دین کو بگاڑ کر پیش کر رہا ہے ۔ آج ہمیں جہاد اس یزیدی کر دار کے خلاف کر نا ہے جو حسینیت کی آڑ میں یزید یت کو بڑھا وا دے رہا ہے ، لیکن اس جہاد میں حصہ لینے کے لئے آگے قدم کون بڑھا ئے ۔
حیف صد حیف آج ہم صرف نام کے مسلمان ہیں نام کے حسینی بنتے ہیں ، یہی وجہہ کہ دشمن اسلام مسلمانوں پر وار پر وار کر رہے ہیں ۔ ہر طرف مسلمانوں کو ہراساں اور پریشان کیا جا رہا ہے ۔ عبادت گاہیں مسمار کی جا رہی ہیں ، نبی پاک ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی جا رہی ہے ، قرآن مجید کو جلا یا اور پھاڑا جا رہا ہے ۔ لیکن ہم میں دشمنوں سے لوہا لینے کے لئے کوئی امام حسین ؓ کے کر دار کو نہیں اپناتا ۔ زبان پر فقط یا حسینؓ یا حسینؓ ہے لیکن عمل ساری یزید والی ہے ۔ اگر کوئی ان خرافات کی نکیر کر ے تو اُسے مسلک کے آئینے سے دیکھا جا تا ہے اور پھر بد عقیدہ اور گستاخ قرار دے دیا جا تا ہے ۔ آج ہمارے مسلکی تعصب اور دوغلے پن کی وجہہ سے ملی و حدت پارہ پارہ ہو چکی ہے اور بحیثیت مسلمان ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے کیونکہ امام حسینؓ کو عصرِ حاضر کے مسلمانوں نے یزید سے زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے ۔ یزیدی افواج نے امام حسین ؓ کا سر مبارک تن سے جدا کر کے شہید کر دیا جبکہ آج کانام نہاد مسلمام امام عالی مقام کی روح اطہر کو پل پل زخمی کر رہا ہے ۔ نواسہ رسول ﷺ نے دین اسلام کی خاطر جان دی اور ہمارے علما کرام اور ہم مسلمان پیٹ پالنے کے لئے دین بیچ رہے ہیں ۔ درس کر بلا یہ ہے کہ ظالم قوتوں کے خلاف نفرت کا اظہار کر یں ۔ لیکن واہ رے آج کا مسلمان اپنے ہی کلمہ گو بھائی کے خلاف نفرت کا اظہار کر تا ہے ۔ امام حسین نے محبت و اُخوت کا پیغام دیا اور ہم ایک دوسرے کو قتل کر کے خوش ہو رہے ہیں ۔
آج ہمارا کوئی عمل سیرت حسینؓ سے مطابقت نہیں رکھتا بلکہ ہم تو وہ مسلمان ہیں جو حضور اکرمﷺ پر جان قربان کر نے کے لئے تیار رہتے ہیں لیکن آپ ﷺ کی بات ماننے اور سیر ت طیبہ پر عمل کر نے کے لئے تیار نہیں ۔ آج ہمارے ازلی دشمن جگہ جگہ تلاش کر کے ہم مسلمانوں کو ماررہے ہیں کیوں ؟ اس کی وجہہ یہ ہے کہ ہم راہ ہدایت سے بھٹک چکے ہیں ۔
لہذا مسلمانو!تاریخ کا مطالعہ کرو، تب تمہیں معلوم ہو گا کہ کر بلا والے امام حسین ؓ نے نیزے پر قرآن پاک کی تلاوت کی اور کچھ اس طرح سے اسلام کا چراغ روشن کر دیا جس کو  کوئی طوفان نہ بجھا سکا ا ور نہ بجھا سکے گا ۔ لیکن  یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج نام نہاد مسلمان اس ماہ مبارک میں اعمال صالحہ کے بجائے طرح طرح کی بدعات و خرافات اور ناجائز رسومات میں غرق ہے اور ان ہی رسموں کو اپنا دینی شعار تصور کر تا ہے ۔ اب تو صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ محرم کا مہینہ شروع ہو تے ہی کر بلا کی یاد شروع ہو جا تی ہے ، اسٹیج سجنے لگتے ہیں  ۔ بڑے بڑے علما کرام چاہے وہ کسی بھی مکتب فکر کے ہوں فضائل محرم اور حادثہ کر بلا سے متعلق بے سر وپا روایات کو پورے زور و قوت کے ساتھ بیان کر تے نظر آتے ہیں ۔ پورا عشرہ ان کی تقریروں کا سلسلہ چلتا رہنا ہے، واقعات کر بلا سے متعلق تمام واقعات کو اپنی لچھے دار تقریر کے ذریعہ اس طرح بیان کر تے ہیں گویا میدان کر بلا وہ خودبہ نفس نفیس موجود تھے ۔ ان کی لن ترانی سے اچھے خاصے پڑھے لکھے بھی امام حسین ؓ کی شہادت کے معاملے میں جذبات کا شکار ہو جا تے ہیں ۔ 
جاری۔۔۔
حالانکہ میدان کر بلا سے جو درس ملتی ہے ۔ جو سبق ملتا ہے وہ ہمارے  علماء کرام بیان نہیں کر تے ۔ کیونکہ انہیں اپنی پھولی ہو ئی تو ند کے پچک جا نے کا ڈر اور جما ہوا سکہ اُکھڑ جا نے کا خدشہ ہو تا ہے ۔ اس لئے نہ حق بیان کر تے ہیں اور نہ اُمت کو حق بیانی کا درس دیتے ہیں جبکہ کر بلا سے سبق ملتا ہے ۔ نماز کا ، کہ تلوار کے سائے میں بھی نماز ادا کی جا ئے کیونکہ یہ وہ نماز ہے جو حضور اکرم ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ جو جنت کی کنجی ہے اور جو لوگوں کو بے حیائی سے روکتی ہے ، مگر افسوس مولوی حضرت نماز کی تلقین نہیں کر تے جس وجہہ کر امت کا بیشتر نوجوان محرم کے ایام میں طرح طرح کی بدعات و خرافات میں ملوث رہتا ہے ۔ نماز یں فوت ہو رہی ہے مگر تعزیہ بنانا نہیں جھوٹتا ، نمازیں فوت ہو رہی ہے مگر اکھاڑہ نکالنا اور کھیلنا بند نہیں ہو رہا ہے ، نماز یں فوت ہو رہی ہے مگر کھچڑا اور ملیدہ نہیں چھوٹتا۔
کر بلا سے سبق ملتا ہے صبر کا ، کہ امام حسین ؓ کے گھر والے جام شہادت نوش فرما رہے ہیں مگر امام حسین ؓ صبر پر صبر کئے جا رہے ہیں ، اس کے بر عکس آج کا مسلمان جو خود کو حسینی کہتے نہیں تھکتا ، ایک ذرا سی مصیبت کیا آن پڑی کہ صبر کا دامن چھوڑ کر ادھر اُدھر بھٹکنے لگتا ہے ۔ کر بلا سے سبق ملتا ہے پر دے کا کہ عورتوں کے سروں سے دو پٹہ کھینچ لیا جا تا ہے پھر بھی عورتیں حجاب کا دامن تھا مے ہو ئے ہیں یعنی اپنی بالوں سے چہرہ کو چھپائے رکھا ، اس کے بر عکس ہماری آج کل کی ماں اور بہنیں بے پردگی کا وہ مظاہرہ کر تی ہیں کہ شرم سے سر جھک جا تا ہے ۔ خاص کر محرم کے ایام میں تعزیہ اور اکھاڑے کے دوران تماشا دکھانے والے نوجوان اور تماش بین یہ عورتیں ہو تی ہیں ۔ کاش ہر مولوی کر بلا کی واقعات نہ بیان کر کے کر بلا سے ملنے والی سبق اور درس کو بیان کر تے تو شاید یہ بدعات و خرافات جسے مذہب کا حصہ سمجھ کر کیا جا رہا ہے وہ بند ہو جا تا ۔
تعزیت اصل میں کسی مصیبت زدہ کو صبر کی تلقین اور تسکین دینے کو کہا جا تا ہے ، لیکن آج تعزیت کو تعزیہ محرم میں بدل دیا گیا ہے جو کہ حضرت حسین ؓ کے روضہ کی نقل کہلاتا ہے ، کوئی اس سے مرادیں مانگتا ہے ، کوئی اولاد تو کوئی بیماری سے شفا طلب کر تا ہے ، کوئی یہ کہہ کر نذر مانتا ہے کہ اگر میری فلاں مراد پوری ہو گئی تو آئندہ سال امام حسین ؓ کا تعزیہ بنا کر اس پر چڑھا وے چڑھائونگا ۔ کوئی ہا ئے حسین ؓ ہا ئے حسین ؓ کا نعرہ و صدا بلند کر تا ہے ، کوئی ڈھول تاشا بجا کر اُچھل کود کر تا ہے ، کوئی تلوار اور نیزہ لے کر کھیلتا ہے ور پھر دسویں محرم کو گلی کو چوں اور بازاروں میں چکر لگا کر ایک میدان میں لے جا کر دبا دیتا ہے ، جس میدان کو کر بلا کہا جا تا ہے ۔ ذرا غور کریں تو آپ کو بخوبی علم ہو گا کہ جو والدین اپنے بچوں کو کتاب و قلم خرید کر دینے کی سکت نہیں وہ محرم میں دس دنوں کے لئے پانچ سو روپئے کا ڈھول اور تا شا ضرور خرید کر دیتے ہیں اور یہ سب کچھ کون کر تا ہے۔ آریہ نہیں ، یہودی نہیں ، عیسائی نہیں ، سکھ نہیں ، پارسی نہیں ، ہندو نہیں بلکہ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے اور مسلمانوں میں بھی اپنے آپ کو سنی اور حسینی کہلانے والے کر تے ہیں ۔ اور اگر کوئی اس پرُ ہنگامہ اور عیش و عشرت کے خلاف زبان کھولے تو وہ مردود ہے ۔ دشمن اہل بیت ہے ، لا مذہب ہے ، بے دین ہے ، عقائد بگاڑنے والا بد عقیدہ ہے ۔
اے قوم مسلم یا د رکھو ! کر بلا ایک دن کی جنگ کا نام نہیں ، کر بلا ایک تحریک انبیا کا تسلسل ہے ، کر بلا دین کی خاطر سب کچھ قربان کر دینے کا نام ہے ، کر بلا اپنے جوان بیٹے کو قربان اور ننھے پھول کو راہ خدا میں دینے کا نام ہے ۔ کر بلا حق خاطر سر کٹوانے کا نام ہے ۔ اس لئے بند کرو ان خرافات کو جس کو تم لوگوں نے بزرگوں کے حوالے سے رائج کر رکھا ہے ۔ یہ سارے کام جو تم محرم میں کررہے ہو یہ سب افعال و عمل یزید ی سپاہیوں کا ہے ۔ ابن زیاد کا ہے ، ثمر لعین کا ہے ، اس طرح کے تماشے اما م حسین ؓ کا ہو ہی نہیں سکتا ۔ امام حسینؓ تو بھوکے پیاسے جام شہادت نوش فرما رہے ہیں اور تم کھچڑا کھا کر ، شربت پی کر اور ہاتھوں میں ڈنڈا اور کاندھوں پر تعزیہ لے کر اتراتے پھر تے ہو ۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ تمہاری ہر حرکت یزید کی سی ہے اور تم ہو کہ نام حسین کا لے کر خود کو حسینی گر دان رہے ہو۔ اگر تمہیں اہل بیت سے محبت ہے ۔ امام حسین  ؓ سے اُنسیت ہے تو امام حسین ؓ والا کار نامہ انجام دو۔ بجائے سڑکوں اور بازاروں میں بائو ہو کر نے کے اللہ کے گھر میں جا کر ذکراذ کار کرو ، خیر خیرات کرو ، لوگوں کے ساتھ بھلائی کرو ، نمازیں میں قائم کرو ، یزیدیت اختیار کر کے سنیت کو بد نام کر نے والے تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ سب کر نے سے ثواب ملے گا ، تو سن لو ایسا کچھ بھی نہیں ہے ، جو جس کا نقل کر تا ہے اس کا اسی کے طرح انجام ہو تا ہے ۔ آج امت کا ہر نوجوان دنیا بھر کی گمراہیت کا شکار ہے ، کون سی بدعات و خرافات میں مسلمان ملوث نہیں ، اللہ کے احکام کو بھول کر ، رسول کی  فرامین کو فراموش کر کے ، امام حسین ؓ کی قربانی کو نظر انداز کر کے ہر نوجوان اپنے آپ کو ٹنا ٹن سنی کہلا تا ہے ۔ مگر حقیقت میں ٹیٹیا سنی تو ہو سکتا ہے ٹنا ٹن سنی نہیں ۔ انہیں سنی کا مفہوم تک معلوم نہیں بس مولویوں کی زبانی سن لیا اور کہنے لگے کہ میں سنی ہوں ، میں سنی ہوں ۔ لیکن سنو خود کو سنی کہلانے والو! تم سنی تو ہو ، مگر وہ سنی نہیں جو سن کر ایمان لا یا ہے ۔ یا وہ سنی نہیں جو سنت پر عمل کر تا ہے بلکہ تم وہ سنی ہو ، تمہارے جسم کا ہر حصہ سرے لیکر پائوں تک سن ہو گیا ہے اور جس طرح سونی جسم میں خنجر اورتلوار کی ضرب محسوس نہیں ہو تی اُسی طرح تمہارے سونے دل و دماغ میں قرآن و حدیث کی باتیں پیوست نہیں ہو تیں۔
آج امت میں جو خرافات سرایت کر گئی ہے اس کے ذمہ دار مسلکی علما ، مفاد پر ست علماء ہیں ، انہوں نے صرف واقعات کر بلا پڑھا اور اسی کو موزوئے سخن بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا ۔ کر بلا سے کیا سبق ملا سے امت کو کبھی بتانے کی ان لوگوں نے زحمت نہیں کی ۔ اگر آج کر بلا سے ملنے والی سبق کو بتایا جا تا تو امت اسقدر گمراہیت کا شکار نہیں ہو تی ۔ مگر حیف صد حیف ! آج بھی ہمارے علما کرام اپنی مفاد کی خاطر امت کو راہ است پر لا نا نہیں چاہتے ۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ علما نہیں چاہتے کہ امت دین کے بارے میں مکمل جانکاری رکھے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر امت دین کے راستے پر چل پڑے گی اور حسین کی عظمت کو جان جائینگے تو ہمارا دھندہ ٹھپ پڑ جا ئے گا ۔ محض اپنی دکان چلانے کے لئے جو ہو رہا ہے سب ٹھیک ہے ، ان کو امت سے کیا غرض ، امت جہنم کی طرف جا تی ہے تو جا ئے ۔
بہر حال آخر میں میں اپنے نوجوان ساتھیوں سے گذارش و التماس کر تا ہوں کہ خدا کے واسطے ان من گھڑت بدعات و خرافات سے تو بہ کریں اور جو صحیح دین کا راستہ ہے اس پر عمل کریں ۔ دین کوئی کھیل اور تماشا نہیں ہے جو سڑکوں پر بھیڑ لگا کر ڈھول اور تاشے بجا کر زمانے کو دکھا ئیں ، جس طرح کہ ایک مداری تماش بینوں کو اپنی کر تب دکھا تا ہے ۔ ذرا سوچو کہ تمہارے ان بدعات و خرافات میں تمہارا کتنا ما و زر رائیگاں و بیکار جا تا ہے ، ایک طرف تم شرک و بدعت اور گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو تے ہو تو دوسری طرف اسراف و تبذیر کر تے ہو ، حالانکہ آج کتنے یتیم بچے ہیں ، بیوائیں ہیں ، معصوم لڑکیا ہیں جو ادھر اُدھر کی ٹھوکریں کھاتے ہو ئے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں ، ان کوئی خبر گیری کر نے والا حامی و مدد گار نہیں ہے ، کتنی بالغ لڑکیاں والدین کے لئے وبال ِ جان بنی بیٹھیں ہیں جن کی شادی کے لئے سرمایہ کا انتظام نہیں ہو پا تا ، بہت سے مساکین و محتاج اور تنگ دست ایسے ہیں جو روٹی کے لئے ترس رہے ہیں ، ہماری تو جہ ادھر نہیں ہو تی لیکن جب ماہ محرم کا آغاز ہو تا ہے تو اسراف و تبذیر و ناجائز کام کے لئے مسلمانوں کی جیب سے ہزاروں روپئے نکل جا تے ہیں ۔ ہمارا مذہب اتنا پیارا اور سنجیدہ مذیب ہے کہ اس مذہب میں شور و شغف کی کوئی گنجائش نہیں۔
لہذا اپنی حرکت و سکنات سے بعض آجائو اسی میں عافیت ہے و رنہ جہنم تمہارا ٹھکانہ ہو گا ۔ وقت ہے تو بہ کر لو اور قوم و ملے کی اصلاح اور تعمیر و تر قی کے لئے اپنے آپ کو قربان کرو اور امت مسلمہ کی بقا و تحفظ کے لئے ایثار کا جذبہ پیدا کرو، ورنہ موجودہ وقت میں جو امت مسلمہ کی حرکت ہے اس پر افسوس کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے ۔