مشرقی بہار کی روحانیت و علمیت کا استعارہ

حضرت مولانا شاہ حفیظ الدین لطیفیؔ ابوالعلائی علیہ الرحمۃ الرضوان
خصوصی مضمون بموقع ۱۱۰؍ واںعرس حفیظی خانقاہ لطیفیہ رحمن پور، بارسوئی ، کٹیہار ، بہار
مولاناخواجہ ساجد عالم لطیفیؔمصباحی خانقاہ لطیفیہ رحمٰن پُور، بارسوئی، کٹیہار، بہار,
 
 
 
 
 
 
 مشرقی بہار کی شہرۂ آفاق ندی ’’مہانندا‘‘کے کنارے بہت ساری علمی وا دبی اور تہذیبی و سماجی ہستیاں محو خواب ابدی ہیں۔ کافی زیادہ دنوں کی بات نہیں صرف پونے دو سوڈیڑھ سو سال کی مدت ہی میں یہاں بڑے قدآور صاحبِ کمال و جمال حضرات کی ایک ایسی قابلِ ذکر و لائق فخر جماعت گزری ہے کہ آج جن کی علمی و قلمی کاوشات اور دیگر مذہبی سماجی خدمات وکارناموں کے اُجلے اُجلے نقوش و آثار بتا رہے ہیں کہ یہ کیسے کیسے لوگ تھے  اور ان کی قدر و منزلت، وزن و قیمت کیا درجہ اعتبار رکھتی ہے۔؟ تاریخ و مرور ایّام کی عجب ستم ظریفی ہے کہ ان حضرات کے واقف کاروں نے انکی تحریرات و تصنیفات اور ملّی و سماجی خدمات و کار گزاریوں کے نشانات و حالات کو کاغذ و قلم کی امانت میں نہ دیا اور نہ ہی غیروں کو اس عمل کے لیے آمادہ کیا یا کم از کم توجہ دلا کر خلوص و خیر خواہی کے باب میں نام درج کرانے کی زحمت  گوارہ فرمائی۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ علم و ادب، فکر و فن اور محاسن و فضائل کی کائنات کے ان بلندمیناروں سے خود اس دیار کے خواص و عوام انصاف کی حد آگاہ نہیں ہیں۔ آج اگر ان شخصیات کی حیات و خدمات پر کوئی تحقیقی کام کرنا چاہےگا تو اس راہ میں اسے جوئے شیر لانے سے بھی زیادہ گراں سودا کرنا پڑےگا۔قدوۃالعلماء زبدۃ الفضلاء حضرت مولانا شاہ حفیظ الدین لطیفیؔ ابوالعلائی علیہ الرحمۃ و الرضوان اسی مشرقی بہار کے مردم خیز خطّہ رحمٰن پُور، بارسوئی ، ضلع کٹیہار بہار سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کی بھی شخصیت لوگوں کی قدر ناشناشی و عدم توجہی اور مجرمانہ غفلت و فراموشی کا شکار ہوئی۔ یہی سبب ہے کہ ایک صدی قبل کی یہ مایہ ناز ہستی تہہ دار ذات آج  دیارِ غیر تو چھوڑیے خود اپنے وطن میں اجنبیت کی المناکی سے دوچار ہے۔ حالاں کہ حضرت لطیفی کی ذات اپنے علمی قد اور بے پناہ ملّی و جماعتی کاوشوں و مساعی کے تناظر میں حد درجہ جذب و کشش کا مادّہ رکھتی ہے۔
قرائن ہیں کہ آپ نے اندازاً  ۱۲۴۵؁ھ میں زندگی کی پہلی سانس لی۔ والد ماجد کا نام شیخ حُسین علی تھا۔ شیخ موصوف ایک دیندار رئیس اور بہت اثر و رسوخ کے حامل معزز انسان تھے۔ حضرت لطیفیابھی عہد طفولیت ہی میں تھے کہ والد بزرگوار خلد آشیاں ہو گئے۔ اب ایک اکیلی ماں تھی کہ جس کا آنچل آپ کا آخری سہارا و آسرا تھا۔ حضرت لطیفیؔ جب سن شعور کو پہنچے تو زمیندارانِ رسول پُور کے مکتب میں ابتدائی تعلیم کا آغاز فرمایا اور پھریہاں کے نصاب سے جب فارغ ہوئے تو براہ راست پٹنہ کی راہ لی اور یہاں استاذالعلماء اکمل الفضلاء، حضرت علامہ مولانا حسرت عظیم آبادی [تلمیذ رشید سیف اللہ المسلول معین الحق مولانا شاہ فضلِ رسول بدایونی] کی ملکی شہرت یافتہ درسگاہ میں  زانوئے ادب تہہ کیا۔ بعدہ لکھنؤ کے فرنگی محلی مدرسہ نظامیہ میں داخل ہوئے اور یہاں فخر ہند و سندھ، شہیر عرب وعجم حضرت علامہ عبدالحلیم نظامی فرنگی محلی و دیگر اساتذۂ وقت کے خوان علم سے لقمے چنے اور آسودہ حال ہوئے۔ آپ کے تعلیمی سفر کا آخری پڑاؤ  ہے مدرسہ رحیمیہ دہلی، یہاں آپ نے اکابر ِزمانہ حضرت علامہ شاہ مخصوص اللہ و حضرت علامہ موسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے تعلیم کا تکملہ فرمایا اور دستار و سند سے بہرہ یاب ہوئے۔
ممتاز رفقاے درس: ۔
تاریخی آثار و علامات کے مخزن شہرِ پٹنہ اور عہدِ رفتہ کے نشانات و باقیات کی بستی دہلی تک یہ ممتاز و جلیل القدر شخصیتیں آپ کے رفقاے درس رہیں۔ عاشقِ رسول عارف باللہ حضرت  علامہ عبد العلیم آسی غازیپوری، حضرت مولانا سیّدنا سیّد شاہ شہودالحق پیر بیگھوی اور حضرت مولانا فاروق چرّیا کوٹی قدست اسرارہم۔
درس و تدریس:۔
آپ کی ۸۷؍سالہ عمر عزیز کا تقریباً  ۶۰؍سالہ دور درس و تدریس سے عبارت رہا۔ اس دوران آ پ نے مدرسہ شاہجہاں پُور [یوپی]،مدرسہ مجگواں [بھاگلپور، بہار] ، مدرسہ و خانقاہ کبیریہ سہسرام [بہار]، مدرسہ اساقت رحمت محمدّیہ اسٹیٹ پورنیہ [بہار]، مدرسہ وخانقاہ لطیفیہ رحمٰن پُور تکیہ شریف، بارسوئی [کٹیہار، بہار] میں مسندِ درس و تدریس بچھائی اور ایک تشنہ بلب جہاں کو  سیراب و فیضیاب کیا۔ ان مدارس میں مدرسہ و خانقاہ کبیریہ سہسرام سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے۔ یہی وہ مرکزِ علم و ہنر ہے کہ جہاں آپ کے بسیار جہات و بو قلمونی وجودکا جوہر کھلا اور آپ نے اپنے علمی و فنّی کمالات و امتیازات کے چشمہائے شیریں جاری فرمائے۔ یہاں آپ کی درسگاہ عالم پناہ سے ایک سے ایک مہرتاباں و خورشید درخشاں نکلے۔ مدرسہ و خانقاہ کبیریہ سہسرام کے دورانِ قیام  جو مدت قیام پیہم  بارہ سال رہی ایک اندازہ کے مطابق تقریباً پانچ سو جید فارغین قوم و ملت کو دستیاب ہوئے۔ زمانہ کے دست برد نے منضبط طور پر پورا ڈاٹا محفوظ تو  نہ رکھا البتہ تاریخ کی توانا مُٹھی میں چند نام رہ گئے ہیں۔ دو نام بہت قابلِ ذکر ہیں۔ ایک تاجدارِ معقولات حضرت علامہ عثمان شاہ آبادی کی محیر العقول ذات ہے،  آپ مدرسہ صولتیہ مکّہ مکرمہّ کے ممتاز مدرس اور بلند پایہ ماہر معقولات تھے۔ منطق و فلسفہ میں بزبانِ عربی نو[۹] تصانیف لطیف آپ کے قلم  خوش خرام سے آراستہ ہوئیں اور علمی حلقے میں دیرپا و منفرد  اثرات ثبت کرنے میں ایک ریکارڈ قائم کیا۔ آپ اپنی تصنیفات و تالیفات اور تدریسی مہارت کے سبب دیارِ عرب میں بہت مشہور ہوئے تھے اور علمی وفکری دنیاے خوشگوار کو حیرت کا احساس دلایا تھا۔ حضرت مولانا رحمتاللہ کیرانوی رحمۃ اللہ تعالیٰ بانی مدرسہ صولتیہ مکّہ مکرّمہ کی دعوت و اصرار پر آپ حجاز مقدّس تشریف لے گئے اور پوری زندگی مدرسہ صولتیہ کے حدودِ اربعہ میں گزار دی۔ دوسرے ہیں فخر العلماء  والمحدثین حضرت مولانا فرخند علی فرحتؔ سہسرامی  [والد ماجد مولانا کامل سہسرامی] بانی دارالعلوم خیریہ نظامیہ سہسرام جوفقہ و افتاء اور تفسیر و حدیث میں بے نظیر بصیرت و دسترس کے حامل تھے۔ شمالی مشرقی ہند کے معاصر اربابِ فقہ و افتاءآپ کو قدر و وقار کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ہر بروقتِ ضرورت آپ سے استفادہ و مراجعت بھی کیا کرتے تھے۔ مدرسہ خیریہ نظامیہ سہسرام کی درسگاہ سےآپ نے کثیر نابغۂ روزگار علماء و فضلاء پیدا کیے۔ حضر ت لطیفیؔ نے تصنیف و تالیف کا مشغلہ بھی یہاں خوب زور شور سے جاری رکھا۔ فارسی شعر و ادب پر ایکضخیم دیوان’’دیوانِ لطیفی‘‘ تصّوف کے اسرار و رموز پر مشتمل کتاب’’لطائف حفظ السالکین‘‘ درسِ نظامیہ کی معروف نصابی کتاب’’میزان منطق‘‘ کی نہایت عمدہ و محققانہ اور مبسوط شرح ’’فوائد نوریہـ‘‘ یہیں زیور تحریر سے آراستہ ہوئی۔
 شادی اور اولاد امجاد:۔
تحصیل علم سے فراغت کے بعد آ پ پٹنہ سیٹی متّصل بہ تکیہ عشق مقیم رہے۔ ا سی  دوران وہاں کے کسی قریبی شخص کے  ذریعہ مگڑاواں بہار شریف میں جناب مولانا سیّدعبد الکریم صاحب مرحوم کی لڑکی سے آپ کی رسم شادی خانہ آبادی طے پائی۔ جناب سیّد صاحب ایک دیندار اور پاکیزہ اوصاف و خصائل کے مالک، لیکن مالی لحاظ سے کمزور انسان تھے مگر چونکہ حضرت لطیفیؔ کو انتخاب میں دین پرور، و مذہب پسند خاندان مطلوب  تھا۔ سو وہ مقدّس سادات  گھرانے کی صورت میں موجود تھا۔اس لیے بصد رضا و رغبت اس رشتے کو قبول فرمایا اور پھر رشتۂ ازدواجی نبھانے میں تادم آخر بہر نوع کاوشیں فرمائیں۔ آپ کی چھ اولادیں ہوئیں۔ تین نرینہ اولادیں تھیں۔ اسماء حسب ترتیب یوں ہیں۔ حضرت امام مظفر صاحب، حضرت مولانا مخدوم شرف الہدیٰ صاحب، حضرت خواجہ وحید اصغرعلیھم الرحمۃ والرضوان۔ 
بیعت و خلافت:۔ 
دستیاب شدہ معلومات و اطلاعات کے مطابق تدریسی دور میں ہی آپ بیعت و خلافت کی سعادت سے سرخرو ہوئے۔ پٹنہ سِٹی میں دریائے گنگا کے ساحل پر پرُسکون محلہّ ’’میتن گھاٹ‘‘ آباد ہے۔ یہاں اڑھائی صدی پہلے ایک مرد درویش صاحبِ دل صوفی اور ممتاز ترین اہل دیوان شاعر حضرت سّیدنا مولانا شاہ رکن الدین عشق قدّس سرہ [متوفی ۱۲۰۳؁ھ]  نے ایک خانقاہ بنام ’’خانقاہ عشق‘‘ کی بنیاد رکھی تھی اور سجادۂ فقر و تصوف آراستہ کر کے ایک جہاں کے باطنی امراض  و علل کا مداوا شروع فرمایا تھا۔ ان کے بعد وصال ان ہی کی مبارک نسل اور حسب و نسب کے لائق فائق افراد ورجال اس زریں سلسلے کو آگے بڑھاتے  رہے۔ تا آنکہ تیرہویں صدی ہجری میں نبیرۂ عشق حضرت سیدنا مولانا شاہ خواجہ لطیف علی قدّس سرہ ٔ  [متوفی ۱۲۹۹؁ھ]  کا دورِ پُر بہار آیا۔ حضرت لطیفیؔ انہی کے دست گرفتہ تربیت یافتہ عاشق سوختہ تھے۔ بیعت و خلافت،امور طریقت و اسرار حقیقت کی ساری دولتِ گراں مایہانہی کی ایک جنبش ابرو کے طفیل میسر ہوئی تھی۔ آپ سرکار شاہ خواجہ لطیف علی کے آستانۂ فلک آشیانہ سے بارہ سال تک چمٹے رہے اور فرضِ غلامی کی ادائیگی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ فرمایا۔
وطن واپسی اور دینی و علمی خدمات:۔ 
طلب علم اور پھر درس وتدریس میں آپ نے اپنی زندگی کی چھ دہائی بیرونِ وطن بسر فرمائی۔ ساتویں دہائی کے اوائل میں وطن مالوف تشریف لائے۔
 یہاں آکر مدرسہ و خانقاہ لطیفیہ کی داغ بیل ڈالی اور ایک عالیشان مسجد کی بُنیاد رکھی۔ ان دنوں اس خطّے میں جسے آج سیمانچل اور مالدہ و دیناج پور اضلاع بنگال سے موسوم کیا جاتا ہے۔ دینی تعلیم کا کوئی ادارہ نہ تھا۔ اس لیے فطری طور پر ’’مدرسہ وخانقاہ لطیفیہ‘‘ کے قیام کی خوب پذیرائی ہوئی اور اس کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ کچھ ہی مدت  میں علاقائی سطح پر طالبانِ علوم نبویہ کی ایک قابلِ ذکر تعداد اس ادارے سے فیضیاب ہوئی اور پھر جنہوں نے اپنے اپنے علاقے ، میں مدرسہ و دینی مکاتب کی صفیں کھڑی کیں۔جامعہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار، جامعہ شرفیہ لطیفیہ کشن گنج جیسے فعال و با وقار تعلیمی ادارے اسی مدرسہ و خانقاہ لطیفیہ کی تعلیمی تحریک اور جد و جہد عمل کے آثار و علامات ہیں۔ صحیح معنوں میں یہ ایک چراغ کیا جلا کہ ان گنت چراغ جل اُٹھے۔ یہاں بھی آپ نے علمی و قلمی کام کیا۔ متعدد علوم و فنون پر درجن بھر کتابیں تحریر فرمائیں۔ مکتوبات لطیفی، رقعاتِ لطیفی، جریس الغیب، خذ بجد بما اغنی من الکلام، تسہیل التصریف اور عجالہ نافعہ وغیرہ کتب ورسائل جو عربی و فارسی اور اردو زبانوں میں ہیں۔ یہیں تحریر کی لڑی میں پروئے گئے۔  مذکورہ بالا تصنیفات میں مکتوباتِ  لطیفی شاہکار کا درجہ رکھتی  ہے۔ اس میں حضرت لطیفی نے فقہ و کلام اور تصوف و سلوک کے ڈھیروں مسائل  و امور کو موضوع سخن بنایا ہے اور اپنے نادر تحقیقات و نفیس نکات کا ایک عجب سماں باندھ دیا ہے۔ مسئلہ امتناع کذب باری تعالیٰ کہ جسے حریفان ِ اہلِ سنت و الجماعت نے چھیڑ کر مسلّم الثبوت اسلامی عقائد میں نزاع کھڑا کر دیا تھا۔آپ نے اپنی علمی شوکت و خاراشگاف قلم سے اس مسئلے پر ان لوگوں کی اچھی خبر لی ہے اور انہیں چو طرفہ طریقے سے گھیر کر خوب منہ توڑ دنداں شکن جواب دیا ہے۔ بعض مکاتیب خصوصیت کے ساتھ باطل فرقوں کی رد وابطال ہی میں لکھے گئے ہیں کہ جن میں احقاق حق و ابطالِ باطل پر پختہ دلائل و براہین کا انبار ہے۔ اکژ مکاتیب تصوف و سلوک کے موضوع کا احاطہ کیے ہوئے ہیں جو درحقیقت بُنیادی موضوع سے حق و انصاف کا ناگزیر تقاضا بھی ہے، ان مکاتیب میں اس فن کے دقائق و اسرار بڑے دل نشین اسلوب میں واضح کیے گئے ہیں۔ مختصر یہ ہے کہ مکتوباتِ لطیفی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
بعض مشہور معاصرین اور ان سے تعلقات:۔
تحریک جدوہ در ردِّ تحریک ندوہ کے حوالے سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؔ بریلوی،  تاج القحول  علامہ عبدالقادر بدایونی اور حافظ بخاری علامہ عبد الصمد سہوانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے ساتھ آپ کی قربت و رفاقت اور ہم مجلسی کا ثبوت ملتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب تحریک ندوہ کی شر انگیزی و فتنہ سامانی حد سے فزوں ہوئی تو ان مذکوۃالصدر حضرات نے اس کے بالمقابل تحریک جدوہ کی بُنیاد رکھی اور اس کے پلیٹ فارم سے اصلاح امت  وفروغِ دین کا کام شروع فرمایا۔ اس تحریک کی بھر پور کامیابی کے لیے ہم مسلک و ہم فکر و خیال افراد و اصحاب کی ضرورت تھی۔ اس لیے ان بزرگوں نے ملک بھر کے طول وعرض سے اکابر واعاظم علماء ومشائخ اہلِ سنت کو اس تحریک سے جوڑنا چاہا۔ حضرت لطیفیؔ اسی موقع پر ان حضرات سے قریب ہوئے اور پھر رفتہ رفتہ ان بزرگوں کیے درمیان باہمی وابستگی استوار ہوئی۔ ان جلیل القدر ہستیوں کے علاوہ یہ حضرات قدسیہ بھی آپ کے احباب و ہم مجلسوں میں تھے۔ حضرت مولانا شاہ امین احمد فردوسی، حضرت مولاناقاضی عبد الوحیدفردوسی، حضرت مولانا قادر بخش سہسرامی اور حضرت مولانا شاہ ملیح الدین کبیری علیہھم الرحمۃ و الرضوان۔
وقت کی ایک اہم ضرورت:۔
قدوۃ العلماء زبدۃ الفضلاء حضرت مولانا شاہ حفیظ الدین لطیفیؔ علیہ الرحمۃ و الرضوان کی طویل دینی، علمی، قلمی، تحریکی، دعوتی، تبلیغی، سماجی اور ممتاز روحانی خدمات کے تناظر میں یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ دور دیس کے نہ سہی تو کم از کم سیمانچل دیار و اضلاع مالدہ و دیناج پور کے اربابِ علم و قلم وصاحبان لوح و قرطاس اُٹھیں اور چودھویں صدی ہجری کے اس  نابغۂ روزگار و نادر دہر کی کتاب حیات کے بکھرئے ہوئے اوراق کو سمیٹیں، ان کی خدمات و کاوشوں کے انمٹ نقوش کو آراستہ و پیراستہ کریں۔ ان کی درجن بھر اہم تصانیف و رشحات فکر جو ایک صدی قبل مطبوع ہوئی تھیں۔ اب نایاب ہیں کو ازسرِنو ایڈیٹ کر کے علمی حلقے تک پہنچائیں۔ حضرت لطیفیؔ کسی خاندان کے صرف مورثِ اعلیٰ و مُربّی اول ہی  نہ تھے بلکہ تاریخی واقعہ تو یہ ہے کہ اہلِ سنت و جماعت کے بلا امتیاز و تفریق علمی مقتدیٰ و پیشوا اور روحانی اما م وسالار بھی تھے۔
وصالِ پُر ملال:۔
پوری حیات مستعار وطن و بیرونِ وطن میں دینی و ملّی خدمات اور تبلیغی و اشاعتی کاوشوں نیز علمی و قلمی کارناموں کو انجام دینے کے بعد ۳۰ ؍ جمادی الاولیٰ  ۱۳۳۳؁ھ  کو پیامِ اجل آیا اور آپ جاں جانِ  آفریں کو سپرد کر گئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون 
ہر سال مذکورہ تاریخ میں بڑے تزک و احتشام کے ساتھ آپ کا عرس پاک منعقد ہوتا ہے۔ جس میں بہار و بنگال اور بنگلہ دیش و نیپال سے کثیر تعداد میں ارادتمندوں کی بھیڑ اکٹھا ہوتی ہے۔ گنبد و مینار کے ساتھ آپ کا پُر شکوہ مقبرہ بنا ہوا ہے۔ مزارِ پاک سے متّصل جامع مسجد لطیفیؔ اور حجرہ شریف بھی ہے۔ جب کہ آستانہ کے صحن میں آپ کی روحانی یادگار ’’مدرسہ لطیفیہ‘‘  ہے۔
خوشا مسجد و مدرسہ وخانقاہے۔
کہ دروے بود قیل وقال محّمد
 نوٹ: ۱۱۰؍ واں عرس حفیظی خانقاہ  رحمن پور کے حسین موقع  کے خیال سے  یہ خصوصی مضمون  شمالی مشرقی ہند کے مشہور اور مقبول عام وخاص اخبار روز نامہ ’’ الحیات رانچی‘‘ جھاڑ کھنڈ میں  شائع ہوا ہے۔ عرس کے ایام میں طبع کرا کر یہاں  بروقت دستیابی ناممکن امرتھی، رانچی سے رحمن پور  تک کے لیے  بّری وفضائی  وغیرہ ایسے ذرائع  ووسائل فراہم  نہیں کہ معاملہ آسان وصاف سمجھا جاتا ۔ اس لیے تاخیر سے سہی  یہ گراں قدر معلوماتی سر مایہ  ہدیۂ قارئین ہے۔  ملک کے نامور وبلند اقبال صحافی  اور عظیم اسکالر عالی جنابمحمد رحمت اللہ صاحب ، ایڈیٹر، پرنٹر ، پبلشراور پروپرائٹر روزنامہ ’’ الحیات رانچی‘‘ نے صرف علما وصوفیا کی عزت افزائی اورقدردانی کے مخلصانہ جذبات کے تحت اسے شامل اشاعت کیا ہے ، انھیں دعاے خیر اور نیک خواہشات سے نوازیں ۔[  مضمون نگار]