مودی کے نئے بھارت میں نفرت,بے روزگاری اور مہنگائی عروج پر

سرفرازاحمد قاسمی،حیدرآباد
برائے رابطہ: 8099695186
 
  دن جیسے جیسے گذررہاہے ملک کے حالات انتہائی پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں،بہت تیزرفتاری کے ساتھ بھارت فاشزم کی جانب بڑھ رہاہے،ملک کا دستور اور اسکا سیکولر کردار بھی خطرے میں ہے، عملاً ہندو راشٹر اس ملک کو بنایا جاچکا ہے،اب صرف اعلان باقی ہے، آرایس ایس کا ہندو راشٹر کیسا ہوگا اب یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے،کھلے عام دھرم سنسد کے نام پر نفرت کا کاروبار جاری ہے اوراس پر کاروائی کےلئے ملک کی ساری ایجنسیاں بے بس ہیں،جب کوئی معاملہ مسلمانوں سے متعلق ہوتا ہے یا اسے مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیاجاتاہے تب ملک کی ساری ایجنسیاں متحرک ہوجاتی ہیں،اور فوری طور پر کارروائی شروع ہوجاتی ہے،لیکن اسی ملک میں کھلے عام مسلمانوں کو قتل کرنے کا اعلان کیاجارہا ہے،دھرم سنسد سبھا میں مہاتما گاندھی کو گندی  گالیاں دی جاتی ہیں ،انکے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو نمسکار کیاجاتاہے،سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کو گولیاں مارنے کی بات کی جاتی ہے،اور یہ سب چیزیں وائرل بھی ہوجاتی ہیں لیکن اسکے باوجود ابھی تک کوئی کاروائی نہیں ہوئی،ایف آئی آر میں صرف چند لوگوں کے نام کا اندراج کیاگیا،اور بس، اسکے بعد ایک طویل خاموشی ہے،حیران کن سناٹا ہے،ایسا لگتاہے کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو سانپ سونگھ گیاہو،اور ملک میں کیا ہورہاہے اسکی انھیں خبر نہیں،اب آپ سوچئے اگر تھوڑی دیر کےلئے کوئی مسلمان اسطرح کی بات کرتا،کوئی مسلم تنظیم اگر ایسا پروگرام کرتی تب بھی حکومت اور ایجنسیوں کا معاملہ ایسا ہی ہوتا؟ اتنے حساس معاملے پر اسطرح کی معنی خیز خاموشی کا کیا مطلب ہوسکتاہے؟جبکہ اس معاملے پر کم ازکم عدالت کو نوٹس لینا چاہئے تھا اور سوموٹو کے ذریعے اپنے اختیارات کا استعمال کرناچاہئے تھا،لیکن ملک بھر کے 76نامور وکلاء جن میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے سابق ججس بھی شامل ہیں،دس بارہ دن قبل چیف جسٹس آف انڈیا کو ایک درخواست لکھکر کارروائی کی اپیل کی ہے لیکن ابھی تک چیف جسٹس اور سپریم کورٹ نے کوئی ایکشن نہیں لیا ہے،آخر کس چیز کا انتظار کیا جارہاہے ہے؟ہندو دھرم سنسد میں مہاتما گاندھی کو گندی گالیاں دینا اور گوڈسے کو نمسکار کرنا اور پھر ان ساری باتوں پر مودی کی خاموشی کیا آپ کو لگتا نہیں ہے کہ   گاندھی کے اس ملک کو اب  اسکے قاتل گوڈ سے کا بنایا جارہاہے،اور گوڈسے کا ملک بنانے کےلئے نفرت کی کھیتی ضروری ہے،مہاتما گاندھی کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کے خلاف حکمراں پارٹی کے کسی ایک رکن نے اب تک کوئی بیان نہیں دیا،کیا اسکے باوجود آپ کو لگتاہے کہ ہمارا ملک بھارت محفوظ ہاتھوں میں ہے؟جی نہیں بالکل ہراعتبار سے اب ہندوستان  غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے،غلط لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار کی باگ ڈور دے دی گئی ہے، اور یہ لوگ ہندوستانی تاریخ کے سب سے ناکام لوگ، نا اہل حکومت اور انتہائی نکمے وزیراعظم ثابت ہوئے،ظاہر ہے ایسے لوگ اقتدار میں رہنے اور حکومت کی کرسی سنبھالنے کے ہرگز  لائق نہیں،اسلئے جتنا جلد ہو ایسے لوگوں سے ملک کو نجات دلانا وقت کا اہم تقاضا ہے،مودی کے نئے بھارت اور نیوانڈیا میں نفرت،بے روزگاری اور مہنگائی عروج پر ہے ظاہر ہے یہ چیزیں ملک کو کھوکھلا اور کمزور ہی کریں گی  طاقت ور نہیں بناسکتی،نفرت کا بازار تو اسی وقت سے گرم ہے جب 2014 میں بی جے پی اقتدار میں آئی تھی،یہ نفرت اور شدت پسندی کا سلسلہ ماب لنچنگ سے شروع ہوا جسے اب دھرم سنسد کی غنڈہ گردی نے  عروج عطاکردیا،ہریدوار کے دھرم سنسد میں جسطرح مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر اگلا گیا،انکے خلاف تشدد کےلئے اکثریتی طبقے کو اکسایا گیا،اسکا اثر کل ہی دہلی میں بھی دیکھنے کو ملا،دہلی کی آرٹی سی بس میں سوار ایک مسلم نوجوان کو خاتون کنڈکٹر  نے بس سے اسلئے اتاردیا کہ وہ اپنے ساتھ چکن قورمہ(سالن خریدکر) لے جارہا تھا،اس واقعہ کی ویڈیو وائرل ہوگئی،جس میں دیکھا جاسکتاہے کہ محمد عمران نامی نوجوان نے شیومندر حضرت نظام الدین علاقے سے 410 روٹ پر آرٹی سی بس میں سوارہوا،بس میں چڑھتے ہی عمران سے خاتون کنڈکٹر  نے پوچھا کہ تھیلی میں کیا ہے؟عمران نے بتایاکہ اس میں چکن قورمہ ہے اور وہ اسے گھر لے جارہاہے،یہ سنتے ہی کنڈکٹر نے عمران کے ساتھ بدتمیزی کی اور پھراسے بس سے باہر اتار دیا،عمران نے بتایا کہ جب میں نے وجہ پوچھی تو کنڈکٹر  نے کہا کہ بس میں چکن نہیں جائے گا،میں نے ان سے پوچھا کہ ایسا کہاں لکھا ہے کہ بس میں پیک کیا ہوا پارسل کھانا نہیں لے جایا جاسکتا،عمران نے بتایاکہ خاتون کنڈکٹر اور بس ڈرائیور نے بس کو روکا، میرے ساتھ بدتمیزی کی اور زبردستی مجھے بس سے اتاردیا،اسی نفرت کے نتیجے میں بلی بائی ایپ بناکر اوراس میں مسلم خواتین کی تصاویر اپلوڈ کرکے سوشل میڈیا پر ہراج کیاجارہا ہے،جو مسلم خواتین کی کردارکشی کی مذموم کوشش ہے،اس ایپ میں شامل کی گئیں اکثر خواتین کا سی اے اے اور این آرسی کے خلاف احتجاج میں اہم رول رہاہے،اس سے قبل بھی سلی ڈیل کے نام سے ایپ بناکر ایسی ہی گھناؤنی حرکت کی گئی تھی،یہ نفرت کی ایک جھلک ہے،یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہری دوار کی دھرم سنسد ہو،دہلی میں ہندو یووا واہنی کا پروگرام ہو یا پھر گرو دوارہ لکھپت صاحب سے مودی کا خطاب سب کا مقصد ایک ہی ہے،یعنی نفرت پھیلانا اور نفرت کی تشہیر کرنا،یہ دراصل سنگھ پریوار اور ہندتوا کا ایجنڈا ہے،جسکی بنیاد مسلم مخالفت پر ہے،یہ نیوانڈیا ہے جہاں آئینی طور پر سیکولر ملک کا وزیراعظم کسی ہندو راجہ کی طرح ہندو مذہبی عمارتوں اور پراجیکٹس کا ہندو رسم و رواج اور پوجا پاٹ کے ذریعے افتتاح کرتاہے،سیکولر ملک کا وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی ہندو مذہب اور تہذیب کو ہائی لائٹ کرتاہے بلکہ ملک میں چل رہے ترقیاتی پراجیکٹس کو بھی قدیم ہندو علوم سے جوڑتا ہے اور ساتھ ہی بات بات میں مسلم حکمرانوں کو باہری حملہ آور اور انکے دور حمکرانی کو دور غلامی کہہ کر ہندو مذہب و تہذیب کی رونمائی کو مسلم مخالفت کا تڑکا بھی دیتاہے،اوپر کے ان سطور سے آپ اچھی طرح سمجھ گئے ہونگے  کہ نفرت کا پرچار اور اس غلاظت کو پھیلانے والے کون لوگ ہیں؟ اور یہ سلسلہ کہاں سے چل رہا ہے؟  اب آئیے ذرا یہ دیکھتے ہیں کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح کیا ہے؟ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی(سی ایم آئی ای) نے اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ ایک دو دن قبل جاری کی ہے،اسکے اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان کی شرح بے روزگاری دسمبر میں 4ماہ کی ریکارڈ سطح پہونچ گئی،دسمبر میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 7,9 فیصد ہوگئی ہے،جبکہ نومبر میں یہ 7فیصد تھی،دسمبر کی یہ شرح اگست میں 8,3 فیصد کے بعد سے سب سے زیادہ ہے،غور طلب ہےکہ مئی 2021 میں ہندوستان میں شرح بے روزگاری سب سے زیادہ درج کی گئی تھی،سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کے اعدادوشمار سے پتہ چلتاہے کہ دسمبر میں شہری بے روزگاری شرح بڑھ کر 9,3 ہوگئی،سی ایم آئی ای کی ویب سائٹ پر شیئر کی گئی جانکاری کے مطابق اومیکرون کے معاملوں میں اضافہ کے بعد ملک میں معاشی سرگرمیاں اور صارفین کے جذبات متاثر ہوئے ہیں،ماہرین معاشیات کو تشویش ہے کہ اومیکرون گذشتہ سہ ماہی میں دیکھے گئے اقتصادی اصلاحات کے سدھار کو نقصان پہونچاسکتاہے،ریاستوں کی بات کریں تو دسمبر میں سب سے زیادہ بے روزگاری کی شرح ہریانہ کی رہی،یہاں یہ 34,1 فیصد رہی ہے،اسکے بعد راجستھان میں 27,1 فیصد،جھارکھنڈ میں 17,3 فیصد،بہار میں 16فیصد،اور جموں کشمیر میں 15 فیصد رہی،راجدھانی دہلی کی بات کریں تو دسمبر میں یہاں بے روزگاری کی شرح 9,8 فیصد رہی،سی ایم آئی ای کے مطابق ہندوستانی معیشت کی صحت کو بے روزگاری کی شرح درست طریقے  سے پیش کرتاہے،ہر مہینے 15 سے زیادہ عمر کے لوگوں کا گھر گھر جاکر سروے کرتاہے اور روزگار کے صورتحال کی جانکاری لیتاہے،دسمبر میں بے روزگاری کی شرح 7,9فیصد رہنے کا مطلب یہ ہے کہ کام کرنے کو تیار ہر ایک ہزار ورکر میں سے 79 لوگوں کو کام نہیں مل پایا یعنی وہ روزگار کےلئے بھٹکتے رہے،اور ہاتھ پیر مارتے رہے لیکن انھیں روزگار کے حصول میں ناکامی ہی ہاتھ آئی" یہ ہے مودی کے نئے بھارت میں بے روزگاری کی حقیقت،مودی حکومت کا کہنا ہے کہ کورونا وباء نے دنیا بھر کی معیشت کو بری طرح متاثرکیا ہے،لیکن سچی بات یہ ہے کہ بھارت کی معیشت کے منہدم  ہونے کا سلسلہ کورونا وباء سے قبل نوٹ بندی کے ساتھ ہی شروع ہوگیاتھا،جسے کورونا وباء اور سرمایہ دار نواز حکومت کی معاشی پالیسیوں نے تیزکیاہے اورجسکی وجہ سے ملک معاشی طور پرکھوکھلا ہورہاہے۔ 
 آگے  چلئے تو ریکارڈ توڑ مہنگائی نے عوام کو بحرانی میں مبتلاء کردیا ہے،دو ماہ پورے ہوچکے ہیں،گھریلو سطح پر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کوئی کمی بیشی نہیں کی گئی،مرکزی حکومت کی جانب سے 4نومبر کو پٹرول اور ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی میں بالترتیب 5اور10 روپے کی تخفیف کے اعلان کے بعد قیمتوں میں نمایاں کمی آئی تھی،لیکن اسکے بعد سے اب تک کھانے پینے کی دیگر اشیاء،سبزی گوشت اور دال وغیرہ عوام کی پہونچ سے باہر ہوتی جارہی ہے،اور اب یکم جنوری سے بہت ساری چیزیں مہنگی کردی گئی ہے،نئے سال کے آغاز پر مودی نے ملک کے عوام کو مہنگائی،قیمتوں میں اضافہ اور بے روزگاری کا تحفہ دیاہے،سال 2021 میں مہنگائی میں 100 تا 200 کا فیصد کا اضافہ ہوا ہے،گذشتہ سات سالوں کے دوران مودی حکومت نے ملک میں لوٹ مار کی ہے،پٹرول،ڈیزل،پکوان گیاس،پکوان تیل، دالیں، ترکاریاں، ملبوسات، کھانے پینے کی اشیاء،فٹ ویئر، مشروبات،اسٹیل،سیمنٹ،آٹو موبائیل اور کار وغیرہ کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کیاگیا ہے،جسکے نتیجے میں عام آدمی،مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے سے پریشان ہے، ملک کی معیشت، دیش  کے 6بڑے دولت مندوں کے ہاتھوں میں آچکی ہے اور مودی ان دولت مندوں کی پوری مدد کررہے ہیں،انھیں مہنگائی سے عام آدمی کی حالت کا کوئی اندازہ نہیں ہے،کانگریس پارٹی کا الزام ہے کہ نریندر مودی روزانہ چار مرتبہ کپڑے بدلتے ہیں اور میک اپ میں مصروف رہتے ہیں،مودی نے سات سال کے دوران پانچ مرتبہ اپنے استعمال کی گاڑیاں تبدیل کیاہے،ابھی  چند دن قبل ہی مودی کےلئے 14کروڑ کی لاگت سے نئی قیمتی کار خریدی گئی ہے،مودی کے دور حکومت میں سب کا ساتھ سب کاوکاس تو نہیں ہوا،عام آدمی کا وناش ہی ہوا،لیکن سب کا ساتھ مودی کا وکاس ضرورہوگیا،اگر کوئی ترقی ہوئی تو وہ یہ ہے کہ نفرت سر چڑھ کر بول رہاہے،بے روزگاری اپنی تاریخی بلندی پر ہے،اور مہنگائی انتہائی عروج پر ،مودی حکومت نے مشہور اور فائدہ مند عوامی اداروں کو خانگی شعبے کے ہاتھوں فروخت کرکے دولت مندوں کو فائدہ پہونچایا،جن اداروں کو خانگی شعبے کے ہاتھوں فروخت کیاگیا ہے ان میں ریلوے،لائف انشورنس، بندرگاہیں، ایرپورٹس، پٹرول کمپنی بی پی سی ایل، آرڈیننس اورفیاکٹریز وغیرہ شامل ہیں، ان اداروں میں جہاں لاکھوں ملازمین بر سر روزگار تھے،انھیں پرائیویٹ ہاتھوں بیچنے کے بعد اب ان اداروں میں ملازمین کی تخفیف کی جارہی ہے،جس سے ملک بھر میں بے روزگاری میں اضافہ ہورہاہے،مودی کی حکمرانی میں مستقبل میں مزید حالات خراب ہونے والے ہیں،دیش خطرناک موڑ پر کھڑا ہے،بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگاکہ ملک بارود کی ڈھیر پر ہے کب پھٹ جائے کچھ نہیں کہاجاسکتا،کانگریس پارٹی کے مطابق ملک میں مہنگائی کا دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے،نومبر 2021 میں ڈبلیو پی آئی 14,23 فیصد پر ہے،جوکہ 10 سال سے زیادہ کی بلند ترین سطح پر ہے، نئے سال میں اسکے اثرات مزید تیزی سے  محسوس کئے جائیں گے،یہ ہے مودی کا نیا ہندوستان اور نیا بھارت جسکا اعلان انھوں نے 2014 میں کیاتھا،مودی نے یہ بھی کہاتھا کہ میں ایسا کام کروں گا جو70 سالوں میں نہیں ہوا اور کسی حکومت نے نہیں کیا،واقعی یہ بات سچ ہے کہ مودی نے جسطرح نفرت،بےروزگاری،اورمہنگائی وغیرہ کوعروج بخشا یہ کام کسی حکومت نے نہیں کیا،مودی نے اسے کردکھایا۔اسلئے کیا یہ سمجھا جانا چاہیے کہ اسطرح کی پالیسی اختیار کرکے اورالٹے سیدھے فیصلے کرکے بھارت کو وشو گرو بنایا جارہاہے۔