مولوی محمد باقر : قومی صحافت کا نقّاشِ اوّل

صفدر امام قادری شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ [دوسری قسط] دہلی اردو اخبار کا سالِ اجرا اور اشاعت اردو صحافت کی تاریخ کے لیے یہ بات کم پیچیدہ نہیں کہ مولوی محمد باقر کی واحد یادگار ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ آخر کب سے شایع ہوا۔۱۸۳۶، ۱۸۳۷ یا ۱۸۳۸ ؟ محققین نے ان سوالوں کو بہ نظرِ توجہ دیکھا اور ممکنہ حد تک ایک ایک چھوٹی بات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنے نتائج کی طرف بڑھنے کی کوششیں کیں۔اصل دشواری یہ ہے کہ ابتدائی دور کے شمارے کہیں دستیاب نہیں اور غدر کے بعد مولوی محمدباقر کے خاندان کی جو بے سر و سامانی رہی،اس سے ضروری آثار کے محفوظ رہنے کی یکسر توقعات نہیں کی جا سکتیں۔اس اخبارکے ابتدائی شمارے جو دستیاب ہو ئے، وہ ۱۸۴۰ ء اور ۱۸۴۱ ء کے تھے۔چودھری عبد الغفور سرور کے نام مرقوم غالب کے ایک خط سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ۱۸۳۷ ء کے اکتوبر مہینے سے قبل سے یہ اخبار نکلتا تھا۔’آبِ حیات ‘میں محمد حسین آزاد نے ۱۸۳۶ ء کی تاریخ درج کی ہے ۔قاسم علی سجن لال ،مارگریٹا بارنس ، ڈاکٹر عبد السلام خورشید اور مولانا امداد صابری نے محمد حسین آزاد کے بیان کے مطابق اپنی کتابوں میں ۱۸۳۶ ء کو ہی اس اخبار کا سالِ اجرا قرار دیا ہے۔عتیق صدیقی اور نادر علی خاںنے ۱۸۳۷ء کو سالِ اجرا قرار دیا ہے۔ ۱۸۴۰ ء اور ۱۸۴۱ ء کی دو جلدیں جو نیشنل آرکایوز سے حاصل ہوئیں ،ان کے مطابق عتیق صدیقی نے اجرا کی تاریخ متعین کرنے کی کوشش کی۔۲۶ جنوری ۱۸۴۰ ء کا جو اوّلین شمارہ دستیاب ہوا، اس پر جلد سوم اور نمبر ۱۵۳ درج ہے۔اس سے ان محققین نے روشنی حاصل کر کے تاریخ میں پیچھے جانے کی کوشش کی۔عتیق صدیقی نے تخمینہ لگایا کہ دہلی اخبار کا اجرا جنوری ۱۸۳۷ء میں ہوا ہوگا۔مگر نادر علی خاں اسی طریقۂ کار کو آزماتے ہوئے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ مولوی محمد باقر کے اخبار کا پہلا شمارہ ۲۳ فروری ۱۸۳۷ ء کو منظرِ عام پر آیا ہوگا۔ جناب عادل فراز نے دہلی اردو اخبار کے اجرا کے سلسلے سے ایک نیا حوالہ اخبار ’’ماہ افروز عالم‘‘ سے پیش کیا ہے ۔اس دور میں اخبارات ایک دوسرے کی خبروں کی نقل حوالے کے ساتھ شایع کرتے رہتے تھے۔دہلی اردو اخبار کے ۱۷ مئی ۱۸۳۶ ء کے شمارے سے ایک خبر ’’ماہ افروز عالم‘‘ کے شمارہ ۲۱ جولائی ۱۸۳۶ ء میں شایع ہوئی۔ہر چند اخبار نے اس خبر کا فارسی ترجمہ شایع کیا ہے مگریہ بات حتمی طور پر طے ہو جاتی ہے کہ ۱۸۳۶ء میں دہلی ارود اخبار نکل رہا تھا۔اس حوالے میں اخبارِ دہلی (دہلی اخبار)موجود ہے ۔معلوم ہو کہ آغاز سے ۳ مئی ۱۸۴۰ء تک اخبار کا نام ’’دہلی اخبار‘‘ رہا ۔۱۰ مئی ۱۸۴۰ء سے اس کے نام کے بیچ میں ’’اردو‘‘ کا اضافہ ہوا اور اس کا مکمل نام ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ ہو گیا۔۱۲ جولائی ۱۸۵۷ ء کے شمارہ بابت جلد ۱۹ نمبر ۲۸ سے اس اخبار کا نام ’’اخبار الظفر‘‘ ہو گیا۔اس طور پر یہ باضابطہ انگریز مخالف اور بادشاہ کی حمایت میں سامنے آگیا ۔۱۳ ستمبر ۱۸۵۷ ء کو آخری شمارے کے ساتھ اس کی زندگی انجام کو پہنچی۔تین دنوں کو بعد خود مولوی محمد باقر بھی غدر کی بھینٹ چڑھا دیے گے۔بعض محققین نے یہ بھی بتایا ہے کہ یہ اخبار بیچ میں دو برسوں کے لیے بند ہو گیا تھا۔مگر اس پر اتفاق راے نہیں ۔سرکاری رپورٹوں سے بھی واضح طور پر یہ بات معلوم نہیں ہو پاتی کہ کن برسوں میں یہ اخبار التوا کا شکار رہا ۔حالاںکہ جلد نمبر کے شمار سے دو برس کے التوا کا اندازہ ہوتا ہے ورنہ ۱۸۳۶ سے ۱۸۵۷ تک ۲۱ یا ۲۲ جلدیں ہونی چاہیے تھیں۔جب کہ’ اخبار الظفر ‘کے آخری شمارے میں جلد ۱۹ ہی نظر آتا ہے۔ناموں کی تبدیلی سے اس اخبار کے شمارہ نمبر اور جلد نمبر کا اندراج بدلتا نہیں تھا۔کیوں کہ ۱۸۴۰ ء میں ’’دہلی اردو اخبار‘‘ اور ۱۸۵۷ ء میں ’’اخبار الظفر‘‘ ہونے کے باوجود پرانی گنتی چلتی رہی۔ ’’دہلی اردو اخبار‘‘ میں بالعموم مولوی محمد باقر کا نام کسی حیثیت سے شایع نہیں ہوتا تھا۔اگر چہ وہ اخبار کے مالک اور ایڈیٹر دونوں تھے مگر اس کا باضابطہ کوئی اندراج نظر نہیں آتا۔۱۲جولائی ۱۸۴۰ ء کے شمارے میں ایک سرکلر کی تفصیل میں جو وضاحتیں شامل کی گئی ہیں،ان کی رو سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولوی محمد باقر اس اخبار کے لیے کوئی اجنبی شخص ہیں۔یہ اقتباس ملاحظہ کریں: ’’یہ ترجمہ کیا ہوا ہے مولوی محمد باقر نامی ایک صاحب کا جو سابق میں مدرس تھے مدرسہ خاص دہلی میں۔سر رشتہ داری کلکٹر اور تحصیل داری مدّت تک کی ہے ۔مال کے کام میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔‘‘ دہلی کالج، ٹیلر اور مولوی محمد باقر مولوی محمد باقر کی زندگی کے حوالے سے ایک انگریزشخص ٹیلرکا تذکرہ آتا رہاہے۔ ٹیلر کا مکمّل نام فرانسس ٹیلر تھا۔دہلی کالج کے قیام اور اس کی ترقی کے معاملات میں ٹیلر کی بنیادی حیثیت تسلیم کی گئی ہے۔۱۸۲۵ء میں جب دہلی کالج کی بنیاد رکھی گئی، ٹیلر کو کالج کا سپرنٹنڈنٹ بنایا گیا۔ان کی تنخواہ ڈیڑھ سو روپے مقرر ہوئی۔۱۸۲۸ ء میں تین برس بعد ٹیلر کی تنخواہ میں ڈیڑھ سو روپے کا اضافہ کرکے اسے ماہانہ تین سو روپے دیے جانے لگے۔۱۸۲۵ء میں ہی مولوی محمد باقر بہ حیثیتِ طالب علم دہلی کالج میں داخل ہوئے ۔دونوں کے درمیان اسی دور میں ایک دوستانہ تعلق قایم ہوگیا ۔پھر ۱۸۲۸ ء میں وہ دہلی کالج میں بہ حیثیتِ مدرس منتخب ہوئے۔اس ملازمت میں بھی ٹیلر کی معاونت شامل رہی۔ٹیلر نے مولوی محمد باقر کی مدرسی کے دوران ان سے اردو اور فارسی زبانیں سیکھی تھیں۔ ٹیلر اور مولوی محمد باقر کے درمیان کی قربت اورخصوصی رشتے کوکئی ذرایع سے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔دہلی کالج میں قایم چھاپا خانہ فروخت کرنے کے لیے دفتری طورپر جب طے ہو گیا تو ٹیلر نے مولوی محمد باقر کو اُسے خرید لینے کا مشورہ دیا۔اصل قیمت سے بہت کم رقم پر یہ پریس بیچا گیا۔ٹیلر کے مشورے سے ہی مولوی محمد باقر نے ایک نیلام گھر بنوایا تھا ۔یہ نیلام گھر ہفتے میں ایک بار لوگوں کے لیے کاروباری طور پر کام کرتا تھا ۔اس روز تاجر اپنے نئے سامانوں کے ساتھ آتے، وہاں قیام کرتے اور پھر ملک اور بیرونِ ملک کے سامان بالخصوص عجائبات خریدے اور بیچے جاتے تھے۔مولوی باقر نے ٹیلر کے مشورے سے ہی اپنے صاحب زادے محمد حسین آزاد کا داخلہ دہلی کالج میں کرایا تھا۔ ٹیلر کا ۱۸۲۵ ء سے ۱۸۴۰ ء تک بہ حیثیت سپرنٹنڈنٹ دہلی کالج سے تعلق رہا۔ اس کے بعد بھی وہ قایم مقام پرنسپل کے طور پر کئی بار دہلی کالج سے متعلق ہوا ۔جب تک دہلی کالج سے ٹیلر کا کسی نہ کسی جہت کا رشتہ قایم رہا، مولوی محمد باقر کا بھی کالج سے رسمی یا غیر رسمی تعلق قایم رہا۔محمد اکرام چغتائی نے واضح لفظوں میں لکھا ہے کہ اشپرنگر کے دورِ پرنسپلی میں مولوی محمد باقر کا کالج آنا جانا بند رہا۔ٹیلر کے بارے میں دہلی ارود اخبار میں متواتر خبریں شایع ہوتی رہتی تھیں۔ان اطلاعات سے دونوں کے دوستانہ مراسم پورے طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔۱۸۵۳ ء میں جب فرانسس ٹیلر نے انگلینڈ جانے کے لیے کالج سے رخصت حاصل کی،اس وقت دہلی کالج کے اسٹاف اور طلبا کی جانب سے ایک اعزازی تقریب منعقد ہوئی۔ اس موقعے سے ٹیلر کی تعلیمی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کیا گیا۔اس موقعے سے ٹیلر کے کارناموں کے بارے میں ایک مکمل عرض داشت پیش کی گئی۔ بعد میں وہ دہلی اردو اخبار میں تقریباً دو صفحات میں شایع کی گئی۔اس سے بھی ٹیلر اور ایڈیٹر دہلی اردو اخبار کے درمیان قریبی رشتے کو سمجھا جا سکتا ہے۔ مولوی محمد باقر کی شخصیت سے متعلق تنازعات دہلی کی تہذیبی اور ثقافتی حیثیت کے بارے میں اطّلاعات جمع کرتے ہوئی یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ وہاں مسلمانوں کے بیچ مسلکی اختلافات شدید تھے اور وقتاً فوقتاً کسی واقعے یا حادثے سے اس میں شعلگی پیدا ہوتی رہتی تھی۔مرزا مظہر جان جاناں کا قتل اٹھارہویں صدی کے ان مسلکی اختلافات کا ایک کریہہ چہرہ سامنے لاتا ہے۔گہرائی سے دیکھنے پر یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان تنازعات میں شاہی دربار ،حکّام اور امراو رئوسا بہر طور شامل رہتے ۔مولوی محمد باقر کا خاندان روادارانہ ماحول میں پھلا پھولا تھا۔مولوی باقر کے والد مجتہد تھے اور مولوی باقر کے یہاں بھی یہی انداز تھا۔انگریزوں نے فطری طور پر مسلمانوں کے مسلکی اختلاف کو گہرائی سے سمجھ رکھا تھا، اس لیے حسبِ ضرورت اسے اُبھارنے یا کچلنے میں وہ اپنی توجہ صرف کرتے تھے۔ ۱۷۹۲ ء میں مدرسہ ٔ غازی الدین، ۱۸۲۵ ء میں دہلی کالج جہاں عربی فارسی کی تعلیم کا انتظام تھا،۱۸۲۸ میں انگریزی مضمون کی تعلیم کا سلسلہ؛ دہلی کالج کی یہ ایک مختصر سی تاریخ ہے۔نواب اعتماد الدولہ نے اپنی وفات سے چند ماہ پہلے دہلی کالج کے لیے ایک لاکھ ستّر ہزارروپے کی رقم وقف کر تے ہوئے ایک وصیت نامہ بہ زبانِ فارسی تیّار کرایا جس کی رو سے عربی ،فارسی اورسائنس کی تعلیم کی مد میں اسے خرچ کرنا تھا ۔نواب اعتماد الدولہ کے بعد نواب سیّد حامد علی خاں اس وصیت کے مطابق نگراں مقرر ہوئے ۔ٹیلر کی جب تنخواہ بڑھائی گئی تو نواب صاحب نے اس پر اعتراض کیا اور واضح لفظوں میں بار بار حکومت کو بتایا کہ وقف کی رو سے اس رقم سے ٹیلر کی تنخواہ دی جانی مناسب نہیں ہے۔کیونکہ ٹیلر مذہب ،مسلک یا زبان تینوں معاملات میں وقف کی رو سے اس رقم سے فیض پانے کااہل نہیں ہو سکتا ۔۱۸۴۰ ء میں آخر ٹیلر کو اِس اچھی تنخواہ سے دست بردار ہونا پڑا ۔ٹیلر اور نواب حامد علی خاں میں داخلی طور پر اسی مرحلے میں اختلافات پیدا ہوئے ۔ان اختلافات میں مولوی محمد باقر کسی نہ کسی جہت سے شریک ہو گئے بلکہ اس کی متعدد کریہہ شاخیں بھی یہیں سے نکلتی چلی گئیں۔ مولوی محمد باقر کو تمام علمی اور سماجی حیثیات کے باوجود شیعہ استاد کے طور پر دہلی کالج میںموقع نہیں دیا گیا اور لکھنو ٔ سے قاری جعفر علی کو اس کام کے لیے بلا یا گیا۔اس کے پیچھے نواب حامد علی خاںکا سیدھا ہاتھ تھا کیونکہ بار بار وہ حکومت کو یہ بات گوش گزار کراتے رہے کہ چونکہ معطّی کا مسلک شیعہ ہے ،اس لیے شیعہ طلبا کو الگ استاد فراہم کیا جائے۔اسی لیے قاری جعفر علی لکھنؤ سے بلائے گئے ورنہ ۱۸۴۰ ء تک دونوں مسلک کے طلبا ایک ہی استاد سے درس لیتے تھے۔نواب حامد علی خاں کالج کے باہر بھی مسلکی اعتبار سے بے دار شخص کے طور پر پہچان رکھتے تھے ۔اس دوران غالب کی وہ طرح طرح سے معاونت کرنے لگے اور ذوق کو درکنار کرنے کی کوشش کرتے رہے۔یہاں مولوی باقر کی صحافیانہ سرگرمیوں کے لیے نرم زمین تیارہوئی۔ان کے مربی اور دوست ٹیلر اور ذوق دونوں کی مخالفت میں چوں کہ نواب حامد علی خاں مرکزی حیثیت رکھتے تھے، اس لیے مولوی باقر نے ٹیلر اور ذوق کی طرف داری میں اپنے اخبار کے کالم سیاہ کیے۔یہی نہیں ،نواب حامد علی خاں کی مذمّت میں بھی خبریں شایع ہونے لگیں۔یہ اختلافات اس انداز سے بڑھتے جا رہے تھے جب محمد حسین آزاد کا ۱۸۴۵ ء میں دہلی کالج میں داخلہ ہوا تو ان کے مسلک کے اعتبار سے انھیں شیعہ استاد کے حوالے کیا گیا ۔کچھ دنوں تک محمد حسین آزاد نے قاری جعفرعلی سے درس لیا مگر مولوی باقر نے محمد حسین آزاد کا مضمون تبدیل کرا کر انھیں سنّی استاد کے حلقے میں ہی رکھنا قبول کیا۔کیونکہ وہ کسی ایسے استاد کے ذمّے اپنے صاحب زادے کو نہیں لگانا چاہتے تھے جو کسی نہ کسی طور ان سے کھلی دشمنی رکھتا ہو۔ مولوی محمد باقر اور قاری جعفرعلی کے درمیان آپسی مسلکی اختلافات تو ہو سکتے تھے مگر اس کی اصلی بنیاد دہلی کالج کی رنجش تھی۔دہلی کالج میں جب اشپرنگر۱۸۴۵ ء میں پرنسپل بن کر آیاتو ٹیلر سے اس کے واضح اختلافات قایم ہوگئے تھے۔جس طرح سے ٹیلر اور مولوی محمد باقر کی جوڑی بن گئی تھی، اسی طرح اس کے بعد کے زمانے میں اشپرنگر اور قاری جعفرعلی کی جوڑی کام کرنے لگی۔محمد اکرام چغتائی نے برلن میں واقع اشپرنگر کے ذاتی کتب خانے میں موجود متعدد ستاویزات سے استفادہ کرتے ہوئے محمد حسین آزاد اور ان کے والد اور اس موضوع کے متعلقات پر بہت ساری نئی معلومات فراہم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔اشپرنگر کے نام قاری جعفر کے متعدد خطوط سے دونوں کے ذاتی اور علمی رشتوں کے ثبوت ملتے ہیں۔اس ذخیرے میں اشپرنگر کے نام نواب حامد علی خاں کے بھی دو فارسی اور دو اردو مکاتیب موجود ہیں ۔ان سب سے اشپرنگر ،حامد علی خاں اور قاری جعفر علی کے قریبی رشتوںکی وضاحت ہو جاتی ہے ۔یہیں یہ بھی سمجھ میں آنا چاہیے کہ مسلکی اعتبار سے رفتہ رفتہ اختلاف کایہ لاوا بڑے پیمانے پر پھوٹنا ہی چھاہتا تھا۔ دہلی میں اہلِ تشیع کے درمیان دو طبقے پیدا ہو گئے: باقری اور جعفری ۔ دہلی اردو اخبار اس کا اکھاڑا بن گیا اور تقریباً چھے بر سوں تک دہلی کا مسلکی ماحول جیسے بگاڑ پر رہا، ویسا تاریخ میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔دہلی کالج کے سابق اور موجودہ اساتذہ کی یہ مسلکی چپقلش سماجی اعتبار سے نا خوشگواراور غیر صحت بخش ثابت ہوئی۔سارا شہر اور اصحابِ دانش رفتہ رفتہ کسی کی طر ف داری اور کسی کی مذمّت میں شامل ہوتے چلے گئے۔۱۸۴۸ء سے ۱۸۵۴ ء کے دوران ان دونوں کے تنازعات اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔بے شک اس میں مولوی محمد باقر کو یہ فایدہ حاصل تھا کہ ان کے ہاتھ میں ایک اخبار تھا اور اس کا وہ حسبِ ضرورت اپنے مفاد میں استعمال بھی کرتے تھے۔ یہاں یہ بات ذہن نشیں ہونی چاہیے کہ مولوی محمد باقر کی شخصیت میں کچھ عدم توازن کے آثار ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ان کی شخصیت میں شعلگی تھی۔ وہ تیز ردِّ عمل کے قائل تھے اور کسی معاملے پر بھی فوری طور پر برہمی کا اظہار کر سکتے تھے۔مولانا امداد صابری نے انھیں آزاد خیال،وسیع النظر،خود دار اور حق گو انسان قرار دیا ہے مگر اخبار کے مشتملات کا تجزیہ کرتے ہوئے انھوں نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ بہ آسانی یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ مولوی محمد باقر کے سماج میں کون سے دوست ہیں اور کن سے ان کی دشمنی ٹھنی ہوئی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ اخبار اور صحافت کے معروضی کردار اور مثالی رویے سے مختلف بات ہے۔ یہ سمجھنا درست نہیں ہوگا کہ مولوی محمد باقر اپنی صحافت سے کوئی مثالی کردار خلق کر رہے تھے۔بے شک بہت سارے معاملوں میں وہ اعلا صحافیانہ اقدار کو آزمانے میں کامیاب ہوئے تھے۔مگر اس دور کی بعض آزادانہ رپورٹ اور دوسرے اخبارات میں پیش کردہ تجزیوں میں کئی بار مولوی محمد باقر پر صحافیانہ معیار سے بے پروائی برتنے کے الزامات عاید ہوئے۔ذیل میں اُس دور کی مختلف ذرایع سے حاصل شدہ رپورٹوں کے اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں جن سے مولوی محمد باقر اور دہلی اردو اخبار کے صحافتی معیار پر چند سوالیہ نشانات قایم ہوتے ہیں: ’’ دہلی اردو اخبار ایک دریدہ دہن اخبار ہے،جو ذاتیات سے بھرا رہتا ہے۔ ذی اثر مقامی شرفا ،جو اس اخبار کے ایڈیٹر کے مذہبی خیالات سے اختلافات رکھتے ہیں ،وہ ان کی پگڑیاں اُچھالاکرتا ہے۔‘‘ ’’دہلی کالج کے اوّل عربی مدرس جعفر علی جو شیعہ ہیں، ان کے متعلق ایک خط اس اخبار میں شایع ہوا ہے، جس میں جعفر علی کو نا اہل اور اس عہدے کے لیے نا مناسب گردانا گیا ہے۔‘‘ ’’ایڈیٹر اپنی ذاتی مخاصمت کی وجہ سے دہلی کالج کے ایک استاد مولوی جعفر علی پر انتہائی دریدہ دہنی سے ہتک آمیز حملے کرتا رہتا ہے۔مذہبی مباحث میں بھی وہ اکثر الجھ جاتا ہے۔‘‘ ’’یہ ایک گندا اخبار ہے جو ذاتیات سے بھرا رہتا ہے ۔مقامی با عزت شرفاجو ایڈیٹر کے مذہبی خیالات سے اختلافات رکھتے ہیں ،یا جن سے کسی اور وجہ سے وہ ناراض ہیں،ان پر اپنے اخبار کے صفحات میں وہ براہِ راست یا با لواسطہ حملے کیا کرتا ہے۔‘‘ اسی طرح رسالہ ’ارشاد المومنین‘ (۱۲۷۰ھ) میں مولوی محمد باقر کے حوالے سے جوطرح طرح کے الزامات شایع ہوئے ہیں ،وہ ان کی طبیعت کی گرانی کا مظہر ہیں۔ذخیرۂ اشپرنگر میں محمد اکرام چغتائی صاحب کو خدا بخش نام کے ایک طالب علم کا خط بہ نام اشپرنگر حاصل ہوا جسے اس طالب علم نے اشپرنگر کو بھیجا تھا۔ اس خط پہ سنہ تحریر ۲۶ دسمبر ۱۸۴۸ ء درج ہے۔یہ طالب علم جماعتِ عربی اہلِ تشیع سے متعلق ہے اور مولوی جعفر علی کا براہِ راست شاگرد۔اس خط میں مولوی محمد باقر کے ذریعہ اپنے اخبار میں لگاتار سترہ مہینے سے مولوی سیّد جعفر علی کے سلسلے سے نازیبا خبریں چھاپنے کی اطّلاع دی گئی ہے۔اس طالب علم نے لکھا ہے کہ محمد باقر قایم مقام پرنسپل (ٹیلر) کے مصاحب ہیں ۔یہ بھی لکھا ہے کہ وہ شخص (مولوی محمد باقر) کہتا ہے کہ ڈاکٹر اشپرنگر تو نہیں ہیں، اب میں جو چاہوں، وہ کرا سکتا ہوں۔اس خط میں مولوی باقر پر مولوی جعفر علی کے طلبا کو پریشان کرنے اور دیگر اساتذہ کو تنگ و تباہ کرنے کی تفصیلات درج ہیں ۔ان شکایات میں بے شک مخالفانہ روش اور دشمنی کے امور بھی شامل ہوں گے۔مگر واقعات اور بیان کے اسلوب سے چھن چھن کر کچھ کیفیات سامنے آ رہی ہیں، ان کی رو سے مولوی محمد باقر کی شخصیت کی مخاصمت پسندی سے انکار کرنا مشکل ہے ۔ہر چند یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قاری جعفر علی اور مولوی محمد باقر کے بیچ جو اختلافات شروع ہوئے ، ان کے پیچھے نواب حامد علی خاں کا ہی پورا پورا ہاتھ تھا اور یہ جنگ مولوی باقر سے وہ آمنے سامنے لڑنا ضروری نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس کام کے لیے انھوں نے مولوی جعفر علی کو آگے کر رکھا تھا۔دہلی اردو اخبار میں مولوی باقر بھی کسی نہ کسی جہت سے نواب حامد علی خاں کے حوالے سے چھوٹی بڑی منفی خبریں بھی شایع کرتے رہتے تھے۔ مولوی محمد باقر بے شک دہلی کی تہذیبی و ثقافتی زندگی میں مرکزیت رکھتے تھے اور ان کا اخبار شمالی ہندستان کا پہلا اخبار تھا ۔ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی ان کا رُعب انگریزوں اور ہندستانیوں میں قایم تھا مگر شخصیت میں تعجیل پسندی اور زور آوری بنیادی حیثیت رکھتی تھیں۔کسی بھی کام میں بھڑ جانا اور مخالفین کو ان کے انجام تک پہنچا دینا ؛ان کے مزاج کا حصّہ تھا۔اس عہد میں صحافت واقعی بڑی چیز تھی اور اس سے ان کی سماجی حیثیت بھی بلند و بالا ہوئی۔مگر صحافتی کج رویاں اور حالات کے جبر میں ’’جوابِ آں غزل‘‘ پیش کرنے کی ان کی خصوصیت نے کئی بار صحافت کے غیر متوازن انداز کو آزمانے پر مجبور کیا ۔ممکن ہے، اس میں ٹیلر کی حکمتِ عملی کا بھی تھوڑا بہت دخل ہو مگر یہ سچائی مانی جائے گی کہ مولوی محمد باقر نے اپنی صحافیانہ زندگی میں کبھی کبھی صحیح راستے سے ہٹ کر مصلحت کو شی کو بھی اپنا شعار بنایا۔ [جاری]