مولوی محمد باقر : قومی صحافت کا نقّاشِ اوّل

صفدر امام قادری شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ [آخری قسط] دہلی اردو اخبار اور مولوی محمد باقر : اردو صحافت کے معیار ساز یہ بات طے شدہ ہے کہ دہلی اردو اخبار نے اردو زبان کو صحافت کے آزادانہ طور پر معیار متیعن کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔دہلی اردو اخبار سے پہلے جو اخبارات شایع ہو چکے تھے ،ان سب کے مقابلے میں اس اخبار نے اپنے کاموں سے صحافتی معیار کا دعویٰ کیا۔اس زمانے کے سب سبے مہنگے اخبارات میں اس کا شمار ہوتا تھا ۔بیس روپے سالانہ رقم اس عہد کے اعتبار سے بڑی قیمت تھی۔شاید یہی وجہ ہو کہ یہ اخبار خواص میں اپنی زیادہ شناخت رکھتا تھا۔یوں بھی اخبار پڑھنے والا طبقہ غدر سے پہلے نہایت خاص اور با حیثیت طبقہ ہوتا ہوگا۔ہندستان میں تعلیم مٹھّی بھر لوگوں کے پاس تھی جو اخبار پڑھ سکتے تھے۔ مولوی باقر کا اختصاص کئی اسباب سے واضح ہے۔ان کا خاندان تعلیم یافتہ تھا اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ ان سے پہلے سے وہاں موجود تھا۔اس عہد کی گنجایش کے مطابق اعلا تعلیم کے جو وسائل دہلی میںممکن تھے ،وہ اس کے فیض یافتہ تھے۔ہندستانیوں کے ساتھ ساتھ انگریزوں سے ربط ضبط ہونے کی وجہ سے نئی دنیا کا ایک خاکہ ان کے ذہن میں رہا ہوگا۔تدریس کی ذمہّ داریوں سے فراغت اور سرکاری ملازمتوںسے بے رخی کے ادوار گزارتے ہوئے وہ پوری ذہنی تیاری کے ساتھ میدانِ صحافت میں وارد ہوئے تھے۔پریس پہلے بٹھا لیا تھا جس کے بغیر اخبار نکالنا شاید ممکن نہیں تھا۔ہندستان کے سیاسی،سماجی اور تعلیمی ماحول سے بھی وہ پورے طور پر واقفیت رکھتے تھے۔ اس لیے جب مولوی باقرمیدانِ صحافت میں آئے تو ان کے کام نو آموزوں کی طرح نہیں ہو سکتے تھے۔اخبار کے کالم بڑے دانش مندانہ انداز سے طے کیے گئے۔’’حضورِ والا‘‘ اور’’ صاحب کلاںبہادر‘‘ جیسے کالم اور پھران کے لیے مخصوص جگہ کا تعین بتاتا ہے کہ صحافی کی حیثیت سے ان کا ذہن اپنے آپ میںکس قدر تربیت یافتہ تھا۔ اخبار کے جو اوراق محفوظ رہ سکے ،انھی بنیاد وںپر مولوی محمد باقر یا دہلی اردو اخبار کے معیار اور مقام کی گفتگو ممکن ہے۔بے شک یہ سرمایہ ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے اور دو برس کے اخبارات تو ترتیب و تدوین کی منزلوں سے گزر کر ہر کس وناکس کے لیے دستیاب ہیں۔اردو صحافت کی تاریخ سے متعلق یا غدر کے بارے میں کوئی ایسی کتاب سامنے نہیں آ سکتی جس میں مولوی محمد باقر کے اس اخبار کے تراشے بہ طورِ مثال شامل نہ کیے گئے ہوں۔ دہلی اردو اخبار کی بنیادی اہمیت تو بالآخر ہم وطنوں کے مفاد کو محفوظ رکھنے اور انگریزوں کی عوام مخالف پالیسیوں کی وجہ سے قایم ہوتی ہے۔۳۱ مئی ۱۸۵۷ء کے اخبار میں بجا طور پر ہندستانیوں اور انگریزوں کے طریقۂ کار کو مقابلے میں رکھتے ہوئے بات کہنے کی کوشش کی گئی: ’’(انگریزوں) کے تکبر نے ان کو قہرِ الٰہی میں مبتلا کیا۔۔ اب کہاں ہیں انگلش مین اور فرنڈ آف انڈیا۔۔اور وہ لن ترانیاں۔حکمت و حکومت داناؤں انگلستانیوں کی ‘‘ ۱۲ اپریل ۱۸۵۷ ء کے اخبار میں بھی انیسویں ریجیمنٹ (بارک پور) کی سرگرمیوں کے بارے میں خبریں شایع ہونے لگتی ہیں۔۱۷ مئی ۱۸۵۷ ء کے دہلی اردو اخبار میں کھلے طور پر دہلی کے حالات اور ابتری کے واقعات کی اشاعت شروع ہو جاتی ہے۔اس دوران دوسرے مقامات سے متعلق بغاوت کی خبریں واضح الفاظ میں پیش کی گئی ہیں۔یہ اخبار کے نقطۂ نظر کا کُھلا اظہار ہے ۔یہ سلسلہ ۱۳ ستمبر ۱۸۵۷ ء تک کے آخری شمارے تک قایم رہتا ہے۔ اردو زبان کی ادبی تاریخ لکھنے والوں کے لیے دہلی اردو اخبار ایک بنیادی مآخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔مولوی محمد باقر اور نوجوان ،اُبھرتے ہوئے ادیب محمد حسین آزاد کی علمی سرگرمیوں کو اس اخبار کے صفحات پر دیکھا جا سکتا ہے۔محمد حسین آزاد کی ابتدائی تحریریں اسی اخبار میں شایع ہوئیں۔اس لیے جب جب ان کی ادبی نشوونما کے بارے میں معلومات جمع کرنی ہوں گی،ایک محقق کو اس اخبار کے صفحات پلٹنے ہی ہوں گے۔غدر کے بعد اور انجمنِ پنجاب کی بزم میں ہمیں جو محمد حسین آزاد ملتے ہیں، وہ بنے بنائے ہوئے اور تربیت یافتہ ہیں مگر ان کی علمی تربیت گاہ دہلی اردو اخبار کے اوراق ہی تھے اور یہیں وہ لکھتے پڑھتے بڑے ادیب کی شکل میں سامنے آئے۔ دہلی اردو اخبار کی اشاعت کا وہ دور ہے جب وہاں ذوق،غالب اور مومن بستے تھے۔ذوق سے مولوی محمد باقر کی رفاقت اور محمد حسین آزاد سے شاگردی کا رشتہ تھا۔اس لیے ذوق کے حوالے سے ہر طرح کی اطّلاعات اس اخبار میں شایع ہوئیں۔ذوق کا کلام تو استاد ہونے کی وجہ سے بہادر شاہ ظفر سے اُوپر شایع ہوتا تھا۔غالب اورمومن سے متعلق اچھا خاصا سرمایہ اس اخبار کے صفحات میں موجود ہے۔ان کے علاوہ دوسرے اردوو فارسی شعرا جو اس دور میں نمایاں تھے، ان کی تحریریں بھی دہلی اردو اخبار میں اہتمام کے ساتھ شایع ہوتی تھیں۔یہ یاد رہے کہ اس زمانے میں شعرا و ادبا کے کے دواوین بہت مشکلوں سے شایع ہو پاتے تھے۔سب کے قلمی نسخے اور ان کی نقلیں ہی دستیاب ہوتی تھیں۔ایسے میں اس عہد کے درجنوںاہم شعرا و ادبا کی تحریروں کو دہلی اردو اخبار نے پختہ روشنائی میں پیش کر دیا اور انھیں ضایع ہونے سے بچا لیا ۔اکثر محققین نے ذوق،غالب اور مومن کے کلام کی تدوین میں دہلی اردو اخبار میں شایع شدہ کلام سے استفادہ کیا ہے ۔غالب کے اشعار میں جو ترمیم و اضافہ ہوا،اس کے بارے میں بھی اس اخبار سے واضح روشنی ملتی ہے۔ یہ سب کے لیے کھُلی حقیقت تھی کہ دہلی اردو اخبار شیخ محمد ابراہیم ذوق کا طرف دار ہے اور مرزا غالب سے فطری طور پر معاندانہ رویہ رکھتا ہے۔غالب کے خلاف مستقل طور پر خبریں شایع ہوتی تھیں۔جوئے کے الزام میںغالب کی گرفتاری کی خبر کو اس اخبار نے ۱۵ اگست ۱۸۴۱ ء کے شمارے میں تفصیل کے ساتھ شایع کیا تھا جس میں اطّلاعات سے بڑھ کر طنز اور اس سے بھی بڑھ کر معاندت کا طور دیکھا جا سکتا ہے۔ انہی وجوہات سے غالب اس اخبار کو نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے۔ دہلی اردو اخبار میں شایع شدہ خبروں سے اس کی عوامی پہنچ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔صرف دہلی ہی نہیں ہندستان کے طول و عرض سے خبروں کا حصول اور پھر ان کی اشاعت قابلِ توجہ امر ہے۔اس کے ساتھ ایران، انگلستان، افغانستان اورچند دوسرے ممالک کے بارے میں بھی بعض اوقات اطّلاعات شایع ہوتی تھیں۔عمومی سیاسی اور سماجی موضوعات کے ساتھ مذہبی اور تعلیمی امور بھی اخبار کے مدیر کے پیشِ نظر ہوتے تھے اور وقتاً فوقتاً چشم کشا تحریریں ان موضوعات کے حوالے سے بھی دیکھنے کو مل جاتی تھیں۔مسلمانوں کی تہذیبی زندگی کے علاوہ ہم وطنوں کے بارے میں بھی اچھی خاصی خبریں پیشِ نظر ہوتیں جن کی بنیاد پر آج ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یہ اخبار کشادہ ذہنی اور اپنے مطالعۂ کائنات کی وجہ سے تاریخی کردار کا حامل ہے۔ مولوی محمد باقر کی شہادت کا قضیہ اس بات میں کوئی بحث نہیں کہ ایّامِ غدر میں پہلا صحافی جو انگریزوں کی طرف سے موت کا مجرم قرار دیا گیا، وہ مولوی محمد باقر ہی تھے جنھیں غالباً ۱۳ ستمبر ۱۸۵۷ ء کو گرفتار کیا گیا اور آناً فاناً ۱۶ ستمبر ۱۸۵۷ء کو موت کی سزا دے دی گئی۔عتیق صدیقی نے باغی اخبار نویسیوں کے احوال پر اپنی کتاب ’’ہندستانی اخبار نویسی ‘‘ میں چند اطّلاعات فراہم کی ہیں۔جیسے ہی غدر کی ناکامی کے بعد انگریزی فوج دوبارہ دہلی پر قابض ہو گئی،اس کے بعد طرح طرح کی تادیبی کارروائیاں شروع ہوگئیں۔ اسی اسکیم کے تحت باغیوں اور ان کے مددگاروں کی تلاش شروع ہوئی ۔حکومتِ پنجاب کے سرکاری دستاویزات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جن اخبارات نے انگریزوں کی مخالفت کی اور ہم وطنوں کی طرف داری میں کسی طرح کا اقدام کیا ،ان پر عتابات نازل ہونا شروع ہوئے۔پنجاب میں سنسر شپ نافذ کر دی گئی۔پشاور کے اخبار ’’مرتضائی‘‘ کے مدیر کو باغیانہ مضامین لکھنے کے جرم میں قید کر لیا گیا اور اخبار کو بند کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ملتان کے اخبارات پر بھی یہ سلسلہ قایم رکھا گیا۔سیالکوٹ سے نکلنے والے اخبار’’چشمۂ فیض‘‘ کے ایڈیٹر کو حکم دیا گیا کہ اپنے اخبار کووہ لاہور سے نکالے۔لاہور سے نکلنے والے دو دیگر اخبارات پربھی سخت نگرانی شروع ہوئی۔اسی طرح دہلی کے اخبارات بھی زد میں آئے اور لازمی طور پر اس کا اثر دہلی اردو اخبار پر بھی پڑنا تھا۔محمد حسین آزادکا نام بھی چوں کہ دہلی اردو اخبار کے مالک کے طور پر شایع ہوتا تھا،اس لیے وہ بھی گرفتار کیے جانے والوں کی فہرست میں شامل تھے مگر وہ خاموشی سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ مولوی محمد باقر غدر میں قوم پرستی کے الزام میں شہید کیے جانے والے بے شک پہلے صحافی ہیں۔مگر ان کی شہادت کے اسباب پرگذشتہ ڈیرھ صدیوں میں اتنی گرد پڑتی رہی کہ حقیقت کتنی ہے اور فسانہ کتنا ،یہ سمجھنا مشکل ہوگیا ہے۔محمد حسین آزاد، ان کے صاحب زادے اور ان کے پوتے آغا محمد باقر کے بیانات میں جگہ جگہ قصہ گوئی کے عناصر شامل ہو گئے ہیں۔ مولوی عبد الحق ،مالک رام ،امداد صابری،منشی ذکاء اللہ، جہاں بانو بیگم،سر عبد القادر ،طالب الہٰ آبادی،ڈاکٹر محمد صادق، جیون لال،ڈاکٹر اسلم فرّخی اور محمد عتیق صدیق وغیرہ نے شہادت کے واقعے اور اس کے اسباب کی تہہ در تہہ جانچ پڑتال میں جس دقّتِ نظر کا ثبوت دیا ہے،وہ قابلِ توجہ تو ہے مگر کئی بار حقائق گُم ہونے لگتے ہیں اور اصل موضوع سے ذہن دوسری طرف منتقل ہو جاتا ہے۔تمام مبصّرین کے بنیادی نکات پر غور کریں تو کچھ باتیں بے شک قصّہ گوئی کے ذیل میں بھی آ جائیں گی۔یہ بات درست ہے کہ یہ قصّہ گوئی سینہ بہ سینہ روایت کی وجہ سے فطری رنگ آمیزی کا نتیجہ ہے اور حقائق کے سلسلے کی معلومات میں تحقیقی شگاف پُر کرنے کی کوشش سے زیادہ ان باتوں کو اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ پرنسپل ٹیلر کے قتل کا الزام مولوی محمد باقر پر پورے طور پر عاید کیا گیا یا نہیں یا ٹیلر اس زمانے میں ہجومی تشدد کا شکار ہو کر اس دنیا سے رُخصت ہوا ،ایسے بہت سارے سوالوں کے جوابات اب تاریخ کے اندھیروں میں گُم ہیں۔یہ قصّہ کہ ٹیلر نے ان کاغذات پر اطالوی زبان میں یہ لکھ دیا تھا کہ ابتدامیں مولوی باقر نے میری جان بچانے کی کوشش کی مگر بعد میں مجھے چھوڑ دیا، یہ کہاں تک درست ہے، اس کی شہادت اب ناممکن ہے۔کہا جاتا ہے کہ انگریز افسر نے ان کاغذات کو لیتے ہوئے مولوی باقر سے ٹیلر کے بارے میں دریافت کیا اور جب اسے یہ معلوم ہوا کہ ٹیلر مارا گیا تو اس نے مولوی محمد باقر کو گرفتار کرا دیا۔واقعہ فطری اور حسبِ حال معلوم ہوتا ہے مگرٹیلر کی زندگی کے جو پچیس تیس برس دہلی میں گزرے اورمولوی محمد باقر سے ان کے جو روابط رہے،اس کی روشنی میں ٹیلر کے کردار کو مسخ کرنے جیسا ہے۔ان تین دہائیوں میں ایسا کوئی واقعہ نہیں جس کی رو سے یہ کہا جا سکے کہ ٹیلر مولوی محمد باقر کے تئیں معاندانہ رویہ رکھتا ہے۔اس کے عیسائی ہونے اور عیسائی مذہب کی تبلیغ و اشاعت کے امور کو اسی انداز میں سمجھنا چاہیے جیسے مولوی محمد باقر بھی مسلکی اعتبار سے مختلف مناقشوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے مگران کی روادارانہ شخصیت میں اس سے کوئی واضح تبدیلی نہ ہوئی اور تین دہائیوں تک ٹیلر اور مولوی محمد باقر کے مراسم یکساں طور پر اور ہموار طریقے سے قایم رہے۔ مولوی محمد باقر کو انگریزوں نے ان کی قوم پرستی، بادشاہِ وقت سے خصوصی روابط اور عقیدت مندی، غدر کے باغیوں سے دوستانہ رشتہ ، خفیہ طور پر ہم وطنوں کی طرف داری ، غدر کی سرگرمیوںمیں براہِ راست شریک ہونا، غدر کے موقعے سے اخبار کے ذریعہ انگریزوں کی مذّمت کرنا اور انقلابیوں کی حوصلہ افزائی کرنا جیسے واضح الزامات کے عوض ماخوذ کیا۔ٹیلر کے قتل کا الزام زیادہ سے زیادہ ایک ضمنی سبب ہو سکتا ہے مگر مولوی محمد باقر پر قوم پرستی کے درجنوں ایسے الزامات ثابت ہو سکتے تھے جن پر انھیں موت کی سزا دی جا سکتی تھی۔ انقلابیوں کی خبروں کو اہمیت کے ساتھ شایع کرنا، اخبار کا نام تبدیل کرکے بادشاہ سے انسلاک کا واضح اعلان کرنا ، انگریز حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے لیے ہم وطنوں کواخبار کے کالموں میں اکسانا اور جو انقلابی میدانِ کار زار میں تھے، ان کا حوصلہ بڑھانا جیسی باتیں مولوی باقر کی زندگی کی کُھلی کتاب کا حصّہ ہیں۔جیون لال کے روزنامچے میں ۱۷ مئی اور ۴ جون کی تاریخوں کے اندراجات میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ مولوی محمد باقر پیدل فوج کی پلٹنوں کا حصّہ تھے اور افواجِ شاہی کے رُکن کی حیثیت سے خزانے کی حفاظت کے لیے مامور تھے۔۱۶ مئی ۱۸۵۷ء کو بہادر شاہ ظفر سے ان کی ملاقات اور دہلی کے انتظامات کے بارے میں غور و فکر کی اطّلاع جیون لال کے روز نامچے’’غدر کی صبح و شام‘‘میں ملتی ہے۔ غدر کے اوائل میں انگریزوں کی طرف سے ایک اشتہار جاری ہوا تھا کہ انگریز مسلمانوں کو اس ہنگامے کا قصور وار نہیں سمجھتے۔اس اشتہار میں اس بات کی وضاحت موجود تھی کہ کارتوسوں میں سور کی چربی نہیں ملائی گئی ہے بلکہ گائے کی چربی ملائی گئی ہے۔ان کا مقصد واضح تھاکہ ہندو مسلم اتحاد میں بکھراؤ آئے۔دہلی کے علمانے اس اشتہار کا جواب ایک دوسرے اشتہار سے دیااور انگریزوں کی سازش سے محفوظ رہے۔یہ جوابی اشتہار دہلی اردو اخبار کے چھاپاخانے میں شایع ہوا۔اشتہار کی پریس سے اشاعت بھی انگریزوں کے لیے ایک معقول جرم کی حیثیت رکھتی تھی اور موت کی سزا کے لیے یہ بات کافی تھی۔دہلی اردو اخبار میں لگاتار ایسی خبریں یا باغیوں کی فتح یابی پر اظہارِ مسرّت اور انگریز قوم پر لعن طعن کا سلسہ جاری رہتا تھا۔یہ تمام باتیں الگ الگ بھی انگریزوں کی نظر میں جان کے سودا کے لیے کافی تھیںاور یہی ہوا ۔ٹیلر کی موت ایک بہانہ بن گئی ورنہ مولوی محمد باقر کے لیے انگریزوں کے پاس الزام در الزام کی غیرمختتم کڑیاں موجود تھیں۔ اختتامیہ مولوی محمد باقر کی شخصیت اور ان کے کارناموں کا اجمالی جائزہ ان کے عہد کو دیکھتے ہوئی صحافت کے ایک طالب علم کے لیے حیرت میں ڈال دیتا ہے۔مولوی محمد باقر نے اخبار کی اشاعت سے قومی ضرورتوں کو سمجھا اور اپنے مزاج کو موقع محل کی مناسبت سے بدلنے میں کامیابی حاصل کی۔صحافت میں گہرے اُترنے کے بعد اُنھیںہندستانی سماج کے مسائل اور سامراجی عتابات کو سمجھنے کے مواقع ملے۔دہلی کالج کی تربیت میں روادارانہ ذہن کی تشکیل ہو چکی تھی مگر اسے قوم و ملک کے مفاد میں آزمانے کی کوئی صورت سامنے نہیں آئی تھی۔دہلی اردو اخبار نے مولوی محمد باقر کو سچے اور اصل ہندستان کو سمجھنے کے لیے تیّار کیا ۔باقر چند برسوں کی صحافت کے بعد اپنے اخبار میں ہمیشہ قومی درد مندی سے لیس نظر آتے ہیں۔جیسے جیسے غدر کی طرف کارواں بڑھتا جاتا ہے، ملک کی ضرورت کے مطابق مولوی محمد باقر کی صحافت بھی بہ تدریج دیسی بدلتی جاتی ہے۔اسی صحافتی تربیت کا نتیجہ ہے کہ وہ بہ خوشی اپنی جان قربان کر سکے ۔بالعموم ہم ۱۹۴۷ء پر زیادہ مرکوز رہتے ہیں مگر یہ ایک سچائی ہے کہ ۱۸۵۷ء کے جاں باز اگر اپنی جانوں کو نہیں لٹاتے تو پتا نہیں کہ ہمیں آزادی ملتی بھی یا نہیں اور ہمارے صحافت پیشہ افراد ضرورت پڑنے پر مادرِ وطن کے لیے انسانوں اور لفظوں کی حرمت بچانے کے مقصد سے جان لٹانا سیکھ پاتے یا نہیں۔آج محمد باقر کی شہادت کی یاد اس لیے بھی لازم ہے کہ ہم طرح طرح کی سماجی اور صحافتی غلامیوں کی زد پر ہیں۔اختلاف، احتجاج اور جان کی بازی لگانے کی وہی گردان پھر سے کام آئے گی جو مولوی محمد باقر سے شروع ہوئی تھی۔یہ سبق ہمیں یاد رہے تو ہماری خراجِ عقیدت بھی سچی ہوگی اور ہم اپنے عظیم اسلاف کے بہترین وارث کہے جانے کے بھی حقدارہوں گے۔