مولوی محمد باقر : قومی صحافت کا نقّاشِ اوّل

یومِ شہادت ۱۶؍ ستمبرکے موقعے پر صفدر امام قادری شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ [پہلی قسط] ہندستان میں مغربی حکمرانوں کے توسط سے مختلف علمی وسائل ان کے سامراجی منصوبوں کا حصّہ بن کر کبھی اعلانیہ طور پر یا کبھی چپکے سے ہمارے سماج کا حصّہ بنائے گئے ۔اسکول ،کالج اور یونی ورسٹیوں کے متوازی پریس اور اخبارات و رسائل کی باضابطہ اشاعت اس متعین جدید کاری کا ایک حصّہ تھا جس کے زیرِ اثر نئے ہندستان کی تعمیر و تشکیل کے بعض پیمانے وضع ہوئے۔انگریزی مقاصد سامراجی نقطۂ نظر کے ساتھ واضح جبر اور استحصال کے حربوں سے لیس تھے جسے ہندستانی سماج کے فروغ کی بنیاد تو ہرگز نہیں کہا جا سکتا مگر یہ سچائی بھی پیشِ نظر ہونی چاہیے کہ اس محدود فیضان سے بھی ہندستانی عوام وخواص کو تھوڑے بہت ایسے مواقع حاصل ہوئے جن سے وہ آزادانہ طور پر خود کو کھڑا کر سکتے تھے۔بے شک ان اشخاص میں اکثریت نے ذاتی استعداد کی بنیاد پر خود کو آراستہ کیاہوگیا۔مگر اس سے کیسے انکار کیا جائے کہ یوروپی قوم کے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے قایم کردہ اداروں سے ہی دیسیوں نے چنگاری چن کر ایک عالَم کو روشن کرنے میں کامیابی پائی۔ ہندستان میں صحافت کی بنیاد انگریزی حکمرانوں کی کوششوں سے پڑی۔جیمس اگسٹس ہکی نے ۲۹ جنوری ۱۸۷۰ ء کو’’ ہکیز بنگال گزٹ‘‘ کے عنوان سے جو چار صفحات کا ایک پرچہ شایع کیا،اسے اس ملک میں صحافت کا پہلا نمونہ تسلیم کیا جاتا ہے۔یاد رہے کہ اس سے ڈیڑھ سو سال پہلے فرانس اور انگلینڈ سے اخبارات شایع ہونے لگے تھے جس سے اہالیانِ یورپ کی جدید تعلیمی سرگرمیوں میں اوّلیات بھی ظاہر ہوتی ہیں۔ہکّی کے گزٹ نے ہندستان میں صحافت کے بہت سارے اصول و ضوابط متعئن کر دیے ۔ہکی کے نقطۂ نظر کو اس کے ان جملوں سے واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے: ’’میری پرورش بھی اس طرح کی نہیں ہوئی ہے کہ میں محنت و مشقت کی غلامانہ زندگی کا عادی بن سکوں لیکن ان سب باتوں کے باوجود روح و دماغ کی آزادی خریدنے کے لیے میں اپنے جسم کو بہ خوشی غلام بنا رہا ہوں۔‘‘ ’’ یہ ہفتہ وار سیاسی وتجارتی اخبار ہے جس کے صفحات ہر پارٹی کے لیے کھلے ہیں لیکن اخبارکو کسی پارٹی سے تعلق نہیں ہے۔‘‘ یہ دونوں اصول اس بات کے شاہد ہیں کہ ہندستانی سماج میں جو پہلا اخبار شایع ہوا، اس کے مدیرکے سامنے آزادیِ اظہار اور حکومتی نابستگی کے اصول واضح تھے۔ہندستان میں صحافت کے مورخین نے اس عہد کے یوروپین افراد کی زندگی اور کلکتے کے معاشرتی ماحول کے نشیب وفراز کو سمجھنے کے لییاس نقشِ اوّل واضح کی ہے۔ خاص طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہل کاروں کے سلسلے سے ایک تنقیدی رائے رکھنے کی وجہ سے اِس اخبار کو اُس سماج کا آئینہ تسلیم کیا گیا ہے۔ ہکی کی صحافیانہ شخصیت میں ایک بے اعتدالی بھی تھی اور بعض مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ وارن ہیسٹنگز کے مخالفین کہیں نہ کہیں ہکی اور اس کے اخبار کو حسبِ ضرورت آلۂ کار بنا رہے تھے۔ ہکی کو حکومت کے عتاب در عتاب میں مبتلا رہنا پڑا ۔کئی بار جیل کی سزا ، اخبار اور پریس کی ضبطی اور ضمانت کے مسائل نے ایسا الجھا دیا کہ انھیں اپنی صحافتی زندگی کو سمیٹ لینا پڑا۔ہندستانی اخبار نویسی کا یہ پہلا سبق کچھ اس قدر باعثِ ترغیب رہا جیسے یہ لازم تسلیم کیا جائے کہ اخبار نویسی اور حکومت سے ٹکراؤ لازم ہے ۔یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ صحافت آزادیِ اظہار اور حکومتی جبر سے آزادی کااگر ذریعہ ہے تو اسے نباہنا بے حد مشکل ہے۔شاید اسی وجہ سے اُس دور کے متعدد اخبارات سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے رشتے اچھے نہیں تھے اور جب جب کمپنی کے لیے گنجائش ہوتی، وہ انھیں اپنا شکار بنانے کی کوشش کرتی۔ اس میں یورپ سے تعلق رکھنے والے ایڈیٹر اصحاب بھی شامل تھے جنھیں ہکی کے بعد سرکار مخالف صحافت کے عوض جیل جانا پڑا ۔اسی مرحلے میں اس بات کے امکانات روشن ہوئے کہ ہندستان میں صحافت عوام و خواص کے تصّورات کی ترجمان بن کر اپنا وجود قایم رکھنے کے لیے سامنے آ سکتی ہے۔ انگریزی کے ساتھ ہی ہندستان کی متعدد زبانوں میں صحافت کے امکانات بہ تدریج روشن ہوتے گئے۔ ہکی کے اخبار سے ’جامِ جہاں نما‘ تک ؛نصف صدی کا ایک مختصر عرصہ بھی گزرا تھا مگر ہندستان کے طول و عرض میں صحافت ایک باضابطہ پیشے کے طور پر اُٹھ کر سامنے آتی ہے۔ گجراتی، مراٹھی، فارسی کے ساتھ ساتھ اردو کا سفر اس بات کا ثبوت ہے کہ آزادیِ اظہار اور مافی الضمیر کی ادائیگی کے لیے مادری زبان اور دیگر کاروباری زبانوں کی جانب لوگوں نے ہاتھ بڑھائے۔ اسے یوں نیک شگون کہا جاسکتا ہے کہ بعد کے عہد میں صحافت نے بالعموم اور اردو صحافت نے بالخصوص اپنا جو قومی مزاج ثابت کیا؛ اس کے لیے یہ لازم تھا کہ انگریزی زبان سے اور اس کی تربیت سے ہمارا راستہ تبدیل ہو۔ ہمیں معلوم ہے کہ’ جامِ جہاں نما ‘بھی اولاً اردو اخبار نہیں تھااور فارسی زبان میں ہی اس کی اشاعت ہوتی تھی مگر بہت جلد اخبار نے اس عوامی ضرورت کو سمجھنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی جس کی شناخت ہم اردو جیسی عوامی زبان سے کر سکتے ہیں۔ اخبار نے اولاً ضمیمہ جات شایع کیے اور پھر یہ ایک مقصود بالذات اردو اخبار کے طور پر شایع ہوکر مقبول ہونے لگا۔ ابتدا میں اس اخبار پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا ٹھپہ بھی لگا رہاجس کی وجہ سے صحافت کے مورخین نے اس کی آزادانہ شناخت پر کہیں کہیں سوالات بھی قایم کیے مگر محض پانچ چھے برسوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی بیڑیوں سے بھی یہ ادارہ آزاد ہوگیا۔ مختلف مورخین نے اس کے شماروں کے جو نمونے اور اندراجات کے جو اشاریے تیار کیے ہیں،اس کی روٗ سے عتیق صدیقی کے لفظوں میں کہیں تو یہ اخبار عمرِ نوح لے کر سامنے آیا تھا۔ ’’اخترِ شاہنشاہی‘‘کے مطابق اس کی تالیف کے وقت ۱۸۸۸ء میں یہ اخبار جاری تھا۔ ’جامِ جہاں نما ‘سے ’دہلی اردو اخبار‘یعنی ۱۸۳۷-۱۸۳۶ء تک کا سفر یوں تو پندرہ برسوں کا ہے مگر اس دوران ہندستان کی صحافت کی پوری دنیا بدل چکی تھی۔ قومی قوانین کی تبدیلی اور دیسی زبانوں کے آزادانہ فروغ کے مواقع اپنے آپ پیدا ہورہے تھے۔ اس دوران یہ بھی ہوا کہ اردو صحافت بنگال سے نکل کر ملک کے طول و عرض میں پھیلنے لگی تھی اور جغرافیائی اعتبار سے اس کا مزاج قومی ہونے لگا تھا۔ ان تمام تبدیلیوں کے لیے کسی ایک نمونے کی پہچان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس وقت ہمیںدہلی اخباراوردہلی اردو اخبار کی طرف توجہ کرنی ہوتی ہے جسے مولوی محمد باقر نے تقریباً بیس برسوں تک شایع کیا۔ ابتدائی دور کی وہ تمام بحثیں جن میں اس اخبار کے لیے اردو کا سب سے پہلا نقش تسلیم کیا گیا تھا، متعدد شہادتوں کے بعد باطل ہوچکی ہیں۔ مولوی محمد باقر کے صاحب ز ادے محمد حسین آزاد کے اولیت کے سلسلے سے دعوے کا لعدم قرار دیے جاچکے ہیں۔ مگر ۱۸۵۷ء سے پہلے کے اردو اخبارات کی تاریخ اس ایک بات کی لازمی شہادت دیتی ہے کہ مدیر کی حیثیت سے ان دو ڈھائی دہائیوں میں اگر کوئی ایک شخصیت قدِ آدم شبیہہ کے ساتھ ہمارے پیشِ نظر ہوتی ہے تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ مولوی محمد باقرہی ہیں۔ اردو کے طالب علم کے لیے مولوی محمد باقر کی شناخت کے دو اور واضح پیمانے ہیں۔ ایک تو یہی کہ وہ ہماری زبان کے صاحبِ طرز ادیب محمد حسین آزاد کے والد محترم ہیں ؛ اسی کے ساتھ وہ شیخ محمد ابراہیم ذوق کے ہم مشرب بھی ہیں۔ دہلی کالج سے بہ طور طالب علم اور استاد مولوی محمد باقر کا تعلق اہمیت کا حامل ضرور ہے مگر غدر میں ان کی زندگی کا انجام کچھ ایسے سامنے آیا جس نے نئے سرے سے باقر کو ، ان کی صحافت اور دیگر سرگرمیوں کو سمجھنے کا پس منظر عطا کیا۔ اب تاریخی اعتبار سے یہی حیثیت سب سے مقدّم ہے۔ مولوی محمد باقرکی مختصر سوانح حیات محمد حسین آزاد نے کئی جگہوں پر اپنے خاندان کی تفصیلات بتانے کی کوشش کی ہے۔نبیرۂ آزاد آغا محمد باقر کے کتب خانے میں ایک کتاب کے حاشیے پر مولوی محمد باقر کے قلم سے ایک مختصر شجرہ مندرج ہے جس کی رو سے محققین نے عام طور پر مولوی محمد باقر کے اسلاف کی تفصیل بیان کی ہے۔ ان کے مورثِ اعلا ایران سے کشمیر پہنچے اور پھر دہلی میں آکر مستقل طور پر آباد ہو گئے۔ بعد میں یہی خاندان محمد حسین آزاد کی وجہ سے غدر کے بعد لاہور پہنچا اور اب بھی اس خاندان کے بعض افراد وہیں مقیم ہیں۔ مولوی محمد باقرکے والد مولوی محمد اکبر اور دادا اخوند محمد اشرف سلمانی تھے۔ ان سے پہلے کی خاندانی کڑیوں میں محمد آشور ، محمد یوسف، محمد ابراہیم وغیرہ کے نام درج ہوئے ہیں۔ محمد باقر کے والدایک مجتہد تھے اور علوم ِدین کے سلسلے سے انھوں نے ایک مدرسہ قایم کر رکھا تھا ۔مولوی باقر نے اولاً اسی مدرسے سے فیض حاصل کیا ۔اس کے بعد میاں عبد الرزّاق کے ادارے میں آگے کی تعلیم کے لیے شامل ہوگئے۔بتایا جاتا ہے کہ وہاں شیخ محمد ابراہیم ذوق ان کے ہم درس تھے ۔یہ رشتہ ایک طویل رفاقت میں بدل کر دہلی کی تہذیبی زندگی کے لیے قابلِ توجہ بن گیا۔مولوی محمد باقر اپنے والد کے تنہا فرزند تھے ۔اس وجہ سے تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی گئی۔انھوں نے مذہبی اور عصری دونوں تعلیم پائی ۔ دہلی کالج کے ابتدائی عہد کے طالب علموں میںان کا شمار ہوتا ہے ۔ایک مختصر مدّت تک سرکاری ملازمت میں شامل رہے ،پھر والد کے مشورے سے ملازمت سے علاحدہ ہو کر اردو صحافت سے باضابطہ طورپر منسلک ہونے سے پہلے وہ کار و بارسے بھی جڑ چکے تھے۔ مولوی محمد باقر کی تاریخِ پیدائش یا سالِ پیدائش میں محققین کے دوران اتّفاق رائے نہیں ہے۔خاندانی احوال اور دیگر اصحاب کی اطّلاعات کے مطابق ۱۷۷۰ ء ، ۱۷۸۰ء،۱۷۹۰ ء اور ۱۸۱۰ ء کے برس اس سلسلے سے سامنے آتے ہیں ۔چالس برس کے تخمینے کو شاید ہی کسی تحقیقی دائرۂ کار میں رکھ کر تولا جا سکتا ہے۔دو چار پانچ سال کے فرق کو قیاس کے حوالے سے فطری حیثیت دی جا سکتی ہے مگر چالس سال کا دورانیہ کسی بھی آدمی کو پریشانی میں ڈال سکتا ہے۔آغا محمد باقر نے غدر کے وقت ان کی عمر ۷۰ سال سے زائد بتائی ہے جس کی وجہ سے دوسرے قرائن سے مدد لے کر بعض محققین نے ۱۷۸۰ ء کو ان کا تخمیناً سالِ ولادت تسلیم کیا ہے۔مولوی محمدباقر سے شیخ محمد ابراہیم ذوق کے دوستانہ مراسم لڑکپن کے زمانے سے ہی بتائے جاتے ہیںجسے مقبول روایت کی حیثیت حاصل ہے۔ذوق ۱۷۸۲ ء میں پیدا ہوئے، اس اعتبار سے مولوی محمد باقر کا سالِ ولادت ۱۷۸۰ ء یا اس کے آس پاس معقول معلوم ہوتا ہے۔مگراسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی ہے کہ۱۸۲۸ ء میں مولوی محمد باقر دہلی کالج میں اپنی تعلیم مکّمل کر کے مدرّس بنا دیے جاتے ہیں ۔اگر ۱۷۸۰ ء میں ہی وہ پیدا ہوئے تو کیا وہ ۴۸ سال کی عمر تک تحصیلِ علم میں مبتلا رہنے کے بعد ملازمت میں آئے؟ یہ قرینِ قیاس معلوم نہیں ہوتا ہے۔ سر سیّد احمد خاں کے ایک مکتوب سے یہ پتا چلتا ہے کہ محمد حسین آزاد کے والد سر سیّد کے بڑے بھائی کے ہم عمر تھے۔سر سیّد نے لکھا ہے : ’’مولوی محمد حسین آزاد صاحب سے اور میرے خاندان سے ایک ربطِ خاص ہے۔اُن کے دادا اور میرے والد میں ایسی دوستی تھی کہ لوگ بھائی بھائی سمجھتے تھے اور ان کے والد مولوی محمد باقر صاحب اور میرے بھائی مرحوم سے بہ سبب ہم عمری کے ایسا ہی ارتباط تھا۔‘‘ حیاتِ جاوید میں سر سیّد کے بڑے بھائی کے بارے میں یہ واضح اطلاع ملتی ہے کہ وہ سر سیّد سے چھے برس بڑے تھے۔اس اطلاع سے سر سیّد کے برادرِ بزرگ کی پیدائش کا سال ۱۸۱۱ء متعئن ہوتا ہے۔ڈاکٹر اسلم فرّخی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ مولوی محمد باقر کا سنہ پیدائش ۱۸۱۰ء کے قریب متعئن کیا جاناچاہیے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے بھی اسلم فرخی کے تعین کردہ سال کو اہمیت دی اور اپنی تاریخ میں ایسے ہی قبول کیا ہے۔یہاں اُن مضامین اور کتابوں کا حوالہ لازم نہیں ہے جن میں مولوی باقرکی پیدائش کے سلسلے سے بڑی حتمی گفتگو کی گئی ہے کیو ںکہ اکثر افراد نے کسی ایک ماخذ کو اعتبار کے قابل سمجھا اور نقل در نقل کے مرتکب رہے ۔ڈاکٹر صادق اور ڈاکٹر اکرام چغتائی نے بھی مولوی محمد باقر کے سلسلے سے بہت سارے تحقیقی گوشوں کو روشن کیا اور حیات و خدمات کے سلسلے کے بعض پیچیدہ مسائل کو سلجھانے میںوہ اصحاب کامیاب ہوئے ہیں مگر وہ مولوی محمد باقر کے سالِ ولادت کے سلسلے سے کوئی بنیادی اشارہ فراہم نہیں کرسکے جس سے یہ مسئلہ حل ہوسکے۔۱۸۱۰ ء کے سال کو قبول کرنے میں چند مسائل ہمیں نتیجے تک پہنچنے سے روکتے ہیں: الف۔ مولوی محمد باقر ۱۸۲۸ ء میں محض اٹھارہ برس کی عمر میں فارغ التحصیل ہو چکے تھے، یہ معقول نہیں معلوم ہوتا ۔ ب ۔ اٹھارہ برس کی عمر میں انھیں بہ طورِ مدرس منتخب کر لیا گیا اور وہ آیندہ چھے برسوں تک درس و تدریس کی ذمہّ داریاں ادا کرنے کے بعد ملازمت سے علاحدہ ہو گئے۔ ج۔ ذوق سے عمر میں ۱۸۱۰ ء کی پیدائش کے سبب مولوی محمد باقر ۲۸ برس چھوٹے ہیں۔ایسے میں دوستانہ تعلق بھی قرینِ قیاس معلوم نہیں ہوتا اور مولوی عبد الرزاق کے مدرسے میں ابتدائی دور کی یکجا تعلیم کے بارے میں بھی کچھ یقین سے کہنا معقول معلوم نہیں ہوتا۔ ان تحقیقی اعداد و شمار اور سوال و جواب کی روشنی میں یہ قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے کہ مولوی محمد باقر ۱۸۱۰ ء سے پہلے پیدا ہو چکے ہوں گے مگر یہ تاریخ کتنی پیچھے تک جائے گی اور ہم اسے تخمینے کے لیے بھی کہاں تک روک سکتے ہیں،یہ غیر معین ہے۔اب رہی بات جن لوگوں نے ۱۷۷۰ سے لے کر ۱۸۱۰ ء کے درمیان جتنے برس بھی اس کام کے لیے آزمائے ہیں ، وہ حتمی اور حقیقی تاریخیں کس طرح سے ہیں، اس کا ثبوت پیش کرنا ممکن نہیں ۔بس یہ یاد رہے کہ ۱۷۸۰ ء کی تاریخ سے بھی ذیل کے واقعات کی صداقت پہ کوئی حرف نہیں آتا ۔ i . محمد حسین آزاد کے سالِ پیدائش کے سلسلے سے بھی اچھے خاصے اختلافات موجود ہیں ۔۱۸۳۰ ء، ۱۸۳۳ ء اور ۱۸۳۵ ء کے سال جگہ جگہ ملتے ہیں۔ آغا محمد باقر نے تو دو جگہوں پر ۱۸۲۷ء اور ۱۸۲۹ ء بھی لکھا ہے۔آزاد کے پنشن کے معاملے میں ان کے سنہ ولادت کے سلسلے سے بعض اختلافات پنجاب کے اکاؤنٹنٹ جنرل کی نگاہ میں کھٹکے تھے اور انھوں نے ۱۸۹۲ء میں اس سلسلے سے وضاحت بھی طلب کی تھی۔محمد صادق نے محتلف شواہد کی بنیاد پر ان کی پیدایش کا سال۱۸۳۰ ء متعین کیا ہے ۔اگر باقر کی پیدائش ۱۸۱۰ ء بھی ہوتی ہے، تب بھی یہ قرینِ قیاس ہے کہ محمد حسین آزاد ۱۸۳۰ ء کے آس پاس پیدا ہوئے ہوں گے جب کہ ان کے والد کی عمر بیس برس ہو چکی تھی۔ .ii ۳۷۔ ۱۸۳۶ء میں دہلی اخبار شایع ہوا جب ان کی عمر۲۷۔ ۲۶سال تھی ،یہ بات قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے۔ .iii ۱۸۵۷ ء میں جب انھیں موت کی سزا دی گئی، اس وقت ۱۸۱۰ ء کی پیدائش کی رو سے وہ ۴۷برس کے ہوں گے جسے نادرست سمجھنا غیر ضروری ہے۔ مولوی محمدباقر کی تاریخ پیدائش میں جتنے بھی اختلاف رہے ہوں مگر ان کی زندگی کے آخری تیس برس ادبی مورخین کے لیے سب سے اہم ہیں۔ اس میں بھی آخری دو دہائیاں صحافت کے آغاز سے شہادت تک کے سفر کے دائرے میں قید ہیں۔اسی دوران وہ امتیازی حیثیت کے حامل شخص کے طور پر سامنے آتے ہیںاور مدرّس، صحافی، کاروباری اور بالآخر شہیدکے درجے تک پہنچتے ہیں۔اس اعتبار سے اس گفتگو میں مولوی محمد باقر کی زندگی کے اس دورانیے پر نگاہ رکھنے کی کوشش کی جائے گی جس کا نقطۂ آغاز ۱۸۲۸ ء مانا جا سکتا ہے اور ۱۶ ستمبر ۱۸۵۷ ء کو اس کاانجام قرار دیا جا سکتا ہے۔انھی تین دہائیوں کے حوالے سے ہماری گفتگو جاری رہے گی۔ [جاری]