اعتکاف رمضان المبارک کا ایک اہم اور مبارک عمل

محمد قمرالزماں ندوی مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ رمضان المبارک اور بالخصوص اس کے آخری عشرہ میں ایک اہم عمل اور خاص عبادت اعتکاف ہے ۔ اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی ہر طرف سے کنارہ کش اور یکسو ہوکر اور تمام علائق دنیا سے منقطع اور الگ تھلگ ہوکر ۔ بس اللہ تعالی سے لو لگائے ،اس کے در پر پڑ جائے اور سب سے الگ تنہائی و خلوت میں اس کی عبادت اور اس کے ذکر و فکر اور تسبیحات میں مشغول ہوجائے اور اپنے حقیقی آقا کے دربار میں زبان و حال سے یہ کہتے ہوئے فروکش ہوجائے ۔۔۔۔ پھر جی میں ہے کہ در پہ اس کے پڑا رہوں سر زیر بار منت درماں کئے ہوئے در اصل اعتکاف وہ عبادت ہے، جس میں انسان سب سے کٹ کر اور سب سے ہٹ کر اپنے خالق حقیقی آقاو مولی کے آستانہ پر اور گویا اس کے قدموں پر پڑ جاتا ہے ،اس کو یاد کرتا ہے ،اس کی تحمید و تقدیس بیان کرتا ہے ،اس کے حضور توبہ و استغفار کرتا ہے ،اپنے گناہوں پر نادم و تائب اور شرمندہ ہوتا ہے ،اپنی غلطیوں اور خطاوں کا اعتراف کرتا ہے،اپنے قصوروں اور کوتاہیوں پر روتا ہے اور رحیم و کریم آقا سے مغفرت کی بھیک مانگتا ہے اور اس کی رضا اور قرب چاہتا ہے۔ ظاہر ہے اس سے بڑھ کر کسی انسان کی سعادت اور کیا ہوسکتی ہے ۔ (مستفاد از معارف الحدیث ۴/ ۱۱۹) گویا اعتکاف کی حالت میں معتکف ( اعتکاف کرنے والا) اللہ تعالی کے گھر پر ایک طرح سے دھرنا دیتا ہے کہ بغیر مطالبہ پورا ہوئے واپس نہیں جائے گا ۔ اسلام چونکہ ایک مکمل دین کامل دستور العمل اور دین فطرت ہے اس لیے وہ رہبانیت اور دنیا سے مطلقا بے تعلقی کے بھی خلاف ہے اور نری مادہ پرستی کے بھی خلاف ہے، اسلام دین و دنیا دونوں کے حصول کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ ایک معتدل اور متوازن مذھب ہے، اعتدال اور وسطیت اس کی شان ہے۔ یہ دین و دنیا دونوں کو اس کے حدود کے ساتھ برتنے کی تلقین کرتا ہے، شدت پسندی غلو اور افراط و تفریط سے روکتا ھے۔ اسلام کی تعلیم اور حکم یہ ہے کہ اس دنیا کے مال و متاع سے بھی لطف اندوز ہو، اس سے اپنی جائز خواہشات کو پوری کرو۔ لیکن چونکہ انسان ماحول اور گرد و پیش سے متاثر ہوجاتا ہے اور مادیت سے متاثر ہوجاتا ہے اور مال و دولت کے منفی اثرات کو قبول کرنے لگتا ہے، اس لیے اللہ تعالی نے روحانیت کا ایک سسٹم اور نظام بنایا کہ سال میں ایک ماہ متعین کردیا جس میں دن کا روزہ اور قیام اللیل کے علاوہ اخیر عشرہ میں اعتکاف کے ذریعہ بندہ حیوانیت کو مغلوب اور ملکوتیت کو غالب کرنے کی کوشش کرے، نیز زیادہ سے زیادہ فرشتوں کی ان دنون میں مشابہت اختیار کرے۔(علماء کی تحریروں سے مستفاد) اعتکاف کے لفظی معنی ٹہرنے کے ہیں، لیکن جب یہ لفظ شریعت کی اصطلاح میں بولا جاتا ہے تو اس سے مراد مرد کے لئے ایسی مسجد میں ،اعتکاف کی نیت سے ٹہرنا ہوتا ہے،جس میں پانچوں وقت کی نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے ، جبکہ عورت کے لئے اپنے گھر کے کسی کونہ میں بہ نیت اعتکاف قیام کرنے پر شرعی اعتکاف کا اطلاق کیا جاتا ہے ۔ اعتکاف کی اہمیت و فضیلت اور اس کے دینی منافع روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے اہتمام کے ساتھ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرمانا ثابت ہے ۔ اعتکاف سے جہاں آدمی گناہوں اور واہیات و فضولیات سے محفوظ رہتا ہے ، وہیں اس کی روح پوری طرح یکسو ہوکر ،عبادت خداوندی میں مشغول رہتی ہے ۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : *معتکف گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور جن نیکیوں کو وہ بسبب اعتکاف انجام نہیں دے پاتا ،ان کا ثواب بھی اسے دے دیا جاتا ہے* ۔ ( ابن ماجہ : باب فی ثواب الاعتکاف ۱۲۷) معتکف کی ہر گھڑی اور ہر لمحہ عبادت میں شمار ہوتا ہے ،اعتکاف کا سب سے بڑا مقصد اور فائدہ یہ ہے کہ *اعتکاف* *شب قدر* کو تلاش کرنے اور اس میں عبادت کرنے کا سب سے بہتر اور آسان ذریعہ ہے ۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ الله فرماتے ہیں ،، اعتکاف کی غرض ایک تو شب قدر کی تلاش ہے، دوسری غرض جماعت کا انتظار کرنا ہے، تیسری روح اعتکاف کی یہ ہے کہ معتکف گویا اپنے آپ کو مسکین و خوار بناکر بادشاہ کے دروازہ پر حاضر کردیا ہے، اپنی محتاجگی ظاہر کر رہا ہے کہ اب تو آپ کے دروازہ پر پڑا رہوں چاہیے نکالیے، چاہے بخش دیجئے۔ یہ شان ہے فنا کی۔ اور اعتکاف کو اس کی روح اس لیے کہا کہ اعتکاف اور کسی عبادت پر موقوف نہیں، اگر دربار میں حاضری دے کر ہروقت سوتا رہے تب بھی اس کو اعتکاف کا پورا ثواب ملے گا یہ دروازہ پر پڑا رہنا ہی بڑی چیز ہے، یہی وہ چیز ہے کہ مردود کو مقبول بنا دیتی ہے۔( احکام اعتکاف) اعتکاف ماہ رمضان میں روحانیت کا نقطئہ عروج ہے حدیث شریف کے مطابق *جو شخص رمضان کے دس دنوں کا اعتکاف کرتا ہے تو اس کا یہ عمل دو حج اور دو عمرہ کی طرح ہے ۔ یعنی اسے دو حج اور دو عمرہ کا ثواب ملے گا ۔ ( بیھقی)* ایک دوسری روایت میں ہے کہ *جو شخص ایمان کی حالت میں ثواب کی امید کرتے ہوئے اعتکاف کرتا ہے اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں* ۔ علماء کرام لکھتے ہیں کہ۔ اعتکاف رمضان کے فوائد و مقاصد کی تکمیل کے لیے ہے، اگر روزہ دار کو رمضان کے پہلے حصہ میں وہ سکون قلب، جمعیت باطنی، فکر و خیال کی مرکزیت، انقطاع الی اللہ کی دولت، رجوع الی اللہ کی حقیقت اور اس کے در پر پڑے رہنے کی سعادت حاصل نہیں ہوسکی، تو اس اعتکاف کے ذریعہ وہ اس کا تدارک کر سکتا ہے۔۔ (ارکان اربعہ ۲۷۵) صاحب مراقی الفلاح لکھتے ہیں کہ اعتکاف اگر اخلاص کے ساتھ ہو تو افضل ترین اعمال میں سے ہے، اس کی خصوصیتیں حد احصاء اور حد شمار سے خارج ہیں کہ اس میں قلب کو دنیا ومافیھا سے یکسو کرلینا ہے اور نفس کو مولیٰ کے سپرد کردینا اور آقا کی چوکھٹ پر پڑ جانا ہے۔ نیز اس میں ہر وقت عبادت میں مشغولی ہے کہ آدمی سوتے جاگتے ہر وقت عبادت میں شمار ہوتا ہے اور اللہ کے ساتھ تقرب ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص میری طرف ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے میں اس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور جو میری طرف آہستہ بھی چلتا ہے میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔ علامہ ابن قیم جوزی رح لکھتے ہیں: اعتکاف کی روح اور اس سے مقصود یہ ہے کہ قلب اللہ کے ساتھ وابستہ ہوجائے اس کے ساتھ جمعیت باطنی حاصل ہو، اشتغال بالخلق سے رہائی نصیب ہو اور اشتغال بالحق کی نعمت میسر آئے، اور حال یہ ہو جائے کہ تمام افکار و ترددات اور ہموم و وساوس کی جگہ اللہ کا ذکر اور اس کی محبت لے لے۔ ہر فکر اس کی فکر میں ڈھل جائے اور ہر احساس و خیال اس کے ذکر و فکر، اس کی رضا و قرب کے حصول کی کوشش کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے، مخلوق سے انس کے بجائے اللہ سے انس پیدا ہو اور قبر کی وحشت میں جب کوئی اس کا غم خوار نہ ہوگا یہ انس اس کا زاد سفر بنے، یہ ہے اعتکاف کا مقصد جو رمضان کے افضل ترین دنوں یعنی آخری عشرہ کے ساتھ مخصوص ہے۔۔۔۔۔زاد المعاد۔۔۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اعتکاف کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ چونکہ مسجد میں اعتکاف جمعیت خاطر، صفائی قلب، ملائکہ سے تشبہ اور شب قدر کے حصول کا ذریعہ، نیز طاعت و عبادت کا بہترین و پرسکون موقع ہے اس لیے رسول ﷺ نے اس کو عشرہ اواخر میں رکھا ہے اور اپنی امت کے محسنین و صالحین کے لیے اس کو سنت قرار دیا ہے۔ (ارکان اربعہ، ص، ۲۷۶) اعتکاف کا مقصد بیان کرتے ہوئے شاہ صاحب لکھتے ہیں: جب انسان کے افکار و خیالات اور اذہان مختلف باتوں سے پراگندہ ہوجاتے ہیں اور لوگوں کے میل جول سے آدمی سخت پریشان ہوجاتا ہے تو اس پراگندگی اور پریشانی کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اعتکاف کو مشروع فرمایا، اعتکاف میں بیٹھنے والا آدمی عام لوگوں سے علیحدگی اختیار کرکے مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر عبادت و ریاضت میں مصروف ہوجاتا ہے، جس کی بدولت اس کی ذہنی پریشانی اور قلبی اضطراب دور ہوجاتا ہے-( حجتہ اللہ البالغہ) اعتکاف کے عظیم فوائد اور ثمرات احادیث اور علماء کی تحریروں میں بیان کئے گئے ہیں، ۔ معتکف کو دنیا کی سب سے محبوب اور پسندیدہ جگہ پر دس دن گزارنے کا موقع ملتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے،، شہروں میں سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ جگہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی مساجد ہیں۔ مسلم شریف مسجد میں آنے والا اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوتا ہے، لہذا معتکف کے لیے یہ کتنی خوش نصیبی اور سعادت کی بات ہے کہ وہ دس دن رات تک اللہ کی میزبانی میں ہوتا ہے۔۔ اعتکاف کا ایک عظیم فائدہ یہ بھی ہے کہ معتکف دس دن تک اللہ تعالیٰ کے ضمان میں رہتا ہے اور حدیث کے مطابق مساجد میں رہنے والے اللہ تعالیٰ کے ضمان میں ہوتے ہیں۔ اعتکاف میں بیٹھنے والوں کو دس دن دس رات فرشتوں کی ہم نشینی حاصل ہوتی ہے، اس لیے کہ مساجد میں جم کر رہنے والوں کے ہمراہ فرشتے ہوتے ہیں۔ مساجد شیطان سے بچنے اور ان سے محفوظ رہنے کے لیے بہت مضبوط قلعے اور پناہ گاہیں ہیں۔ معتکف کو اعتکاف کی برکت سے یہ محفوظ قلعے اور پناہ گاہیں حاصل رہتی ہیں۔ نبیﷺ کا ارشاد ہے بیشک شیطان انسان کا بھیڑیا یعنی دشمن ہے جیسے بکریوں کا دشمن بھیڑیا ہوتا ہے وہ موقع پاتے ہی الگ ہونے والی اور کنارے ہونے والی بکریوں کو پکڑ لیتا ہے، پس تم گھاٹیوں میں الگ ہوجانے سے بچو۔ اور اپنے اوپر جماعت کے ساتھ وابستگی کو اکثر یت کواور مسجد کو لازم کرلو۔( مسند احمد ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیشہ اس پر مداومت فرمائی۔ اور آپ کے بعد بھی تمام جگہ کے مسلمانوں نے اس سنت اور شعار کو قائم رکھا اور اس کو تواتر کی حیثیت حاصل رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے اخیر عشرہ میں ہمیشہ اعتکاف فرمایا، یہاں تک کہ آپ کی رحلت ہوگئی، پھر آپ کے انتقال کے بعد ازواج مطہرات نے اپنے گھروں میں اعتکاف کا معمول قائم رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا تھا۔۔۔