مسلم خواتین کے تصویروں کی بولی: عبید اللّہ فیضی

  
   
31دسمبر کی رات تھی، ہر طرف گزرے سال کے قصے سنائے جا رہے تھے، لوگ پرانے سال کو الوداع کہہ رہے تھے اور اپنی کمیوں کوتاہیؤں کا احتساب کر رہے تھے، کچھ گزرے سال میں اپنے کامیابیوں کو یاد کر رہے تھے اور جذباتی ہو رہے تھے۔ عوام سال نو کے خیر مقدم کے لئے بے چین و بے قرار تھی، گویا یہ کہ ہر کوئی سال نو کی شروعات ایک نئے عزم و حوصلے کے ساتھ کرنا چاہ رہا تھا، ایک کثیر تعداد نے تو کیا بھی لیکن اس درمیان سال نو کی شروعات کچھ مخصوص لوگوں اورو طبقے کے لئے کافی پریشان کن رہی۔پریشان کن اس سبب کیونکہ پچھلے سال جولائی میں ہمارے ملک ہندوستان میں کچھ لوگوں نے "سلی ڈیلز" کے نام سے ایک ایپلیکیشن بنایا تھا جس کے ذریعے خواتین پر نظرثانی، ان پر بے ہودہ و بہت ہی بھدے قسم کی جملہ بازی، ان کی نیلامی، ان کے تصاویر کا غلط استعمال وغیرہ کیا تھا۔ اس کام کو ان لوگوں نے بالکل ذمہ داری و نظروں سے نظریں ملا کر انجام دیا تھا۔ اس وقت ملک کے عزت پسند باشندوں نے ان کے خلاف  سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلا کر اور احتجاج کر کے آواز اٹھائی تھی۔نتیجتاً ملک کے کچھ خطوں میں ایف آئی آر درج کر لیا گیا تھا اور ان لوگوں کو یہ امید دلائی گئی تھی کہ اس معاملے پر سخت کاروائی ہوگی۔لیکن افسوس ایسے بے ہودہ قسم کے ایپلیکیشن تیار کرنے والوں کے خلاف اس وقت کوئی خاص کاروائی نہیں کی گئی، جس کے بنا پر ان لوگوں نے اس اپلیکیشن میں کچھ ترمیم کر کے "بلی بائی" ایک نیا اپڈیٹڈ ورزن تیار کیا، اس اپلیکیشن کے ذریعے ان لوگوں نے سال نو کے موقع پر  ایک اور نئی لسٹ تیار کی جس میں کم و بیش ١١٢ مسلم خواتین کے تصاویر کے ساتھ پروفائل تیار کیا، پروفائل میں ڈیل آف دی ڈے جیسی قابلِ اعتراض باتیں لکھی گئی، ایسا کیوں ہوا کیونکہ پچھلے سال جولائی میں جن لوگوں نے یہ حرکت کی تھی ان پر نا ہی کوئی کاروائی ہوئی اور نا ہی انھیں گرفتار کیا گیا۔قارئین: وہ ١١٢ مسلم خواتین جن کے نام "سلی ڈیلز بلی بائی" اپلیکیشن میں شامل کیا گیا ہے وہ کون ہیں؟ کیا وہ محض ایک نام ہے؟ ایک طرح سے وہ محض نام ہی ہے کیونکہ وہ صرف اور صرف مسلم خواتین ہیں، لیکن وہ محض نام نہیں ہیں، وہ آزاد آوازیں ہیں، وہ وہ سوال ہیں جو اس معاشرے و سماج کے لئے بڑی کڑوی آواز ہیں، وہ وہ آوازیں ہیں جنہوں نے ہمیشہ سچائی کا ہمیشہ حق کا ساتھ دیا ہے،  وہ کوئی معمولی خاتون نہیں ہیں، وہ ایک کامیاب خاتون ہیں جو ملک کی، ملک کے عوام کی اپنی لیاقت، بہادری و علمی شعور کے بنا پر اپنے اپنے شعبوں میں مدد کر رہی ہیں،ایسے میں ان کو ٹارگیٹ کرنا جس میں بالخصوص مسلم خواتین شامل ہیں، یہ کسی ایک خاص مزہب کے لوگوں کو نقصان پہچانے کی طرف سیدھا اشارہ ہے۔جو کی پوری طرح سے ایک سوچی سمجھی سازش معلوم ہوتی ہے۔یقیناً کیونکہ سماج کی ان باشعور خواتین کو اس طرح کی حرکت کرنے والے کسی غنڈے سے ڈر نہیں ہے ڈر تو اس بات کا ہے کہ ہمارے ملک کا عدلیہ خاموش ہے، ہمارے ملک کے قانون کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے، ملک کے آئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، اور تو اور اب تک اس معاملے پر ملک کے صدر جمہوریہ، وزیراعظم یا کسی منسٹر نے کوئی بیان یا رد عمل تک دینا مناسب نہیں سمجھا کہ "سلی ڈیلز و بلی بائی" کیا ہے؟ خواتین طبقہ کی کیوں ہراسانی کی جارہی ہے؟ یہ کام انجام دینے والے کون ہیں؟
جبکہ خوشی و فخر محسوس ہوتا ہے ایسے موقعوں پر جب ملک کی پولیس اور عدلیہ ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان وراٹ کوہلی کی ننھی سی جان کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے والے کو چند وقفوں میں گرفتار کر لیتی، لیکن وہیں یہ خدسہ بھی لاحق ہوتا ہے کہ ملک کی وہ باشعور خواتین جو ملک کے صحافتی، سیاسی، سماجی، تعلیمی و مختلف میدانوں میں ملک کی خدمات انجام دے رہی ہیں، ان کے ساتھ ایک بڑے پیمانے پر قابلِ اعتراض باتیں ہوتی ہیں، انھیں شرم سار کیا جاتا، ان کے دامن کو داغ دار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس وقت یہ پولیس و عدلیہ مہینوں و سالوں میں کوئی بھی کاروائی کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ قارئین: یہاں ڈھیروں سارے سوال اٹھتے ہیں کہ وہ مسلم خواتین کو کیوں نشانہ بناتے ہیں؟ وہ اتنا گھناؤنا ایجنڈا کیوں لے کر آتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلم خواتین ذمہ داری اور حقوق کے لئے مثبت طریقے سے مضبوط ہیں یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایک چھوٹا طبقہ یا اقلیتوں میں بھی اقلیت طبقہ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ ایسے ذمہ دار عہدوں تک پہنچا ہے جس کی وجہ سے آسانی سے وہ نفرت کا شکار ہو سکتا ہے لیکن کیا کسی کا ضمیر اتنا گر سکتا ہے کہ ان کی ایک اپلیکیشن کے ذریعے آن لائن بولی لگائی جائے؟ یا پھر ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ کسی بھی مزہب میں خواتین ہی آسان نصب العین ہوتی ہیں؟ لیکن پھر ایسا کرنے میں انھیں کس طرح کی خوشی ملتی ہے؟  میں یہ پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ لوگ ان اعلیٰ تعلیم یافتہ، بہادر خواتین کو ایک جملہ روبرو ہو کر نہیں بول سکتے۔ہندوستانی مسلمان ہر نئے دن کے ساتھ ایک نئی حقیقت کا سامنا کرنے کے لئے بے کس و مجبور ہے جو پچھلے بار سے بد تر ہوتا ہے۔ آج کے ہندوستان میں ہم نہیں جانتے کہ ہمارے آس پاس کی عوام کب، کہاں اور کس بے ہودہ بات کے لئے ہجوم کا شکل اختیار کر لے گی اور مزہب و شہریت کے نام پر کسی کا بھی لنچ کر دے گی، ہمارے پاس ایسے کئی مثال موجود ہیں جہاں مسلمانوں کو ایک معمولی ہدف کے شکل میں دیکھا گیا اور شہریت و اس کی مزہبی شناخت پر پیٹ پیٹ کر مار دیا گیا یا جھوٹے الزامات کے تحت سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا، سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اس طرح کے نفرتی ایجنڈوں اور بے ہودہ باتوں پر اکثریت چپ کیوں ہے؟ اگر ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ہمارے ملک ہندوستان میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے تو ہمیں یا تو علم نہیں یا پھر سوشل میڈیا کا استعمال نہیں کرتے ہیں، جہاں ہر آنے والے دن مسلمانوں کے خلاف ٹرینڈ چلتے ہیں حالیہ دنوں میں دھرم سنسد کا معاملہ ہو، اس سے پہلے گروگرام میں نماز پر پابندی ہو، بابری مسجد ہو، کشمیر کا آرٹیکل ٣٧٠ ہو یا پھر یہ "سلی ڈیلز بلی بائی" یہ سبھی نفرتی اور حیرت خیز  معاملے اپنا نفرتی ایجنڈا مکمل کر گئے اور مین اسٹریم میڈیا کی خبروں میں انھیں جگہ تک نہیں ملا۔ قارئین: سلی ڈیلز کے ماسٹر مائنڈ اب بلی بائی کے ذریعے حملے کر اپنی چھوٹی اور گھٹیا سوچ ظاہر کر رہے ہیں، مسلم خواتین کی پچھلے کچھ سالوں میں ہر میدان میں بڑھتی حصہ داری اور سنگھی سوچ والے سرکار کو للکارتی خواتین پسند نہیں آتی ،مسلم خواتین جہاں بیٹھ گئیں وہاں تاریخی احتجاج شروع ہو گیا، مسلم خواتین نے جب پھانسی واد پولیس کو للکارا تو وہ ایک تاریخی احتجاج کا حصہ بن گیا، جب مسلم خواتین نے آئین کے حفاظت کی قسم کھائی تو ملک بھر میں آئین کی تمہید پڑھی جانے لگی مسلم خواتین نے کمزور ہوتے جمہوریت کو ایک نئی راہ دکھائی، ایک نئی طاقت دی ایک نیا سمت دیا جس پر چل کر آئین اور جمہوریت کی حفاظت کرنا ممکن دکھائی دینے لگا مسلم خواتین نے اپنی طاقت کے ذریعے ملک کے سیاستدانوں کو آئینہ دکھایا کہ ٹیکہ، تلک اور ٹوپی کی سیاست سے دور ایک نئی لکیر بھی کھینچی جا سکتی ہے۔ اس دوران جب مسلم خواتین آئین مخالف طاقتوں کے لئے ایک بڑی آئیڈیل بنتی نظر آئیں جنہیں کسی بھی طرح شکست دے پانا مشکل تھا تو انھوں نے وہ راستہ چنا جو ہمیشہ سے ایک ہارا ہوا شخص چنتا ہے جی ہاں! انھوں نے خواتین کے پاک صاف دامن کو داغ دار بنانے کا کھیل شروع کیا، مسلم خواتین کی بے عزتی کرنی شروع کر دیلیکن شاید انہیں یہ لگتا ہے کہ وہ مسلم خواتین کے دامن کو داغ دار کر انہیں بے عزت کر انہیں نا امید کر دیں گے، ان کے حوصلوں کو کمزور کر دیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلم خواتین کے پکے اور یقین سے پرعزم بلند عزائم سے ڈرتے ہیں، وہ مسلم خواتین کے جمہوری نظریے کی لڑائی میں اپنی شکست دیکھتے ہیں اس لئے وہ مسلم خواتین کو داغ دار کر کے اپنی ہار سے منہ چھپانا چاہتے ہیں۔گزشتہ دنوں اپلیکیشن بنانے والوں کی ملک کے مختلف جگہوں سے گرفتاری ہوئی آپ کو معلوم ہوا ہوگا ان گرفتار ہوئے لوگوں میں صرف اور صرف نوجوان طلبہ شامل ہیں وہ کسی خاص گھرانے یا پھر کسی منسٹر، بزنس مین وغیرہ کے بیٹے یا بیٹیاں نہیں ہیں وہ سماج کے ایک معمولی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کہیں نا کہیں یہ ملک میں بے بڑھتی بے روزگاری کی شرح کے طرف ایک اشارہ ہےجہاں ملک کے نوجوان اس طرح کے بے ہودہ اور گھناؤنا اپلیکیشن تیار کر کے خود کو مصروف رکھتے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں تعلیم کی حالت بھی کسی سے چھپی نہیں ہے وہ اس بات سے خوش ہیں کہ اس طرح کے کام کر کے مسلمانوں کو پریشان کر رہے ہیں لیکن وہ خود اس تلخ حقیقت سے واقف نہیں ہیں کہ حکومت کے پاس انہیں دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے، خواہ وہ بنیادی سہولیات ہوں، صحت سے متعلق سہولیات ہوں یا تعلیم اور روزگار ہو اس لئے ان کے اندر نفرت پیدا کی جا رہی ہے اور انہیں نفرت کے ساتھ زندگی گزارنا سکھایا جارہا ہے۔ایک ملک اپنے لوگوں سے بنتا ہے، سبھی مزہب، ذات پات اور سماج کے ہر طبقے کے لوگوں سے اس پورے واقعے نے کچھ لوگوں توڑ دیا کہ ان کے دوسرے مزہب کے ماننے والے عزیز واقارب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ اکثریت کے لوگوں کو مسلمانوں بالخصوص مسلم خواتین کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا چاہیے اور ایسے حالات میں یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے جہاں ان کی خاموشی انہیں پیغام کے دائرے میں لا سکتی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے سماج و دوسرے طبقہ کے لوگ بھی اس اسلاموفوبک فروغ کے خلاف بولنے میں حصہ لیں گے کیونکہ ان کی خاموشی ہمیں اس دور میں لے جاسکتی ہے جب ہماری مسلم شناخت پر قائم رہنا ہی ہماری بہادری ہوگی۔