یوم اردو منایا ہم نے,مگر اے بابری! ہم تجھے بھول گئے

محمد شعیب رضا نظامی فیضی
چیف ایڈیٹر: ہماری آواز
 گولابازار، گورکھ پور
9792125987
ہم مسلمانوں کی ایک بہت بڑی کمی یہ ہے کہ ہمارے مذہب وملت یا ہمارے وجود کے پر جب بھی حملہ ہوتا ہے تو ہماری رگیں ضرور پھڑکتی ہیں ہم احتجاج بھی کرتے ہیں، ہم سڑکوں پر بھی اترتے ہیں ہم نعرے بازی بھی کرتے ہیں مگر افسوس اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ ہمارے مخالفین اس وقت تھوڑا خاموش ہوجاتے ہیں اور انتظار کرنے لگتے ہیں پھر جیسے ہی ہمارے احتجاج کی مہم سرد پڑنی شروع ہوتی وہ دوبارہ ایسی کاری ضرب لگاتے ہیں کہ اس بار پورا معاملہ صاف ہوجاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے پہلے ہمارے مذہب یا مذہبی رہنماؤں(علماء ) کے بارے میں جن لوگوں کو بولنے کی جرات نہیں ہوتی تھی آج کھلے عام وہ ہمارے بزرگان دین، صحابہ کرام، اولیاء کی مقدس جماعت حتی کہ ہمارے آقا جناب محمد مصطفیﷺ کی شان اقدس میں گستاخیاں کرتے پھرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم نے ان کی پچھلی گستاخیوں پر ردعمل کا اظہار نہیں کیا یا ہمارے زبان و قلم نے ان کی مخالفت نہیں کی بلکہ اس کی وجہ یہ رہی کہ ہم نے ردعمل اور احتجاج و مخالفت کے نام پر صرف خانہ پری کی۔ کچھ وقت کے لیے ہم مخالفت کے میدان میں آئے مگر چند لمحات کے بعد ہی ایسے سرد پڑ گئے کہ آج ہمیں وہ واقعات بھی یاد نہ رہے جس کی ہم شدید مخالفت کرتے پھر رہے تھے اور یہی ہماری وہ دکھتی رگ ہے جس پر ہمارے مخالفین ہمیشہ ہاتھ نہیں رکھتے مسلنے کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں وہ جان چکے ہیں جب بھی مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا جائے گا تو یہ صرف اور دو دن کا احتجاج کریں گے پھر ان کی مخالفت ٹھنڈے بستے میں چلی جائے گی لہذا جب بھی چاہوں ان کے مذہبی شعار، مذہبی رہنماؤں، مذہبی کتابوں اور عبادت گاہوں کی توہین کرو، کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ایسا ہی کچھ بابری مسجد کے ساتھ بھی ہوا بلکہ اس معاملہ میں تو ملک کی حکومت، انتظامیہ، سیاسی و مذہبی رہنما حتی کہ ملک کی عدلیہ نے امت مسلمہ کے ساتھ جو چھل کپٹ کیا مسلمانوں کے ساتھ جو دھوکہ کیا اس کی مثال تاریخ پیش نہیں کرسکتی۔۔فیصلہ ہونے سے قبل ہی ملک کے ان نام نہاد سیکولر لوگوں جن میں حکمراں، پولیس انتظامیہ، سیاسی لیڈران اور ہندو مذہبی رہنماؤں کے ذریعہ ملک کے سب سے بڑے اقلیتی طبقہ کو یہ سمجھایا جاریا تھا کہ فیصلہ کسی کے بھی حق میں ہو فتنہ فساد نہیں ہونا چاہیے جب کہ حقیقت تو یہ تھی کہ فساد نہیں بلکہ فیصلہ چاہے حق ہو یا ناحق مسلمانوں کے ذریعہ احتجاج نہیں ہونا چاہیے ورنہ ملک کی اکثریت یعنی ہندو ووٹوں میں کمی آجائے گی اور اکثریتی طبقہ کی ناراضگی مول لینا کسی کو پسند نہیں۔ آخر اس موقع پر صرف اور صرف مسلمانوں کو پولیس تھانوں میں اور جگہ جگہ کیوں سمجھایا جارہا تھا کہ امن و امان قائم رکھنا ہے کیوں ملک کے اکثریتی طبقہ کو امن و امان کی دعوت نہیں دی گئی؟ کیوں انھیں سمجھانے بجھانے اور عدالت کے ہر فیصلہ کو من و عن قبول کرنے کو نہیں کہا گیا؟ کیوں ان سے نہیں کہا گیا کہ اگر فیصلہ مسجد کے حق میں آجائے (جو کہ امر محال تھا) تو بھی خاموشی اختیار کرنی ہے؟ وہ اس لیے کہ فیصلہ تو عدالت کے باہر ہی ہوچکا تھا کہ مسجد نہیں مندر ہی کے حق میں فیصلہ ہوگا لہذا ہندوؤں کی جانب سے دنگے اور فساد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہاں! مسلمانوں کی حق تلفی ہوگی، سراسر مسلمانوں کے خلاف فیصلہ ہوگا، مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کی نئی تاریخ رقم کی جائے گی لہذا صرف اور صرف انھیں سمجھایا جائے کہ وہ اپنے حق کو ضائع ہوتے صرف اور صرف دیکھ سکے، وہ جس جگہ اپنے سر کو خالق حقیقی کے سامنے جھکاتے تھے اس جگہ مورتی رکھی جائے اور مسلمان کچھ بولنے کی جرات نہ کرسکے، مسلمان جس جگہ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتا تھا اس جگہ کے بدلے میں کہیں دور کچڑے کے ڈھیر پر بھیک دے دی جائے اور مسلمان اف تک نہ کرسکے۔یہ پوری پلاننگ اور منصوبہ بندی تھی جسے باقاعدہ عملی جامہ پہنایا گیا اور مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ دہی کی گئی کہ ان کی مسجد پر مندر بنانے کا ناحق فیصلہ کردیا گیا اور پھر عدالت کے اس فیصل کو اس ناانصافی اور مسلمانوں کے ساتھ بڑی چالاکی سے کیئے گئے دھوکے کا انعام ملا حکومت نے اسے ممبر آف پارلیہ منٹ بنا دیا اور اس طرح بابری مسجد کی تاریخ مٹانے کا آغاز ہوا اور ہم مسلمان بڑی مصلحت پسند ہیں، دنیا میں امن و شانتی کا بیڑا ہی ہم نے اٹھا رکھا ہے۔۔۔۔ ہم نے مصلحت پسندی دکھائی اور امن و امان کا وہ بیڑا اٹھا لیا جس کے تلے عدل و انصاف کی کٹیا دب کر رہ گئی۔ ہم نے اپنے جذبات و احساسات اور مذہبی شعار و حقوق کا گلا گھونٹ دیا، ہماری مسجد پر مندر کی تعمیر ہونے لگی، ہم خاموش رہے۔ جس جگہ سے ہم اللہ کی وحدانیت کا پیغام دیتے تھے وہی شرک کا گڑھ بنا دیا گیا اور ہم اپنا منہ بند کیئے تماشہ دیکھتے رہے۔ عدل و انصاف کا گلا گھونٹا گیا اور ملک کے اکثریت کو یہ پیغام دینے میں مصروف رہے کہ ملک میں اخوت و بھائی چارہ گی کی کمی نہ ہونے پائے پھر چاہے اس کے لیے صرف اور صرف ہمیں ہی کروڑوں قربانیاں دینی پڑے۔ہم نے ۹ نومبر کو یوم اردو منایا، منانا بھی چاہیے کہ اردو ہماری تہذیب و ثقافت اور ہمارا ترجمان ہے۔لیکن افسوس اس بات کا ہوا کہ اسی ۹ نومبر کو عدل و انصاف کا گلا گھونٹا گیا تھا، ہماری مسجد ہم سے چھین کر اس پر مندر کی تعمیر کی جارہی ہے مگر ہمارے منہ میں زباں نہیں کہ ہم خانہ خدا کے لیے ایک لفظ بول سکے۔مسلمانو! میں تمھیں اس بات کا پیغام نہیں دینا چاہتا کہ تم اٹھو اور اپنے حق کی لڑائی لڑو! میں تم سے یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم اپنے اوپر ہورہے ظلم و ستم کے خلاف علم بغاوت بلند کرو! میں تمھیں یہ نہیں بتانا چاہتا کہ تمھیں وہ ہو جس کے آگے دنیا کی ہر طاقت نے اپنا سر جھکایا تھا، کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ تمھارا ضمیر مردہ ہوچکا ہے، تمھارے غیرت ایمانی کا جنازہ نکل چکا ہے، تمھاری رگوں میں اب خون نہیں پانی دوڑتا ہے، تمھارا ایمان اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ تمھیں نہ تو اپنے خدا پر بھروسہ رہا اور نہ ہی اس کی کتاب قرآن حکیم پر، تمھاری حیثیت مندر کے اس گھنٹے کی بھی نہیں رہی جسے اکثریتی طبقہ کا دلت نہیں بجا سکتا مگر تمھیں ہر کوئی آتا ہے بجا جاتا ہے۔۔۔۔ اس لیے میں تمھیں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔۔۔۔ ہاں! یہ دل کا درد ہے جو قلم بیان کرجاتا ہے۔۔میں تو بس اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب تم سے کہا جائے گا اے مصلحت پسندی کے ٹھیکے دارو! جاؤ، اپنی بہن بیٹیوں سے ہمارے نوجوانوں کے ہوس کی پیاس بجھواؤ! اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم دہشت گرد کہلاؤگے کیوں کہ وہ دن دور نہیں جب اکثریت کی سیوا کرنا وطن پرستی کا شعار قرار دے دیا جائے گا۔ پھر تمھاری حالت دیکھنے کے قابل ہوگی ؟یا افسوس کرنے لائق۔۔ مجھے مکمل احساس ہے کہ میرے الفاظ بہت سخت ہیں اور آپ کو غصہ آرہا ہوگا مگر۔۔۔۔ ذرا بتاؤ تو سہی۔۔۔ کیا تمھاری ماں کی عزت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے بڑھ کر ہے؟ کیا تمھاری بیٹیوں کی شان خاتون جنت سے اونچی ہے؟ کیا تمھارے باپ کا وقار رسول مختارﷺکی عظمتوں سے بڑھ کر ہے؟ کیا تمھاری حیثیت معبود بر حق خداوند متعال سے زیادہ ہوچکی ہے؟ کیا تمھارے گھر خانہ خدا سے افضل ہوگئے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو تم مسلمان ہی نہیں، اور اگر ایسا نہیں تو تم مسلمان کیسے؟ جو اپنے ماں،باپ اور بہن، بیٹی سے کہیں کروڑوں درجہ زیادہ عزت و عظمت، شان و شوکت، قدر و منزلت والی ہستیوں کی گستاخیاں برداشت کرتے پھرتے ہو؟؟