شہید با بری مسجد کی۲۹ویں برسی

ڈاکٹر سید فرحان غنی بابری مسجد کو میر باقی نے ۱۵۲۷ء میں تعمیر کروایا تھا، لیکن خفیہ طریقے سے بابری مسجد میں ۱۹۴۹ء میں رام کی مورتی رکھ دی گئی۔بابری مسجد انہدام کی تفتیش کرنے والے انکوائری کمیشن کے سربراہ جسٹس (ریٹائرڈ) لبراہن کا کہنا ہے کہ ’’میں نے اپنی جانچ میں پایا کہ یہ ایک سازش تھی۔ مجھے اب بھی اس پر یقین ہے۔ میرے سامنے پیش کئے گئے تمام شواہد سے یہ واضح تھا کہ بابری مسجدانہدام کا منصوبہ باریکی سے بنایا گیا تھا۔‘‘ ایودھیا (اتر پردیش) کے مقام پر تعمیر یہ ایک شاہکار مسجد تھی۔ جن میں تین گنبد تعمیر کئے گئے تھے۔ اس شاہکار مسجد کو وشو ہندو پریشد کے کارسیوکوں کے ذریعہ ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء میں شہید کردیا گیا۔ مسجد کی شہادت میں وشو ہندو پریشد، آر ایس ایس اور بی جے پی کے سرکردہ رہنمائوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ رام رتھ یاترا کی قیادت ایل کے اڈوانی نے کی تھی۔ تقریباً ڈیڑھ لاکھ کارسیوکوں کے ذریعہ حفاظتی حصار کو توڑتے ہوئے بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا۔آزادی کے بعد پہلے دہشت گردانہ حملے میں گاندھی جی کا قتل ہوااور دوسرے دہشت گردانہ حملے میںبابری مسجد شہید کی گئی جسے اس وقت کی کانگریس سرکار کی شہہ پر انجام دیا گیا۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد پورے ملک میں بدترین فرقہ وارانہ فساد ہوئے جن میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ۱۹۸۰ء میں وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس نے اس مقام پر رام مندر کی تعمیر کے لئے باضابطہ مہم چلائی اور بی جے پی نے اسے اپنا سیاسی حربہ بنایا۔ ایک طویل عدالتی جدوجہد کے بعد آخر کار فرقہ پرستوں کی جیت ہوئی اور سپریم کورٹ کے ذریعہ بابری مسجد کی اراضی کی ملکیت کو ہندو فریق کو سونپ دیا گیا۔ اس سے قبل ستمبر ۲۰۱۰ء میں الہ آبادی ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے تاریخی فیصلہ سنایا تھا جس کے تحت متنازعہ زمین کو تین حصّوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک حصّہ رام مندر، دوسرا حصّہ سنی وقف بورڈ اور تیسرا حصّہ نر موہی اکھاڑے کو دیا گیا، لیکن یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا اور سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی۔ مارچ ۲۰۱۷ء میں سپریم کورٹ نے معاملہ کو آپسی رضا مندی سے حل کرنے کی صلاح دی۔ اس کے بعد نومبر ۲۰۱۷ء میں ہندو گرو شری شری روی شنکر نے معاملہ کو حل کرنے کی کوشش شروع کیا اور اس سلسلے میں انہوں نے کئی فریقین سے ملاقات بھی کی، لیکن نتیجہ صفر رہا۔ واضح ہو کہ ۹ نومبر ۲۰۱۹ء کو سپریم کورٹ نے سو سال سے زائد پرانی اجودھیا کی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کو منہدم کرنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے وہاں مندر تعمیر کرنے کی اجازت دی تھی اور مسلمانوں کو پانچ ایکڑمتبادل زمین دینے کی ہدایت بھی کی۔سپریم کورٹ کا یہ کہنا کہ بابری مسجد کو غیر قانونی طریقے سے توڑا گیااور مندر کو توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی تھی اس کے باوجودوہاں پر مندر تعمیر کرنے کی ہدایت دینا سمجھ سے بالا تر ہے۔ آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ نریندر مودی نے ۲۰۱۴ء میں اپنے انتخابی منشور میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پانچ سال کے بعد نریندر مودی نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اگر آپ نریندر مودی کے ۲۰۱۴ء کے وعدے کو دھیان میں رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لیں گے تو آپ کو سمجھ میں آجائے گا کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کا تھا یا نریندر مودی کا۔کورٹ کے فیصلے سے وشوہندو پریشد کا حوصلہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بابری مسجد کے بعد اب متھرا کی عید گاہ مسجد کو ہٹانے کا مطالبہ شروع ہو گیا ہے۔فرقہ پرست تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ مسجد ۱۷ ویں صدی عیسوی میں مغل بادشاہ اورنگزیب کے دور میں بھگوان کرشن کی جائے پیدائش پر موجود مندر کے ایک حصے کو منہدم کر کے بنائی گئی تھی۔بابری مسجد انہدام میں اہم کردار ادا کرنے والے وشو ہندو پریشد نے کہا تھا کہ اگلا نشانہ کاشی اور متھرا ہے۔ان تنظیموں کی طرف سے یہ نعرہ دیا گیا تھا کہ ایودھیا تو صرف جھانکی ہے، کاشی متھرا ابھی باقی ہے۔متھرا کی عید گاہ مسجد کو ہٹانے کے لئے عدالت میں عرض داشت بھی دی گئی ہے جسے عدالت نے منظور بھی کر لیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت کا کیا رخ رہتا ہے؟اگر عدلیہ کا رویہ وہی رہتا ہے جیسا کہ رام جنم بھومی اور بابری مسجد تنازعے میں رہا ہے تو ممکن ہے کہ اس کا بھی وہی انجام ہو جو بابری مسجد کا ہوا۔سپریم کورٹ کے ذریعہ مندر کے حق میں فیصلے کے بعد اور تمام ملزمین کے بری ہو جانے کی صورت میں ان انتہا پسندوں کے حوصلے بلند ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی ہزاروں مسجدیں ان کے نشانے پر ہیںاور ان کا دعویٰ ہے کہ ملک میں ایسی تین ہزار مساجد ہیں جن کی تعمیر مغلوں نے مندروں کو منہدم کر کے کیا تھا۔ ان کے مطابق اس میں دہلی کی جامع مسجد بھی شامل ہے۔ ۲۰۱۴ء کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول تیزی سے پھیلایا یوں کہیں کہ پھیلایا گیا۔مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو عام بنا دیا گیا۔ حالیہ دنوں میں مدھیہ پردیش، اتر پردیش، اترا کھنڈ، کرناٹک اور کئی دیگر ریاستوں میں مسلمانوں پر کئے گئے حملے اس کا ثبوت ہیں۔مدھیہ پردیش کے ضلع نیمچ میں ہندئوں کے ایک ہجوم نے ایک درگاہ کے مجاور اور ایک خاتون سمیت بعض عقیدت مندوں پر رات میں حملہ کردیا۔ رپورٹ کے مطابق انہیں رات بھر زد و کوب کیا گیااور جانے سے پہلے درگاہ کے ایک حصے کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔اس سے قبل اجین کے سیکلی گائوں میں کئی نوجوان ہندئوں نے ایک مسلم کباڑی والے عبدالرشید کو بری طرح پیٹا اور انہیں دھمکی دی کہ یہ ہندئوں کا گائوں ہے، وہ یہاں دوبارہ نہ دکھائی دے۔عبدالرشید کا کہنا ہے کہ ’’میں بیس سال سے یہاں کام کر رہا ہوں۔ ہم سبھی آس پاس کے گائوں جاتے ہیں۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے روکا ہو۔ مجھے کئی نوجوانوں نے مارا۔ میرا سامان پھینک دیا۔ مجھ سے جے شری رام کا نعرہ لگوایا اور کہا کہ میں دوبارہ یہاں نہ آئوں‘‘۔اس طرح کے واقعات رو ز ہو رہے ہیں اور مسلمان خوف و بے بسی کے دور سے گزر رہے ہیں۔آج ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ وہ سب کچھ ہورہا ہے جو انگریزوں کے زمانے میں بھی نہیں ہوا۔ہندوستان کے موجودہ صورت حال سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والا وقت مسلمانوں کے لئے کتنا اذیت ناک ہوگا۔مسلمانوں کے حالات زار پر ملک کی سیکولر پارٹیاں بھی خاموش ہیں۔سیکولر پارٹیوں کے منہ پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔لگتا ہے کہ ان لیڈروں کی زبانوں کو بی جے پی والوں نے کاٹ ڈالا ہے۔بہر حال سیکولر پارٹیوں کی بے حسی کے نتیجے میں فرقہ پرست قوتیں اتنی مضبوط ہو گئی ہیں کہ وہ ملک کے سیکو لرزم کا گلا گھونٹ رہی ہیں۔ان سیکولر پارٹیوں کے دماغ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ اگر فرقہ پرست طاقتیں مضبوط ہونگی تو اس کا خمیازہ ملک کو بھی بھگتنا پڑے گا۔بہر کیف آج ہمارے ملک کو مضبوط سیاسی قیادت کی اشد ضرورت ہے۔قیادت ایسی ہونی چاہئے جو اپنے مفاد سے اوپر اٹھ کر مسلمانوں ، دلتوں، کمزوروں، مظلوموں اور ملک کے مفاد کے لئے کام کرے نیز ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرتوں کا خاتمہ کرے۔محبت اور بھائی چارے کی فضا کو فروغ دے تاکہ ہندو مسلمان، سکھ، عیسائی آپس میں بھائی بھائی بن کر زندگی گزاریں۔ ہندوستان پوری دنیا کے لئے ایک مثال قائم کرے اور پوری دنیا ہندوستان کی ملی جلی تہذیب پر رشک کرے۔کیا ایسا ممکن ہے؟اگر ایسا ہو گیا تو پھر ہندوستان پوری دنیا کا خوبصورت ملک ہوگا،اگر ایسا نہیںہوا توپھر ملک کا اﷲ ہی حافظ ہے۔