بابری مسجد کی شہادت کو انتیس( 29)سال گزر گئے

 از _ محمد افضل اصلاحی
تین گنبدوں والی یہ شاہی مسجد شاہ بابر کے دور میں اودھ کے حاکم میر باقی اصفہانی نے ۱۵۲۸ میں تعمیر کرائی اس شاہی مسجد میں بیک وقت ساڑھے آٹھ سو آدمی نماز ادا کرسکتے تھے مسجد کے درمیانی مرکزی در کے اوپر دو میٹر لمبی اور پچپن سینٹی میٹر چوڑی پتھر کی تختی کا ایک کتبہ نصب تھا جس میں اوپر بسم اللہ الرحمن الرحیم و بہ ثقتی لکھا تھا اس کے نیچے اشعار لکھے تھے ان اشعار میں اللہ کی کبریائی، محمد ص کی تعریف، شاہ بابر اور میر باقی کی حکومت کا ذکر کیا گیا تھا۔۔۔۔ اس کتبہ کے علاوہ مسجد کے اندر منبر کے دونوں جانب ایک ایک کتبہ نصب تھا ۲۷ مارچ ۱۹۳۴ کو اجودھیا میں زبردست فساد ہوا فسادیوں نے کتبوں کو اکھاڑ لے گئے بعد میں تہور خان نے بائیں جانب والے کتبہ کی نقل تیار کردی داہنی جانب والے کی نقل سید بدر الحسن کے پاس موجود تھی۔۔۔۔۔ ابتدائی تعمیر سے مسجد میں پنج وقتہ نمازیں اور جمعہ ہوتا رہا ہے ۱۹۴۹ تک مسجد مسلمانوں کے قبضہ میں رہی۔۔۔۔۔ انگریزوں نے ہندوستانیوں کو آپس میں لڑانے کے لئے ناپاک چال چلی ایک افسانہ کو ترتیب دیا۔۔۔۔ مسجد، مندر، جنم استھان وغیرہ کا پروپگنڈہ کھڑا کیا اور ۱۸۵۵ میں اجودھیا میں فساد ہوا اور بابری مسجد کے مسئلہ میں اختلاف ہوگیا ۱۸۵۷ میں ہندوستانیوں نے اس مسئلہ کو آپس میں حل کر کے جنگ آزادی کا بگل بجایا جب اودھ انگریزوں کی حکمرانی میں آگیا تو ازسر نو اس مسئلہ کو ذندہ کردیا۔۔۔۔۔۔ ۱۸۵۷ میں ایک شخص ایک چبوترہ بنادیا اس پر حکومت نے جرمانہ عائد کیا مگر چبوترہ کو باقی رکھا اس کے واقعہ کے بعد دوسرے شخص نے رات کو مسجد کے محراب کے پاس ایک چبوترہ بنادیا اور دیواروں پر کوئلہ سے رام رام لکھ دیا مسجد کے امام نے عدالت میں درخواست دی۔۔۔۔۔ ۲۲ / ۲۳ دسمبر ۱۹۴۹ کی رات کو ابھے رام داس نے اپنی کچھ آدمیوں کے ساتھ مسجد کے اندر مورتی رکھ دی جس کے خلاف اس وقت ڈیوٹی پر مقرر کانسٹبل ماتوپرشاد نے تھانہ میں رپورٹ درج کرائی اور کہا کہ اس سے ملک کے امن و امان کو خطرہ ہے ضلع مجسٹریٹ نے ۱۴۵ کے تحت مسجد میں تالا لگا دیا دونوں سے اپنے ثبوت پیش کرنے کو کہا ۱۶ جنوری ۱۹۵۰ میں گوپال سنگھ نے کچھ لوگوں کو لے کر یہ دعوی کردیا کہ مسجد جنم استھان ہے ۔۔۔۔ ۱۹ جنوری ۱۹۵۰ میں دونوں فریق کو مسجد میں جانے سے روک دیا۔۔۔ ۱۳ مارچ ۱۹۵۱ میں عدالت نے پوجا کرنے کی اجازت دےدی مسلمانوں کو اللہ کے گھر سے روک دیا گیا۔۔۔۔۔ ۱۹۶۱ میں دو مزید مقدمات ایک رام چند داس کی جانب سے اور دوسرا نرموہی اکھاڑہ کی جانب سے دائر کئے گئے جس کے جواب میں جمعیة علماء ہند اور یوپی سنی سینٹرل وقف بورڑ کی جانب سے بھی دائر کئے گئے۔۔۔۔۔۱۹۸۴ میں لال کرشن ایڈوانی کی قیادت میں رام کی پیدائش کی جگہ کو آزاد کروانے کے لئے تحریک کا اعلان ہوا۔۔۔۔یکم فروری ۱۹۸۶ میں تالا کھول دیا اور پوجا کرنے کی اجازت دےدی۔۔۔۔۱۹۸۹ میں شلانیاس کی تحریک نے پورے ملک میں دورہ کیا ۱۹۹۰ میں اجودھیا پہنچ گئے مسجد کو نقصان بھی پہنچایا مگر پورے طور پر کامیاب نہ ہوسکے ۶ دسمبر ۱۹۹۲ ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن قرار پایا اس دن وشوا ہندو پریشد کے حامیوں نے مسجد کو شھید کردیا ۔۔۔۔ ۲۰۰۲ میں اجودھیا متنازعہ زمین کی ملکیت کا مقدمہ کی سماعت کا آغاز ہوا اکتوبر ۲۰۱۰ میں الہ آباد عدالت نے ۸۰۰۰ ہزار سے زائد صفحہ پر مشتمل فیصلہ سنایا زمین کو تین حصوں میں بانٹ دیا دو حصہ ہندوں کو اور ایک حصہ مسلمانوں کو دیا ۔۔۔۔فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا بالآخر لمبے مقدمہ کے بعد ۹ نومبر ۲۰۱۹ کو سپریم کورٹ نے ۱ ہزار سے زائد صفحہ پر اپنا فیصلہ سنایا متنازعہ زمین ہندوں کو دے دی گئی اور مسلمانوں کو ۵ ایکڑ زمین دینے کی بات کہی گئی ۱۹۹۲ کی طرح ۲۰۱۹ بھی سیاہ دن قرار پایا۔افسوس کہ آج تک مسجد شھید کرنے والے کسی مجرم کو سزا نہ مل سکی ۔ مسجد اللہ کا گھر ہے وہ وقف الی اللہ ہے اس سے نہ ہم دستبرداد ہوسکتے ہیں نہ فروخت اور منتقل کرسکتے ہیں جو زمین عبادت کے لئے مخصوص کردی جاتی ہے وہ ہمیشہ کے لئے اللہ کے لئے ہی ہوجاتی ہے۔