بابری مسجد کی تعمیر انصاف کی تعمیر

محمد شمس عالم قاسمی
مغلیہ دور حکومت کے بادشاہ محمد ظہیر الدین بابر کے معروف گورنر میر باقی نے فوجیوں کی عبادت کیلئے اجودھیا کی سر زمین پر 1528 عیسوی میں ایک مسجد بنوائی، جہاں نہ کوئی مندر تھا، نہ کوئی عمارت، بلکہ ایک خالی جگہ تھی جہاں مسجد بنائی گئی تھی۔1528عیسوی سے 22 دسمبر 1949عیسوی تقریبا سوا چار سو سال تک بابری مسجد مسجد ہی تھی۔مغلوں کے دور اقتدار سے انگریزوں کی حکومت تک اور آزادی کے بعد اپنے آپ کو سیکولر کہلانے والی کانگریس کی حکومت میں بھی دو سال تک بابری مسجد صرف مسلمانوں کی عبادت گاہ اور اللہ سبحانہ تعالٰی کا گھر تھی، وہاں نہ تو کسی مندر کا دعوٰی تھا اور نہ ہی رام جنم بھومی کا نام و نشان۔1949 میں پہلی بار مسجد کی جگہ پر مندر ہونے کا دعوٰی کیا گیا، اسی سال پنڈت نہرو کی حکومت میں 22 23 دسمبر کی درمیانی شب بابری مسجد میں مورتی رکھی گئی آور ڈرامائی انداز میں من گھڑت کہانیوں، جھوٹے اور بناوٹی خوابوں کو بنیاد بناکر مسجد کو مندر بنانے کی سازش کی گئی۔1992 میں 6 دسمبر کو آر ایس ایس کے غنڈوں کے ذریعے اجتماعی طور پونے پانچ سو سال پرانی مسجد کو منصوبہ بند طریقے سے دن کے اجالے میں شہید کردیا گیا۔اس کے دو دن بعد 8 دسمبر کو ملک کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے مسلمانوں سے وعدہ کیا کہ دوبارہ اسی جگہ پر مسجد بنواکر مسلمانوں کو دی جائے گی۔اٹھارہ سال بعد 31 دسمبر 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے انصاف کو شرمسار کرنے ولا فیصلہ کیا جس میں مسجد کی زمین کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔9 نومبر 2019 میں سپریم کورٹ نے مسلم فریق کے تمام دستاویزات اور ثبوتوں کو ماننے کے باوجود بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا فیصلہ دیا جو کہ سراسر عدل و انصاف کے خلاف اور اکثریت کے دباؤ میں دیا گیا فیصلہ تھا۔گزشتہ سال 5 اگست 2020 میں  وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں مندر کی بنیاد بھی رکھ دی گئی اور تعمیراتی کام جاری و ساری ہے۔بابری مسجد کی شہادت صرف ایک مسجد کی شہادت نہیں بلکہ یہ جمہوریت کی تباہی و بربادی ہے، یہ سیکولرازم کا خون ہے، اسی لیئے بابری مسجد سے دست برداری کسی بھی صورت ناممکن ہے، آج بھلے ہی ملک کے دشمن اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے وہاں مندر بنوا رہے ہیں لیکن پھر بھی بھارت کے مسلمان بابری مسجد کی شہادت کو کبھی بھی فراموش نہیں کریں گے، تا دم حیات عدل و انصاف کو قائم کرنے اور مسجد کی بازیابی کیلئے کوشش کرتے رہیں گے اور بھی جب صحیح وقت آئے گا تو ان شاءاللہ تعالٰی آیا صوفیہ مسجد کی طرح قانونی طور پر وہاں دوبارہ بابری مسجد بنائی جائے گی۔کیونکہ یہ صرف مسجد کی لڑائی نہیں بلکہ یہ حق و باطل اور ظلم و انصاف کی معرکہ آرائی ہے جو ابتداء آفرینش ہی سے جاری و ساری ہے اور ہمیں اس بات پر کامل یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن صرف بھارت سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا سے ظلم و جبر کا خاتمہ ہوگا، موجودہ شیطانی و دجالی نظام کو تہ و بالاکیا جائے گا، دائمی شکست و ناکامی ان کا مقدر بنے گی اور صرف بھارت ہی نہیں بلکہ پورے عالم میں امن و انصاف کا نظام قائم ہوگا، عدل و مساوات کی بہاریں اس کائنات پر راج کریں گے، کورٹ کچہریوں سے لے کر ہائی کورٹ، سپریم کورٹ اور ایوان حکومت میں بھی حق و انصاف کی صدائیں گونجیں گے.
بقول فیض احمد فیض 
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم وستم کے کوہ گراں روئی کی طرح اُڑجائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑ کے گی
اوراہلِ حکم کے سراوپرجب بجلی کڑ کڑکڑکےگی
جب ارضِ خداکے کعبے سے سب بُت اُٹھوائےجائیں گے
ہم اہلِ سفامردودِحرم مسندپہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گےسب تخت گرائےجائیں گے
بس نام رہےگااللہ کاجوغائب بھی ہے حاضربھی جو ناظربھی ہے منظربھی
اٹھّے گا انا الحق کا نعرہ جومیں بھی ہوں اورتم بھی ہو 
اور راج کرےگی خلقِ خداجو میں بھی ہوں اورتم بھی ہو
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔۔۔