بابری مسجد سانحے سے نسلوں کو بھی غافل نہ ہونے دیں

شہاب مرزا 
  9595024421 
اس دنیا میں ایسے واقعات آنکھوں کے سامنے آتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر دل کانپ اٹھتا ہے کچھ واقعات پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ایسا ہی ایک واقعہ 6 دستمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت ہندوستان کے مسلمانوں کے سینوں میں خنجر کی طرح پیوست کر دیا گیا اور اب جو فیصلہ عدالت عظمی نے صادر کیا یہ دوسرا خنجر مسلمانوں کے سینے میں اس طرح دھکیل دیا گیا جیسے مسلمانوں کی دل آزاری نہیں ہوتی مسلمان پتھر کے بنے ہوئے ہیں۔
6 ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کے روز اس ملک عزیز میں مساوات بھائی چارہ اور انصاف کی علامت بابری مسجد کو شہید کر تیسری جنگ عظیم کا اآغازکردیا گیا تھا۔اور پھر دنیا کی تاریخی نے وہ خونی کھیل دیکھا کہ پوری انسانیت لہولہان ہوگئی۔ سفاکی کی ساری حدی ںپار کردی گئی اور ڈالر یعنی کے سرمایہ دارانہ نظام کے لئے درکا رماحول بھارت میں سازگار ہوا۔ ہر چیز کو ہر رشتے کو ہر جذبے کو اور ہر مذہب وعقیدے کو کرنسی میں تولہ جانے لگا۔ رشتوں کی تعریفیں بدل گئی۔ بھائی بھائی کا دشمن ہوا۔ بیٹا باپ کے خون کا پیاسہ ہوا ہر غرض کے ہر سو قیامت کا منظر قیامت سے پہلے دیکھنے کو ملا جبروتشدد نے جابرانہ انداز میں جمہوریت کا لبادہ پہن کر اپنے ماتھے پر انسانی خون سے اقتدار کا تلک لگایا-
اس متنازعہ معاملے میں ملک کی عدالت عظمیٰ نے 9 نومبر کو اپنا فیصلہ سنایا فیصلہ سنائے جانے کے بعد یہ تیسرا 6دسمبر ہے جسے ہم یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں بابری مسجد کو شہید ہوئے 29 سال کا عرصہ گزرا حکومتیں بدلی، فرقہ پرستوں کے تیور بدلے، لیکن کچھ نہیں بدلا تو مسلمانوں کا موقف کہ " عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ ہمیں منظور ہو گا "سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ یہ فیصلہ عقیدے کی بنیاد پر نہیں دیا گیا ہے مسلمانوں نے بھی پہلے ہی دن سے ملک کی عدلیہ پر غیرمتزلزل یقین کا اظہار کیا تھا اس سے بھی مسلمانوں کو امید تھی کہ فیصلہ ثبوتوں کی روشنی میں سنایا جائے گا لیکن ملک کی عدالت عظمیٰ نے جو فیصلہ سنایا وہ ملک کی اکثریت کو تو خوش کر سکتا ہے لیکن اسے مبنی بر انصاف نہیں کہا جا سکتا جب بابری مسجد کی حقیقت کو تسلیم کیا گیا تو ثبوتوں کی روشنی میں ملکیت کا دعویٰ کرنے والوں کو بھی تسلیم کیا جانا چاہئے تھا لیکن افسوس ایسا نہیں ہوسکا عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد مسلم پرسنل لا بورڈ نے پانچ ایکڑ زمین کی خیرات ٹکرادی اور ریو پٹیشن دائر کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ عجیب وغریب فیصلہ ہے کیونکہ عدالت اپنی ہی تحقیقات کی بنیاد پر منصفانہ فیصلہ دینے میں ناکام رہی۔
دوسری جانب بابری مسجد کا تالا کھول کر اور شیلا نیاس کی بنیاد رکھ کر جس کانگریس نے فاشسٹوں کے ہاتھوں ہاشم پورہ میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیامیرٹھ اور بھاگلپور میں خون کی دریا بہاے اور شری کرشناکمیشن آ کے کلیدی ملزم کو اپنے دامن میں پناہ دیتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف بھونکنے اور کاٹنے کے لئے اسے آزاد چھوڑ دیااسی کانگریس نے اپنے دور اقتدار میں تنہا ریاست مہاراشٹر میں ساڑھے تین سو سے زائد مسلم نوجوانوں کے انکاؤنٹر کیے اور خواجہ یونس جیسے سیکڑوں نوجوان انصاف سے محروم ہو کر رہ گئے ہزاروں مسلم نوجوان آج بھی جھوٹے مقدمات میں جیل کی سلاخوں کی صحبتیں جھیل رہیے ہیںجس کا آئینہ راجندر سچر کمیشن میں دیکھایا گیا شاہ بانو معاملے میں اختیاری پرسنل لا کی اجازت دے کر مسلمانوں کو احسان کی بھیک دینے والی کانگریس نے فاشسٹوں کے ہاتھوں پرسنل لاء اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی اور اسی کے تسلسل میں مسلمانوں کے مذہبی حقوق کو فاشسٹوں کے حوالے کرتے ہوئے زندگی کی بھیک مانگنے پر مجبور کیا ۔
اگر شیلا نیاس کے وقت مسلمان راجیو گاندھی کو پہچان لیتے اور اپنی نکیل کانگریس کے ہاتھ میں نہیں تھماتے تو شاید کانگریس ہی کی ایماء پر نرسیما راؤ کے ہاتھوں بابری مسجد کو شہید نہ ہونا پڑتا اور آج پرینکا کے ہاتھوں رسوائی اٹھانا نہ پڑتی کیا اب بھی یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ مسلم دشمن آر ایس ایس کی بی جے پی بڑی دلال کانگریس ہے اور کیا اس کانگریس کے ہاتھوں دیے جانے والے سیکولرازم کے گلدستے میں ہندو بنیاد پرستی کے زہریلے پھول رکھے ہوئے ہیں اس ملک کے اصلی رام بھکت بی جے پی نہیں بلکہ سونیا گاندھی پرینکا گاندھی اور راہول گاندھی ہے بی جے پی محض پردے کے سامنے کا ایک ڈرامہ ہے پنڈت سندر لال کمیشن سے آج تک یہی چیز ثابت ہوتی آئی ہے لیکن افسوس کہ ہمارے کانگریس قائدین نے مسلمانوں کی آنکھوں پر پردہ ڈالتے رہے اور سیکولرزم کا زہریلا گلدستہ سنگھا کر نشہ آور کرتے رہے مسلمان ذبح ہوتے رہے کمیشن پر کمیشن نافذ ہوتے رہے آخر کار مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے پرینکا گاندھی نے اپنی رام بھکتی کا کھل کر اظہار کیا اور کمل ناتھ جیسے ان کے چیلوں نے بھومی پوجن کو چڑھاوا کیا تاکہ مسلمانوں کے زخموں پر نمک رگڑا جائے اب سمجھ میں آیا کہ نرسیما راؤ جسکی لاش کو کتوں نے نوچا تھا اسی کے دور میں بابری مسجد شہید ہوئی اور شہادت کے اگلے روز اسی وزیراعظم لال قلعے سے بابری مسجد کو ایک مہینے میں تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا پھر کیا وجہ تھی کہ بھومی پوجن کی مذمت کرنے کے بجائے رام مندر کا سہرا پرینکا گاندھی اپنے سر پر باندھنا چاہتی ہے مسلمان پاگل ہو سکتے ہے لیکن بے وقوف نہیں اسکا خمیازہ آئندہ انتخابات میں کانگریس کو بھگتنا ہوگا اور کانگریس یہ نہ سمجھیں کہ کانگریس مسلمانوں کی مجبوری ہے....
جمعیت علماء ہند (ارشد مدنی) نے کہا تھا کی عدالت عظمی کے حالیہ فیصلے سے مسلمانوں کے ماتھے پر لگا داغ دھل گیا کہ مسلمانوں نے بابری مسجد کی تعمیر رام مندر توڑ کر کی تھی محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ نے کردیا کہ مسجد کی تعمیر مندر توڑ کر نہیں کی الہ آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی تسلیم کیا کہ 1949 میں بابری مسجد مورتیاں رکھنے کا عمل غیر قانونی تھا اس دن تک وہاں نماز کا سلسلہ جاری تھا اور پھر 6 دسمبر 1992 کو شرپسندوں کے ذریعے مسجد کو شہید کیا جانا بھی غیر قانونی عمل تھا سپریم کورٹ نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ مسلمانوں کے ثبوت 1857 کے بس 1949 تک بابری مسجد میں نماز پڑھنے کا ہے تقریبا یہ 90 سال ہوتے ہیں تو اگر 90 سال تک ہم نے اگر کسی مسجد میں نماز پڑھی ہے تو اس مسجد کی زمین کو ہمیں نہ دیگر مندر کو دینے کا کیا مطلب ہے یہ چیز ہماری سمجھ سے پرے ہیں۔
مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم ماہر قانون نے بھی اس فیصلے سے اتفاق نہیں کیا سپریم کورٹ سے 2012 میں سبکدوش ہوئے جسٹس گنگولی نے کہا کہ اگر بابری مسجد شہید نہیں ہوتی اور ہندو سپریم کورٹ سے رجوع ہوتے اور کہتے کے رام کا جنم استھان مسجد کے اندر ہے تو کیا عدالت مسجد کو شہید کرنے کا حکم دیتی ؟ عدالت ایسا نہیں کرتی تو پھر عدالت نے ایسا فیصلہ کیوں دیا؟ ان جیسے سوالات عدالت کے سامنے دوبارہ پیش کرنے کے لئے نظرثانی کی درخواست عدالت میں داخل کرنا ضروری ہے پانچ رکنی آئینی بینچ نے اپنے فیصلے میں مورتی کو فریق نہیں قبول کیا اسکے باوجود فیصلہ ہندوؤں کے حق میں دے دیا گیا جو ناقابل فہم ہے عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے سبھی کو ذہنی کرب میں مبتلا کردیا ہے۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ اس کیس میں پوری دیانتداری سے کام کر رہا ہے اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بابری مسجد کے تعلق سے مسلمانوں کا موقف کیا ہونا چاہیے؟ مسلم پرسنل لابورڈ ہمارا سب سے معتمد پلیٹ فارم ہے اسلامی قوانین و تعلیمات کی حفاظت کا اول دن سے اس نے تہیہ کیا ہے ہمیں بس انکے فیصلے کا احترام کرنا ہے۔
مگر عام مسلمانوں کا بابری مسجد کے تعلق سے کیا موقف ہے اب تک جو ہوا اس سے آگے بڑھ کر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس پر غور کرنا ضروری ہے کیونکہ 6 دسمبر کا تاریک دن ہم تا قیامت نہیں بھول سکتے جو بھولنا چاہتے وہ بے حس ہے بابری مسجد کا معاملہ ملک کی سالمیت سے جڑا ہے۔
عدالت عظمی کے فیصلے سے ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اصل فیصلے کرنے کے اختیارات رب کائنات کے ہیں اور کسی قوم میں مایوسی کا دارانہ خطرناک عمل ہے یہ عمل قوت فکر و عمل کو فنا کر دیتا ہے اس لیے مسلمانوں کو مایوسی سے بچنا ہو گا اور آنے والی نسلوں کو بتانا بھی وقت کی ضرورت ہے کہ تاقیامت بابری مسجد سے غافل نہیں ہونا یہ ہماری ملکیت تھی ہے اور رہے گی. افسوس کہ ہم نے بابری مسجد کے مجرموں کی فہرست بنا لی لیکن ان کے گناہ لکھنا بھول گئے بابری مسجد کی شہادت سے ہم بھی غافل نہ ہو بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی غافل نہ ہونے۔
بہرکیف میری نظر میں مسلمان ایک تنظیمی ڈھانچے اور حکمت عملی کے بحران سے دوچار ہے ہر سال چھ دسمبر کو ہم بابری مسجد شہادت کا احتجاج کرتے ہیں اصل میں ہم مسلکی ملی اور سیاسی طور پر منتشر ہو کر گئے ہیں سب اپنے اپنے طور پر ملا جلا بناتے ہیں اور اپنے گھر نزدیک کر دیتے ہیں۔
موجودہ حالات میں ہونا یہ چاہیے کہ ملت کے نام پر اتحاد کرنا اور متحد ہونا ضروری ہے اور منزل تک پہنچنا ہوگا ہمارے پاس کوئی حکمت عملی یا پلان نہیں ہے وقت کی ضرورت ہے جس طرح مسلم پرسنل لا کے موقف پر سبھی مسلمانوں نے لبیک کہا ویسے ہی ایک پلیٹ فارم سے ہم بابری مسجد کی شہادت کے لیے لبیک کہے اور چھ دسمبر کو منظم طریقے سے احتجاج کریں الگ الگ تنظیموں اور گروپوں میں بٹنے سے ہمارے تعداد کم ہوتی ہے اس لئے منظم لائحہ عمل کی ضرورت ہے مسلمانانِ ہند اپنی صد سالہ تاریخ کے سب سے آزمائش کن دور سے گزر رہے ہے اس لیے اب ہم اپنی زندہ اور بیدار ہونے کا احساس دلانا ہوگا اور ہمارے جائز مسائل کی یکسوئی حق کے حصول کیلئے سڑکوں پر تعداد بتانی ہوگی تاکہ دنیا کو پیغام جائے کہ ہم اپنے مسائل کو لیکر متحد ہے۔
اسی کے ساتھ ہی ہمیں بحیثیت قوم اپنا اجتماعی محاسبہ کرنا ہوگا ذاتی مسلکی نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک امت بنکر سوچنا ہوگا اللہ کے گھر کو آباد کرنا ہوگا اپنے گناہوں سے توبہ کرنی ہوگی اور خالق کائنات سے تمام امیدیں وابستہ کرنی ہوگی مایوسی اور بے بسی کے بجائے مناسب حکمت عملی کے ذریعے ہی انصاف کی حصول کو یقینی بنایاجاسکتاہے عدالت عظمیٰ نے عدل کی تاریخ میں کالا حرفوں سے جو کچھ تحریر کیا ہے اسے ہر وقت رہتے دھویا نہیں گیا تو نفرت کی خلیج ملک کی سالمیت کیلئے خطرہ بن جائیگی۔
یہی وقت ہے آگے بڑھو خدا کے لیے
 کھڑے رہو گے کہاں تک تماش بینوں میں