اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

 
           مولانا ارشد کبیر خاقان المظاہری
 (جنرل سکریٹری: ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ)
  قران مجید اللہ خداوند کریم کی نازل کردہ ایک سچی کتاب ہے(جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں قرآن مجید میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں ذلِکَ الْکِتابُ لا رَیْبَ فِیہِ یعنی اس کتاب میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے لہذا قرآن لا ریب کتاب ہے اس لئے کہ یہ منزل من اللہ ہے اور اللہ تعالیٰ خطاؤں سے پاک ہے) اپنے بندوں کے لئے یہ اللہ کا پیغام ہے، اس سے ایمان بڑھتا اور دلوں کا زنگ اترتاہے۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنا باعث برکت اور ثواب ہے، تلاوت قرآن دلوں کو سرور اور آنکھوں کو نور بخشتی ہے،انسان قرآن کی تلاوت کرنے سے مصیبت، بیماری اور پریشانی سے بچتا ہے،تلاوت قرآن کرنے والا قیامت کے روز قرآن مجید لکھنے والے معزز فرشتوں کے ساتھ ہو گا، مشقت سے اٹک اٹک کر پڑھنے والے کو تلاوت کا دوہرا ثواب ملتا ہے،اللہ پاک قرآن کی تلاوت کرنے والے کا ذکر فرشتوں کے سامنے کرتا ہے، قرآن مجید کی ایک آیت کی تلاوت دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت سے زیادہ قیمتی ہے،قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت کرنے والے کی جنت میں تاج پوشی کی جائے گا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے تم میرا ذ کر فرش پر کرو میں تمہارا ذکر آسمان پہ کرونگا، اللہ پاک ہم سب کو قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین یا رب العالمین۔
  افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہماری اکثریت قرآن مجید کی تلاوت سے محر وم اور غافل ہے،ہم قرآن کریم کی تلاوت کے لئے وقت نہ ملنے کا بہانہ جبکہ دنیاوی کاموں میں اپنا وقت لگانے سے گریز نہیں کرتے، جبکہ تلاوتِ قرآنِ پاک سے اللہ وقت میں برکت ڈالتا ہے، یہ ایسی کتاب ہے جو انسانوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی (ہدایت) کی طرف لاتی ہے،بھٹکے ہوؤں کو سیدھا راستہ دکھاتی ہے، قعر مذلت میں پڑے ہوؤں کو اوج ثریا پر پہنچاتی ہے، اللہ سے بچھڑے ہوؤں کو اللہ سے ملاتی، قرآن مجید انسانیت کے لئے منشور حیات ہے، دستور حیات ہے اور ضابطہئ حیات بلکہ پوری انسانیت کے لیے آب حیات بھی ہے،قرآن مجید ایسی کتاب ہے جس کا دیکھنا بھی عبات،چھونا بھی عبادت،پڑھنا بھی عبادت،سننا بھی عبادت، سمجھنا بھی عبادت،عمل کرنا بھی عبادت اور اس کا حفظ کرنا توبہت بڑی عبادت ہے۔ تو آیئے ہم قرآن کریم کی تلاوت سے متعلق اس کی فضیلت کے بارے میں قرآن و سنت کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
حافظِ قرآن اور ان کے والدین کے لیے احادیث میں بیشمار فضائل وارد ہوئے ہیں،آپ صل اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس نے قرآن پڑھا اور اس کو پڑھایا“۔] بخاری [۔رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم قرآن کریم پڑھو اس لئے کہ قرآن کریم قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے سفارشی بن کر آئے گا“۔] مسلم [۔نبی دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قرآن کی سفارش کو قبول کیا جائے گا۔ قرآن اپنے پڑھنے والوں اور عملی زندگی میں لانے والوں کے لئے بھی جھگڑا کرے گا اور نجات دلائے گا۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”قیامت کے دن قرآن اور قرآن والے جو اس پر عمل کرتے تھے، ان کو لایا جائے گا۔ سورۃ بقرہ اور آل عمران پیش پیش ہوں گی اور اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے جھگڑا کریں گی“۔]مسلم[۔
  ایک روایت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے قرآن مجید پڑھا، پھر اسے یاد کیا اور اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام جانا تو اللہ تعالیٰ اسے ابتدا ہی میں جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کے ان دس عزیزوں کے حق میں اس کی سفارش قبول فرمائے گا جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی (یعنی وہ فاسق اور مستحق عذاب ہوچکے ہوں گے)۔(مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)
قارئین کرام! قرآن کریم کو مضبوطی سے تھام لینے والے کو اللہ سبحانہ و تعالی دنیا میں عزت و مرتبت اور آخرت میں جنت میں اعلیٰ مقام سے نوازیں گے۔اور جو قرآن کی تلاوت اور تعلیمات سے دور ہوتے ہیں اورمن چاہی زندگی بسر کرتے ہیں تو پھر ایسوں کو اللہ پاک ذلیل و خوار کر دیتے ہیں۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:”اللہ تعالیٰ اس کتاب ] قرآن مجید[ کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو سربلند فرمائے گا اور دوسروں کو ذلیل کرے گا“۔] مسلم[۔
یاد رہے: قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اسے مکمل یاد کرکے اپنے سینے میں محفوظ کرنا یقیناََ سعادت مندی ہے، حافظ قرآن کے بہت سارے فضائل احادیث میں وارد ہوئے ہیں، ہمیں اپنی اولاد میں سے کم از کم ایک کو حافظ قرآن اور عالم دین بنانا چاہیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بے شک وہ آدمی جس کے دل میں قرآن کا کچھ حصہ نہیں وہ ویران گھر کی طرح ہے“۔ ] ترمذی[۔سورۃ بقرہ کے بارے میں رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”بے شک شیطان اس گھر سے دور بھاگتا ہے جس میں سورۃ بقرہ پڑھی جاتی ہے“۔] مسلم[
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے سنگترے کی سی ہے جس کی خوشبو بھی اچھی ہے اور ذائقہ و مزہ بھی اچھا ہے، اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اس کھجور کی سی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہے اور مزہ میٹھا ہے۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے خوشبودار پودے کی ہے جس کی بو، مہک تو اچھی ہے مزہ کڑوا ہے۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا ہے اندرائن (حنظل) (ایک کڑوا پھل) کی طرح ہے جس کی بو بھی اچھی نہیں اور مزہ بھی اچھا نہیں“ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، اسے شعبہ نے قتادہ سے بھی روایت کیا ہے: ”حدثنا قتیبۃ، حدثنا ابو عوانۃ، عن قتادۃ، عن انس، عن ابی موسی الاشعری، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:  مثل المؤمن الذی یقرا القرآن کمثل الاترجۃ ریحہا طیب وطعمہا طیب، ومثل المؤمن الذی لا یقرا القرآن کمثل التمرۃ لا ریح لہا وطعمہا حلو، ومثل المنافق الذی یقرا القرآن کمثل الریحانۃ ریحہا طیب وطعمہا مر، ومثل المنافق الذی لا یقرا القرآن کمثل الحنظلۃ ریحہا مر وطعمہا مر ، قال ابو عیسی: ہذا حدیث حسن صحیح، وقد رواہ شعبۃ عن قتادۃ ایضا“۔سنن ترمذی،صحیح البخاری/فضائل القرآن 17 (5020)، و 36 (5059)، والأطعمۃ 30 (5427)، التوحید 57 (7560)، صحیح مسلم/المسافرین (37 (797)، سنن ابی داود/ الادب 19 (4830)، سنن النسائی/الیمان 32 (5041)، سنن ابن ماجہ/المقدمۃ 16 (214) (تحفۃ الشراف: 8981)، مسند احمد (397، 408) (صحیح)۔
 فہم و تدبر اور عمل:
قرآنِ کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھا جائے یا بغیر ترجمہ کے دونوں صورتوں میں بڑا ثواب ہے، اگر کسی شخص کو ترجمہ نہیں آتا یا ترجمہ آتا ہے لیکن وہ معانی پر غور کیے بغیر صرف قرآنِ کریم کی تلاوت کرتا ہے تو یہ بھی بڑا اجر وثواب رکھتا ہے۔ ترجمہ کے ساتھ ہی قرآن کریم کا پڑھنا لازم نہیں ہے۔ قرآنِ مجید عربی میں نازل ہوا ہے اور اس کے ہر لفظ کی تلاوت پر احادیث میں دس نیکیوں کا وعدہ کیا گیا ہے، اگر کوئی شخص قرآنِ کریم کے عربی الفاظ پڑھے بغیر صرف ترجمہ پڑھے یا اس کے معانی میں غور کرے تو اسے بے شک قرآنِ کریم کا مفہوم سمجھنے کا ثواب تو ملے گا، لیکن قرآنِ کریم کی تلاوت پر جو ثواب احادیثِ مبارکہ میں وارد ہے وہ نہیں ملے گا، جب کہ بغیر ترجمہ کے قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والا ہر ہر حرف پر دس نیکیوں کا مستحق بنتا ہے، جیساکہ حدیث عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ میں ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیوں کی فضیلت بتائی گئی ہے، اور اس کی مثال سمجھاتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہالم ایک حرف نہیں ہے، بلکہ الف الگ حرف ہے اور لام الگ حرف ہے اور میم الگ حرف ہے(بیضاوی صفحہ نمبر ۹)، نکتہ اس میں یہ ہے کہ الم حروفِ مقطعات میں سے ہے، اور حروفِ مقطعات کا معنٰی و مفہوم جمہور اہلِ علم کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو یقینی طور پر معلوم نہیں ہے، حدیث شریف میں مثال ہی ان حروف کی دی گئی جن کا معنٰی کسی بھی امتی کو معلوم نہیں ہے، اور ان کے پڑھنے پر ہر حرف پر دس نیکیوں کا وعدہ کیا گیا ہے، تو معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم کی نفسِ تلاوت بھی مقصود ہے، اور اس پر اجر و ثواب مستقل ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ سمجھے بغیر تلاوتِ قرآنِ کریم کو فضیلت میں کم نہ سمجھا جائے، تلاوت مستقل طور پر مطلوب ہے، اور آپ ﷺ کی بعثت کے مقاصد اور معمولات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معمولات میں شامل ہے۔البتہ قرآنِ کریم کی ایک آیت سیکھنے پر حدیثِ مبارکہ میں یہ فضیلت وارد ہوئی ہے کہ ایک آیت کا سیکھنا سو رکعت نفل نماز سے بہتر ہے، لہذا کوئی شخص تلاوت کے ساتھ ساتھ آیات کا معنی و مفہوم سمجھ کر پڑھتاہے تو وہ اس فضیلت کا مستحق بنتا ہے۔
قارئین کرام! امت مسلمہ کی تقریباََ ساڑھے چودہ سو سالہ تاریخ شاہد ہے کہ جب اس نے قرآن کریم کو اپنا ہادی و رہ نما بنایا، اسے سینے سے لگائے رکھا، اس سے روشنی حاصل کرتی رہی، اس کے احکام و فرامین کو اپنی زندگی میں نافذ کیا اور ان پر عمل پیرا رہی اس وقت تک اقوامِ عالم کی امامت و قیادت کی زمام اس کے ہاتھ میں رہی، کامیابی و کامرانی نے اس کے قدم چومے اور اس کی عظمت و رفعت مسلّم رہی،لیکن جب سے اس امت کا اللہ کی کتاب سے رشتہ کمزور ہوا اور اسے پسِ پشت ڈال دیا اور قرآنی تعلیمات کی جگہ نفسانی خواہشات، ذاتی مفادات اور رسم و رواج نے لے لی تو اس کی ہوانکل گئی، اس کا شیرازہ منتشر ہوگیا، ذلّت و نکبت اور پس ماندگی و شکست خوردگی اس کا مقدّر بن گئی،یقیناََ یہ قرآن سے اعراض و گریز کی وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس دنیا ہی میں دے رہا ہے۔راہِ نجات رجوع الی القرآن ہی ہے، اس لیے قرآن کو سمجھ لینا ہی کافی نہیں ہے، اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اور جب تک مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی قرآن کے سانچے میں نہیں ڈھلے گی، ان کے شب و روز کے معمولات قرآنی ہدایات کے تابع نہیں ہوں گے اور مسلمان قرآن کو اپنا رہنمائے زندگی تسلیم نہیں کریں گے، ان کی ذلت و ادبار کا یہ دور ختم نہیں ہو گا، ان کی مشکلات کم نہیں ہوں گی اور ان کی وہ عظمت رفتہ بحال نہیں ہو گی جس کے وہ خواہش مند ہیں، اگر ہم نے یقین و ایمان سے تلاوت قرآن کی اور تعلیمات قرآن پر عمل کیا تو ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ امت مسلمہ کے عروج و زوال کی اس تاریخ پر رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان صادق آتا ہے:اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہٰذا الکِتاب اَقْوَاماً وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ۔”اللہ اس کتاب کی وجہ سے کچھ قوموں کو بلندی عطا کرتا ہے اور کچھ قوموں کو پستی میں دھکیل دیتا ہے“(صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلّمہ، حدیث نمبر:817)
اسی مفہوم کو شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے اس شعر میں ادا کیا ہے ع (وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر، اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر)
محترم قارئین کرام!اگر ہماری زندگی میں قرآن داخل ہوجائے اور اس کے سانچے میں ہم ڈھل جائیں تو کیا دنیا کی کوئی طاقت ہماری چمکتی ہوئی تقدیر کو بدل سکتی ہے؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ قرن اول کی طرح ہمارا رعب ہو اور ہم عزت کی زندگی گزاریں تو اسکے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کہ قرآن کو اپنے سینے سے لگا ئیں اور اسے اپنا دستورِ حیات بنالیں۔اللہ پاک ہم سبھوں کو عمل کی توفیق بخشے۔وآخر الدعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔