جنگِ آزادی میں اردو صحافت کا کلیدی کردار

      طارق مسعود 
    1857 کی جنگِ آزادی میں اردو صحافت نے جس بے باکانہ اور باغیانہ لہجے کے ساتھ ہندوستانیوں کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف آتشِ نفرت بھڑکانے اور صفِ اول میں رہ کر سر فروشانہ کردار ادا کرنے کی جو تاریخ رقم کی ہے اس کی نظیر سے تاریخ کے اوراق تہی دست اور خالی ہیں۔                         
    کارتوسوں کی تقسم کے وقت اپنی غیر محدود آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اردو صحافیوں نے ہندوستانیوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ انگریز کارتوسوں کے ذریعے تمہیں عیسائی بنانا چاہتے ہیں اس لیے کارتوسوں کو ہاتھ بھی لگانا تمہارے لیے حلال نہیں۔ یہ خبر سننا تھا کہ ہر ہندوستانی غلامی کی زنجیریں ٹکڑے ٹکڑے کردینے کو بیتاب ہونے لگا اور انگریزوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردیا۔ اس بغاوت نے انگریزی سامراج میں ایک دہشت اور خوف پھیلا دیا۔   جس کا اندازہ ’’معصوم مرادآبادی کی کتاب: اردو صحافت اور جنگِ آزادی‘‘ میں مذکور ’’تھامپسن لو‘‘ کے  اس بیان سے ہوتا ہے۔
  ’’اب ہندوستان میں رہنا گویا اس آتش فشاں پہاڑ کے دہانے پر کھڑا ہونا ہے جس کے کنارے ٹوٹ پھوٹ کر ہمارے پیروں کے نیچے سے سرک رہے ہوں اور کھولتا ہوا لاوا پھوٹنے اور ہمیں بھسم کردینے والا ہو‘‘ (ص 33)
    اردو اخبار کا اسلوب روزِ اول ہی سے باغیانہ تھا۔ اردو صحافت نے جنگِ آزادی میں جس قدر باغیانہ رول ادا کیا ہے اور ہندوستانیوں کے دلوں میں نفرت کے شعلے بھڑکانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے وہ کبھی بھی تاریخ کے پنوں سے نہیں مٹایا جاسکتا۔
     ہندوستان کے دارلحکومت صرف دہلی سے اردو کے کء اخبارات تحریکِ آزادی میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔ جن میں سے چند نمایاں اخبار  ’’دہلی اردو اخبار، صادق الاخبار‘‘  وغیرہ ہمیشہ باغیانہ مضامین اخبار کی زینت بنا کر بغاوت کی چنگاریوں کو ہوا دیتے رہے۔ جن کا واحد مقصد ہی بس ہندوستانیوں کے سینوں میں انگریزوں کے خلاف جذب? جہاد پیدا کرنا تھا۔
      اردو صحافت کے ابتدائی دور میں فارسی زبان کا چلن زیادہ تھا بایں وجہ اردو خبروں کی اشاعت میں مشکلیں پیش آتی تھیں۔ شروع شروع میں تو انگریزی اخبارات میں چھپی خبریں ہی ترجمہ کرکے اردو اخبارات میں شائع کی جاتی تھیں لیکن دھیرے دھیرے اردو زبان کا حلقہ وسیع ہوتا گیا اور بڑے بڑے ادیبوں اور شعراء کے کلام اخبار کی زینت بننے لگے۔ جن میں مرزا غالب، ابراہیم ذوق، جگر مرادآبادی اور اکبر الہ آبادی وغیرہ کے کلام مستقل شائع ہوتے رہے۔
    اردو صحافت پہلے ہی سے وسائل و ذرائع کے اعتبار سے ماری ہوئی تھی اور انگریزوں کے خلاف بر سرِ پیکار ہونے کی وجہ سے  اپنے ارتقائی دور میں ہی بھاری نقصان کی زد میں بھی آگء۔انگریزوں نے بھانپ لیا تھا کہ اگر اردو صحافت ہمارے خلاف یونہی بغاوت کا زہر فضا میں گھولتی رہی تو ہمارا تسلط ہندوستان پر ناممکن ہو جائے گا۔ جس کے نتیجے میں آزادی کی جنگ چھڑتے ہی جنرل لارڈ کیننگ نے '' Ganging act'' کے تحت ایک قانون نافذ کرکے بیشتر اردو اخبارات پر پابندی عائد کرڈالی۔ جس کے پاداش میں اردو اخبارات کی تعداد 35 سے گھٹ کر محض 12 رہ گء۔
     ہندوستان کا پہلا اردو اخبار کونسا تھا اس میں مختلف آرا ہیں۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کا پہلا اخبار ''فوجی اخبار‘‘ نامی ٹیپو سلطان نے جاری کیا تھا، بعض کی رائے ہے کہ آگرہ سے نکلنے والا ''آگرہ اخبار‘‘ اردو کا پہلا اخبار تھا اور بعض نے اردو کا پہلا اخبار  ''کلکتہ سے شائع ہونے والا ’’مراۃ الاخبار‘‘ کو کہا لیکن اکثر و بیشتر محققین کی رائے یہ ہے کہ شہرِ کلکتہ سے 1822ء کو جاری ہونے والا ''جامِ جہاں نما‘‘ اخبار اردو کا پہلا اخبار تھا۔ 1830 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے فارسی کی جگہ اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کے بعد بس اپنے مفاد کی خاطر ''جام جہاں نما'' اخبار جاری کیا تھا۔(چونکہ اردو زبان فارسی کے مقابلے میں قدرے آسان اور عام فہم زبان تھی اس لیے ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی تجارت میں زیادہ سے زیادہ منافع کے لیے اردو زبان کا سہارا لیا۔)
    1857 کی جنگ آزادی میں جس اخبار نے سب سے زیادہ باغیانہ رول ادا کیا اس کا نام ''دہلی اردو اخبار'' تھا۔ جسے مولانا محمد باقرؒ نے جاری کیا تھا اور مستقل بغاوت سے لبریز مضامین،صداقت پر مبنی خبریں اور ولولہ انگیز تقریریں چھاپ کر لوگوں کے دلوں کو گرماتے رہے اور انگریزوں کے خلاف بر سرِ پیکار ہونے کو اکساتے رہے۔
      ''دہلی اردو اخبار'' 1836ء کو جاری ہوا اور اپنے بے باکانہ اسلوب سے لوگوں کے دلوں میں جذب? جہاد پیدا کرنے کی مستقل کوشش کرتا رہا۔ پھر آگے چل کر مولانا باقر کے حیرت انگیز کارنامے اور ان کے قلم سے نکلنے والی شعلہ فشاں تحریروں سے مانوس ہوکر بہادر شاہ ظفر نے اپنے نام کی جانب ''دہلی اردو اخبار '' کو منسوب کرکے اس کا نام ''اخبار الظفر'' رکھ دیا۔
مولانا باقر بھی بالآخر انگریزوں کے ہاتھ جامِ شہادت نوش فرماگئے۔(یہاں پر یہ وضاحت کسی افادیت سے خالی نہیں ہوگی کہ مولانا محمد باقر کی شہادت کے حوالے سے بعض حضرات کو یہ غلط فہمی ہے کہ انہیں صحافت کی وجہ سے انگریزوں نے موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ لیکن بعض محققین کی رائے سے  یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ان کی شہادت کی اصل وجہ کسی ٹیلر نامی شخص کے قتل کا الزام تھا۔خیر وجہِ شہادت جو بھی رہی ہو اردو صحافیوں کے لیے یہ کسی قابلِ فخر اور سینہ چوڑا کرنے والی بات سے کم نہیں ہے کہ جنگِ آزادی میں اردو کا سب سے پہلا صحافی جامِ شہادت نوش کرگیا۔)
     لگے ہاتھوں اگر تحریکِ آزادی میں جان ڈال دینے والے اخبار ’’پیامِ آزادی‘‘ کا تذکرہ نہ کیا جائے تو یہ یقینا نا انصافی ہوگی۔ ’’پیامِ آزادی‘‘ فروری 1857ء میں بہادر شاہ ظفر کے پوتے مرزا بیدار بخت کے حکم سے جاری ہونے والا اخبار تھا جس نے ہندو مسلم کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کرنے کے لیے انتھک کوششیں کی اور ان کے دلوں میں انگریزوں کے لیے نفرت کا بیج بونے میں کافی حد تک کامیاب رہا۔ اس اخبار کا باغیانہ لہجہ دکھانے کے لیے ''معصوم مرادآبادی کی کتاب ''اردو صحافت اور 1857 کی جنگِ آزادی‘‘ سے بس ایک اقتباس نقل کیا جاتا ہے۔ جسے  لندن سے مطبوعہ کتاب’’The Nrrative of the Indian Revolt '' کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے۔
  ''بھائیو! دلی میں فرنگیوں کے ساتھ آزادی کی جنگ ہورہی ہے۔اللہ کی مہربانی سے ہم انہیں جو پہلی شکست دی ہے اس سے وہ اتنا گھبرا گئے ہیں کہ جتنا کسی دوسرے وقت وہ دس شکستوں سے نہیں گھبرائے۔بے شمار ہندوستانی بہادر دلی میں آکر جمع ہورہے ہیں ایسے موقعے پر اگر آپ وہاں کھانا کھا رہے ہیں تو ہاتھ یہاں آ کر دھوئیے۔ہمارے کان اسی طرح آپ کی طرف لگے ہوئے ہیں جس طرح روزے داروں کے کان مؤذن کی اذان کی طرف لگے رہتے ہیں۔ہم آپ کی توپوں کی آواز سننے کو بیچین ہیں۔ہماری آنکھیں آپ کے دیدار کی پیاسی سڑک پر لگی ہوئی ہیں آپ کا فرض ہے کہ فورا آیے۔‘‘  
   بے باکانہ جذبات سے سرشار اس اقتباس سے بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ''پیامِ آزادی‘‘ کس قدر انگریزی سامراج کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے میں پیش پیش رہا اسی باعث انگریزوں نے اس اخبار پر زبردست پابندی عائد کردی۔ اس کے بانی کو موت کی سزا سنادی گئی۔ حتی کہ اس کے قارئین تک کو روح فرسا سزا دی گء۔ جس کسی کے پاس سے بھی ’’پیامِ آزادی‘‘ کا ایک صفحہ بھی برآمد ہوتا انگریز اسے موت کے گھاٹ اتار دیتے یا سخت سے سخت سزا دیتے۔اس کے علاوہ دیگر اردو اخبارات مثلا  لاہور سے شائع ہونے والا  ''کوہِ نور‘‘(اگرچہ اس اخبار نے کچھ منافقانہ کردار بھی ادا کیا  لیکن دوسری طرف یہ تمام اخبارات کو ایک نہج پر کام کرنے اور انگریزوں کے خلاف ایک ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی بھی تلقین کرتا رہا۔) دہلی سے شائع ہونے والا ’’صادق الاخبار‘‘، ’’طلسمِ لکھنؤ‘‘، ’’مدینہ اخبار‘‘  وغیرہ  نے بھی تحریکِ آزادی میں ہندوستانیوں کے جزبوں کو ابھارنے کی بھرپور  کوششیں کیں۔
     آیئے!  مذکورہ اخبارات میں سے ہم کچھ کا اجمالاً تعارف پیش کیے دیتے ہیں:
    ’’طلسمِ لکھنؤ‘‘ 
     25 جولائی 1856 ء کو لکھنؤ سے جاری ہونے والا یہ اخبار ’’انگریز حکومت پر نکتہ چینی کرنے اور اپنی مقفع عبارات آرائی‘‘ کی وجہ سے مشہور تھا۔ اس اخبار میں ’’قلع? معلی‘‘ کی خبریں بھی شائع ہوتی تھیں نیز اس اخبار کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ بہادر شاہ ظفرؒ پر انگریزوں نے جب مقدمہ چلایا تو اس اخبار کا ایک شمارہ 1857 کے معاملے میں بطورِ ثبوت پیش کیا گیا تھا۔ 
جنوری 1857 کے پہلے شمارے میں شائع شدہ اس کی ایک خبر ملاحظہ فرمائیں!
     ’’لکھنؤ میں سنیچر آیاہے۔ چوروں نے ہنگامہ مچایا ہے۔ جو سانحہ ہے عجائب ہے، آنکھ جھپکی پگڑی غائب ہے۔?
       میر صاحب زمانہ نازک ہے
       دونوں ہاتھ سے تھام لو دستار
 جس دن واجد علی شاہ کی حکومت نہ رہی شہر بگڑا، چوروں کی بن آئی۔بیچارے سید خلیل احمد نام تھا، جن دنوں دورِ سلطنت تھا ان کا اعزاز و اکرام تھا، ملازم بادشاہ تھے، ترقی خواہ تھے۔ جس دن سے سلطنت نہ رہی شہر بگڑا۔ چوروں کی بن آئی۔ دارا نام کوئی نوکر قدیم تھا سب کاموں پر اس کا دار و مدار تھا۔ مدت کا نمک خوار تھا۔باوجودیکہ دروازے پر تھانہ تھا لیکن قسمت کی گردش سے اس کا مال چوری جانا تھا۔ایک دن وہ کء چور حرام خور اپنے ساتھ لایا۔جو کچھ بکنے سے باقی تھا وہ سب اٹھایا۔کچھ پشمینہ  کپڑے،  سب کتابیں ایک گھڑی بہت خوب تھی،ہر ساعت دل بہلتا تھا، مرغوب تھی۔بہ قول مشہور نوکر قدیم تھا، گھر میں جھاڑو دے گیا۔تنکا نہ چھوڑا۔ چن کر سب لے گیا۔دریں ولا یہ رسم ہے کہ چور مال چرا کر کہتا ہے کہ یہ مشقت شب کامزد ہے اور جس کا مال گیا وہ الٹا سیدھا بہر کیف دزد ہے۔آبرو کے خوف سے دم نہ مارا اف نہ کیا۔ اسی اندھیر پر ایک مثل یاد آئی کہ اندھے کی جورو کا خدا رکھوالا
ہے۔اس نا بینائی پر یہ حکومت اندھیر ہے۔ صاف اندھے کے ہاتھ میں بٹیر ہے۔روز باتیں عجائب ہوتی ہیں۔ سوجھتا تو کچھ نہیں ٹٹول ٹٹول کر چھٹیاں غائب ہوجاتی ہیں۔ 
  (قومی محاذ آزادی اور یوپی کے مسلمان صحافی۔ ص: 62,63)
    ’’مدینہ اخبار بجنور‘‘ 
      مدینہ اخبار 1912ء میں بجنور سے ہفتہ وار کی شکل میں جاری ہوا۔ تاہم کچھ ہی مہینوں میں سہ روزہ نکلنے لگا۔اس کے بانی مولانا مجید حسن تھے۔ اس اخبار میں روزِ اول سے ہی بہترین نثر نگاروں، مایہ ناز ادیبوں اور کہنہ مشق شعراء کی تحریریں شائع ہوتی رہیں۔اس اخبار نے ہندوستانیوں کو حریت کا خوبصورت خواب دکھایا اور مستقل سچائی اور ایمانداری کے ساتھ خبریں چھاپتا رہا۔ آگے چل کر پابندی عائد ہوجانے کے سبب یہ اخبار 25 مء/ 1919 ء سے ''یثرب  ''کے  نام سے بھی شائع ہوتا رہا لیکن سچائی اور ایمانداری کا یہ قافلہ نہ رکنے پایا اور پھر ’’یثرب‘‘  پہ بھی انگریزوں نے قدغن? ڈال دی۔ لیکن پھر بھی اس اخبار نے دم نہیں توڑا اور 25 اگست/ 1919ء سے دوبارہ ’’مدینہ‘‘ کے نام سے شائع ہوکر انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں کے دلوں میں جذب? جہاد پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہوگیا۔
        بہر کیف! اردو صحافت نے 1857 کی جنگِ آزادی میں وہ کلیدی کردار ادا کیا ہے جسے تاریخ کبھی نظر انداز نہیں کرسکتی۔