جہیز کی وجہ سے نکاح مشکل زنا آسان

امام علی مقصود فلاحی۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
انسانی معاشرہ دو صنفوں یعنی مرد اور عورت سے مل کر وجود میں آیا ہے، مرد کے ساتھ ہی عورت کی بھی تخلیق کی گئی ہے، جسکا مقصد مرد اور عورت کے باہمی تعلقات کے ذریعے نسل انسانی کو فروغ دینا ہے، مرد اور عورت کے درمیان یہ ایک ایسا تعلق ہے اور ایک ایسی کشش ہے جو جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہوتا کہ پھر انسانوں اور جانوروں میں فرق کیا رہ جاتا ہے، وہ کونسی چیز ہے جو دیگر مخلوقات کو انسانوں سے الگ کرتی ہے؟
تو اسکا جواب یہ ہے کہ انسانوں کے اندر مرد اور عورت کے مابین جو کشش اور جو شہوانی خواہش رکھی گئی ہے اسکی دو قسمیں ہیں۔
ایک یہ وہ جس طرح چاہیں آزادانہ طور اپنی خواہشات کو پوری کریں اور اپنی شہوت کی پیاس بجھائیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ان کو ایک شریفانہ مضبوط اور مستحکم نظام کے ساتھ جوڑ دیا جائے جسکے ذریعے وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کریں۔
اب ہر عقل رکھنے والا شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ پہلی صورت دیگر حیوانوں اور جانوروں کے لائق تو ہو سکتی ہے لیکن انسانوں کے لئے بالکل نامناسب ہے۔
کیونکہ انسان صرف ایک حیوانی وجود ہی کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ایک سماجی  مخلوق کی حیثیت سے آیا ہے، اور اس حیثیت سے اسکے اوپر ڈھیر ساری ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں، اور ان ہی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے وہ ایک خاص قسم کے ماحول اور ایک مستحکم نظام کا محتاج ہوتا ہے، جسکی ایک متعین حد ہوتی ہے، اور اسکی یہ محتاجگی چند مہینوں اور ہفتوں کے لئے نہیں ہوتی ہے بلکہ تا حیات وہ ایک مستحکم نظام کا پابند ہوتا ہے اور جب بھی وہ اس نظام سے ہٹتا ہے اور اپنی حد کو پار کر جاتا ہے تو اسکا شمار جانوروں میں کر دیا جاتا ہے، اور اسے جانوروں سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے۔
پہلی صورت میں جو نقشہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ مرد چند گھڑیوں کے لئے عورت سے مل کر لطف اندوز ہوتا ہے، جسکے نتیجے میں اس عورت کو حمل ٹھہرتا ہے، اسکے بعد وہ آدمی خود کو اس سے الگ کرکے اس بچے کی ساری ذمہ داری اس عورت پر چھوڑ دیتا ہے، جیسے رضاعت کی ذمہ داری، پرورش اور نگہداشت کی ذمہ داری، پڑھانے لھکانے کی ذمہ داری وغیرہ، اب ذرا غور کریں کہ ایک تنہاء عورت اس ذمہ داری کو کیسے پورا کر سکتی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ وہ بچہ لاوارث ثابت ہوگا، اسکی پرورش بھی کما حقہ نھیں ہوگی، اسکی توانائی بھی جدا ہوگی، اسکی تعلیم و تربیت بھی بیکار ہوگی، جسکا نتیجہ یہ نکلے گا وہ بچہ لاوارث بنے گا، جب اسے کھانے کو کچھ نہ ملے گا تو وہ چوری ڈکیتی کرے گا، جگہ بجگہ فساد برپا کرے گا، نہ وہ بڑوں کی عزت کرے گا نہ ہی چھوٹوں پر شفقت کرے گا۔ 
معلوم ہوا کہ زنا کے ذریعے پیدا ہونے والا بچہ فساد اور کرپشن کا سبب بنے گا۔
لیکن تکمیل خواہشات نفس کی جو دوسری صورت  (نکاح) ہے، اگر اسکو اختیار کیا جائے اور اس بچہ کی پرورش میں مرد اور عورت دونوں کی محنت ہو جائے، تو اسکے ذریعے نسل انسانی کا تحفظ ہوسکتا ہے، اسکی اچھی پرورش ہو سکتی ہے، اسکو اچھا ماحول مل سکتا ہے، اسے اچھی تعلیم حاصل ہو سکتی ہے جس کے ذریعے وہ بچہ فساد کی جڑوں کو اکھاڑ پھینک سکتا ہے، فسادیوں سے زمین کو پاک صاف کر سکتا ہے۔
قارئین! نکاح انسان کی ذاتی اور فطری ضرورت بھی ہے، اور یاد رکھیں کہ مذہب اسلام نے نکاح کو غیر معمولی اہمیت بھی دی ہے، اس اہمت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ اسلام نے نہ صرف نکاح کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ اسے آسان سے آسان بنانے کا بھی حکم دیا ہے اور ان تمام باتوں سے رکنے کا بھی حکم دیا ہے جس سے نکاح میں رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں۔
لیکن آج کل شادی کے موقع پر ایسے ایسے رسم و رواج کو اختیار کیا جارہا ہے جس سے نکاح کرنے میں بیحد دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، وہ اس طرح کہ شادی کے موقعہ پر لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے والوں کو یا اسکے گھر والوں کو کچھ نقد اور سامان دیا جاتا ہے جسے ہم اور آپ جہیز کہتے ہیں۔
قارئین! یہی وہ جہیز ہے کہ جب بیٹی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو اسی وقت سے اسکے ماں باپ کا چین و سکون چھن جاتا ہے، ہر وقت اور ہر لمحہ انہیں اپنی بیٹی کی شادی کرانے کی فکر رہتی ہے، اور وہ یہی سوچتے رہتے ہیں کہ پتہ نہیں میری بیٹی کا رشتہ ملے گا بھی یا نہیں اور اگر ملے گا تو کتنا جہیز دینا پڑےگا، کہیں ایسا تو نہیں کہ مجھے گھر بار بیچنا پڑے، یا کہیں ایسا تو نہیں کہ پورا جہیز نہ ملنے پر میری بیٹی کو اسکے گھر پر ستایا اور مارا جائے گا؟ اور اسے بات بات پر طعنہ دیا جائے گا؟
 یہی وجہ ہوتی ہے کہ ماں باپ جہیز ہی کا پیسہ جمع کرتے کرتے بیٹی کی نکاح میں کافی وقت لگا دیتے ہیں، بیٹی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہوتی ہے پھر بھی اسے گھر میں بٹھائے رہتے ہیں تاکہ اسکے جہیز کا سارا انتظام ہو جائے، جسکے نتیجے میں نہ جانے کئی خرافات کا دروازہ کھل جاتا ہے۔
قارئین! موجودہ دور میں ہم جس دہانے پر کھڑے ہیں وہ بد سے بدترین ہو چکا ہے، اور اسکی سب اہم وجہ نکاح کو مشکل بنانا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج قوم کی بیٹیاں اپنے ماں باپ کو رسوائی کا آئینہ دکھا رہی ہیں، بدکاری، بد اخلاقی اور بے حیائ کا راستہ ہموار کرتی نظر آرہی ہیں، جسکی وجہ سے دوسری معصوم بچیوں کے ساتھ بھی بدفعلی کا عمل ظاہر ہوتا نظر آرہا ہے، دوسری معصوم بچیوں کے ساتھ بھی جبرا بدفعلی ہو رہی ہے، اور یہی وجہ کہ آج پورے ملک میں کیا بلکہ پوری دنیا میں زناکاری عام ہوچکی ہے۔
 آج ملک ہندوستان بھی اسمیں پیش پیش نظر آرہا ہے، کبھی نربھیا کا مسئلہ پیش آرہا ہے، تو کبھی آصفہ کا معاملہ، کبھی رابعہ کا معاملہ پیش آرہا ہے تو کبھی کسی اور کا معاملہ پیش آرہا ہے۔
اسی لئے اس قوم کو چاہیے کہ وہ اس ملک سے جہیز جیسی گھناؤنی حرکت کو ختم کرکے ملک کی بیٹیوں کی حفاظت کا ذمہ لے۔