موجودہ حالات اور تنقید

 
 
 
 
عُبید اَحمد آخون
(  ساکنہ پاندریٹھن سرینگر حال اومپورہ ہاؤسنگ کالونی  )
رابطہ:9205000010
پہلے ہر شخص گریبان میں اپنے جھانکے.                      
پھر بصد شوق کسی اور پہ تنقید کرے  (مرتضیٰ برلاس)
جب ہم لفظ تنقید سُنتے ہے تو ہمارے زہن میں بہت سارے خیالات گردش کرتے رہتے ہے اور زیادہ تر ہماری  خیالات اتنے محدود ہو کر رہ جاتے ہے کہ ہم اس بظاہر دکھنے والے چھوٹے لفظ کو خود پر یا کسی کے اور پر کی جانی والی مخالفت تک  کے ہی دائرہ میں لیتے ہے پر اگر ہم دوسرے پہلوں کو بھی مدِ نظر رکھے اور مثبت نتائج تنقید میں اخز کرنے کی سعی کرے تو یہ تنقید براے تعمیر کہلاے گا اور یہ تنقید ہی ہے جو ادیب کو یا ایک فرد کو یا ایک حکومت کو جواب دہ بنانے  پر ہر ایک قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہوے باور کراتا ہے کہ آپ پر نظر ہے نظر انداز نہ کرے. 
اردو ادب میں لفظ تنقید دراصل انگریزی لفظ Criticism کا ترجمہ ہے جس کے معنی Appreciation, Estimate, Assessment, Judgement, Evaluation  وغیرہ غرض ہر مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے اسی طرح اردو ادب میں لفظ تنقید کے لغوی معنی ہیں کسی ادب پارے کی  ہر ایک زاویہ سے جانچ؛ پرکھ یا تفتیش کے بعد کوئی نتیجہ بنا کسی تعصب کے قاری کے سامنے پہنچانا تاکہ اُس میں نکھار پیدا ہوجائے اور قاری صحیح اور غلط میں تفرق کرسکے
بچپن سے ہم دیکھتے آے ہے کہ ہمارے والدین جب ہمیں  کسی بھی کوتاہی کا مرتکب پاتے ہے تو ہمیں کسی دوسرے دوست، احباب ، یا جان پہچان والے شخص کی مثال دے کر ہمیں اُس شخص کی خوبیوں سے سبق حاصل کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہے یہ تنقید بھی براے تعمیر کہلاے گا پر اگر والدین کا یہ عمل روز کا معمول بن جاے تو یہ منفی تنقید کی راہ کو ہموار کرتا ہے کیونکہ ہر شخص کی صلاحیت جداگانہ ہوتی ہے موازنہ تب تک ٹھیک ہے جب تک حدود کا خیال رکھا جائے اگر نہ رکھا جائے تو بچے احساسِ کمتری کا شکار ہوکر زہنی امراض میں بھی مبتلا ہوسکتے ہے اور والدین اور بچوں میں ایک ایسی خُلا بھی پیدا ہوجاتی ہے جو پُر کرنے میں کبھی کبھی صدیاں بھی لگ جاتی ہے.
اسی طرح ادیب بھی جب قلم اُٹھاتا ہے تو اُسے بھی بہت سارے پہلوں کو زہن میں رکھنا پڈھتا ہے ادب کا اثر سماج پر گہرا پڈھتا ہے ادیب سماج کا ترجمان ہوتا ہے وہ جو کچھ بھی سماج میں  دیکھتا ہے اسے قلمبند کرتا ہے اگر ادیب خامیوں کو نظر انداز کر کے صرف خوببوں کو اُجاگر کرے تو یہ ادب کی موت ہے اور اسی طرح اگر صرف خامیوں کو اُجاگر کرے تو وہ بھی ایک ادیب کو زیب نہیں دیتا اور اُسے ادیب کی نا اہلی ہی تصور کیا جائے گا گویا ادیب کا ترازو میزان کے اصولوں کا پابند ہے الطاف حُسین حالی نے جب اپنے دور میں اردو ادب کی ہر دل عزیز اصناف غزل  میں کوتاہی دیکھی یہاں تک کہ بہت سارے ادیبوں نے اسے نیم وحشی صنف بھی مان لیا تھا اور اسے ادب سے خارج کرنے کی آواز بھی زور پکڈھ رہی تھی تب حالی نے 'مقدمہ شعرو شاعری لکھ کر غزل کے اوزان مقرر کئے اور بہت ساری تبدیلیاں اس میں لانے کی ادیبوں سے درخواست کی اور آج غزل کو اردو ادب کی آبروں کہاں جاتا ہے یہ الطاف حسین حالی کی ادب پر مرہونِ منت ہے ورنہ اگر وہ بھی منفی تنقید کی پزیرائی کرتے اور مثبت پہلوں کو نظرانداز کرتے تو آج وہ زندہ جاوید نہ ہوتے  اگر ادیب کا زہن عداوت، نفرت، رنجش سے لبریز ہو تو وہ تنقید  نگاری سے وفا نہیں کرسکتا یاد رہے شخصی تنقید  ادب کی موت ہے.
کروں جو تنقید ظلمتوں پر                             
تو آئے گا حرف حکمتوں پر.      (نیر رانی شفق)
دنیاں کی طرح آج ہندوستان میں بھی Covid-19 کا اثر روز بہ روز بڈھتا جا رہا ہے حکومتِ وقت کوشش کر رہی ہے کہ وباہ پر قابو پالے  اور اپوزیشن پارٹی حکومت پر شعبہ صحت کی ناکامیابیوں پر تنقید کر رہی ہے اگر اس پر ہم بھی تنقید کرے تو اس میں بھی ہمیں خوبیاں اور خامیاں دونوں ملے گی مثلاً اپوزیشن کی تنقید کی وجہ سے ابھی حکومتِ وقت کی پوری توجہ شعبہ صحت پر مرکوز ہے اور آنے والے وقت میں شعبہ صحت حکومتوں کی ترجیحاتوں میں شامل ہوجائے گی منفی تنقید اگر اس میں ہم نکالنے کی کوشش کرے تو آنے والی حکومتوں کے لئے یہ ووٹ حاصل کرنے کا ایک نیا manefesto بن جاے گا جس کا غلط استعمال ہونے کا اندیشہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے.
اردو ادب میں تنقید کو باقاعدہ صنف ادب کی حیثیت کے فن سے آشنائی کرانے میں پروفیسر آلِ احمد سرور ایک معتبر حیثیت رکھتے ہے اُن کا جو بھی ادبی و تنقیدی سرمایہ ہے وہ اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے، تنقید کے مطالبات اور اس  کی تعریف و توضیح کے ضمن میں نہایت ہی بلیغ اشارے کئے ہیں اپنے مجموعہ مضامین  ' تنقید کیا ہے؟   کے دبیاچے میں وہ یوں رقم طراز ہیں
 میں تنقید کو ایک سنجیدہ؛ اہم اور مشکل کام سمجھتا ہوں اور اس کا لطفِ سخن نہیں بلکہ قدروں کی اشاعت جانتا ہوں - اس لئے پڈھنے والوں سے بھی سنجیدگی اور متانت اور غور و فکر کا مطالبہ کرتا ہوں
کر کے تنقید میرے لہجے پہ.                      
کم سخن مرتبہ بڑھا رہے تھے 
(صفیہ چودھری )