’’نقطہ سے دائرہ تک‘‘ کا ایک سرسری جائزہ

طبیب احسن تا بشؔ ، رانچی 
رابطہ :9534340212
اردو ادب میں بہت سارے اصناف ہیں۔ جن کے ذریعہ فن کار اپنے احساسات و تجربات کو پیش کرتا ہے۔ ان احساسات و تجربات کو پیش کرنے کے لیے دو طریقے ہیں ۔ ایک نظم کی صورت میں دوسرا نثر کی صورت ہیں۔ نظم میں بھی بہت سارے اصناف ہیں اور نثر میں بھی۔ میں یہا ں نثری صنف افسانے کے تعلق سے بات کروں گا۔ 
ہمارے سامنے جو افسانوی مجموعہ حاضر ہے۔ وہ محتر م ڈاکٹر محمد محفوظ عالم صاحب کا ہے۔ جو 152صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں 25افسانے موجود ہیں۔ یہ افسانے مختلف موضوعات پر تحریر کیے گئے ہیں۔ کئی افسانے کو رونا مہاماری کے تناظر میں لکھے گئے ہیں تو کوئی ماب لنچنگ کو پلاٹ بنایاگیا ہے اور کچھ N.R.Cکے پس منظر میں افسانے لکھے گئے ہیں۔ تمام افسانے صاف ستھرے انداز میں لکھے گئے ہیں۔ جسے ہر پڑھنے والاپڑھ کر اپنے سماج کے حالات سے واقف ہوسکتا ہے۔ اس مجموعے میں افسانہ نگار نے اپنے متعلق کوئی عندیہ نہیں دیا ہے کہ ان کا پہلا افسانہ کب اور کہاں شائع ہوا ۔ ایسے میں کسی بھی فن کو سمجھنا ذرا مشکل امر ہے۔ بہر حال سرسری طور پر کچھ افسانوں پر نظر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
کتاب میں شامل پہلا افسانہ ’’پرارتھنا ‘‘ ہے ۔ اس افسانہ میں ڈٹینشن سنٹر کے کرب کو نیلم کے ذریعہ بیان کیاگیا ہے۔ وہاں کی زندگی سے بہتر ہے کہ انسان کی موت ہوجائے نیلم نیرج سے کہتی ہے۔ کہ ’’تم میری موت کے لیے پرارتھنا کرنا ‘‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈٹینشن سنٹر دکھوں غموں اور سسکیوں کی آماجگاہ ہے۔ 
افسانہ ’’ڈٹینشن سنٹر ‘‘ کا پلاٹ بھی N.R.Cکے تناظر میں ہے، جو پرارتھنا میں ہے۔ افسانہ ’’ڈٹینشن ‘‘ میں ایک ضعیفہ کے دو بیٹے پردیس میں رہتے ہیں۔ اچانک بیٹے کا فون آتا ہے ، ماں فون اٹھاتی ہے ۔ بیٹا بولتا ہے ۔ ماں! میں جمرو بول رہا ہوں ماں بولتی ہے۔ ہاں! بول بیٹا! جمرو بس اتنا ہی بو ل پاتا ہے کہ امیرو کل رات ڈی۔۔۔۔۔ٹینشن سنٹر چلاگیا ہے ۔ ماں اس لفظ کو سمجھ نہیں پائی۔ وہ سمجھتی ہے کہ امیرو کی نوکری لگ گئی ہے اور وہ بہت خوش ہوجاتی ہے۔ تب تک فون کٹ جاتا ہے ۔ گائوں کی ضعیفہ انگریزی زبان سے ناواقف تھی۔ ماں نے منت مانی تھی وہ صبح اٹھی اور کچھ شیرینی لی اور شہر کے مزارشریف جانے لگی۔ راستے میں کچھ جوان چاچی سے از راہ مذاق پوچھتے ہیں۔ کہاں جارہی ہو چاچی۔ چاچی جواب دیتی ہے ۔ مزار شریف پر فاتحہ دلوانے جارہی ہوں، ایک لڑکا کہتا ہے چاچی بریانی بھی چلے گی کیا؟ چاچی بولتی ہے۔ ہاںبیٹا۔ امیرو کی نوکری لگ گئی ہے۔ جمعہ کو میلاد اور فاتحہ بھی کرائیںگے اور بریانی بھی چلے گی۔ تم لوگ آنا۔ 
اس افسانے میں اعتماد اور اعتقاد اور کئے ہوئے منت کی ادائیگی کا جو منظر ہے وہ یقین محکم کا منظر پیش کرتا ہے، افسانہ نگار کا مشاہد ہ سماج میں ہونے والے عمل پر بہت گہرا ہے۔ یہیں پر جب ہم ’’افسانہ ‘‘ سوال کرنا منع ہے ۔ کا جائزہ لیتے ہیںتو آج معاشرہ ہماری آنکھوں کے سامنے رقص کرجاتا ہے۔ لوگوں کی فطرت میں کتنی چالاکی اور عیاری داخل ہو گئی ہے ۔ یہ دونوں افسانے دو تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں۔ اول الذکر میں ضعیفہ کے دل کی معصومیت اور آخر الذکر میں باد وبھائی کے دل میں چھل صاف محسوس کیاجاسکتا ہے۔ 
افسانہ ’’بے وقوف‘‘ میں رشوت خوری کی برے نتائج کو پیش کیاگیا ہے۔ حرام کی کمائی پانی کی طرح بہہ جاتی ہے اور حلال کی کمائی میں برکت و استقامت ہے۔ جیسا کہ اس افسانے میں نظر آتا ہے۔ 
افسانہ ’’ نمبر سات ‘‘ یہ افسانہ رومان سے بھر پورہے۔ دانش اور صبوحی کی محبت آخری وقت میں رنگ لاتی ہے۔جب زندگی کا بیشتر حصہ گذرجاتا ہے۔’’معصوم دعائیں‘‘ پڑھنے کے بعد ڈاکٹر محمدمحسن کا افسانہ ’’انوکھی مسکراہٹ ‘‘ یاد آجاتا ہے۔ پتہ نہیں کیوں ؟ قبرستان کا منظر۔ قبرستان میں کوئی جنازہ نہیں آتے تو بچے مایوس نظر آتے ہیں۔ اور مردے آنے پر خوشی کااظہار کرتے ہیں ۔ کورونا دور کا ایک اچھا افسانہ ہے۔ جو بچے کی نفسیات کو ظاہرکرتا ہے۔ 
افسانہ ’’ماچس ‘‘ موجودہ سماج میں حاجیو پر گہرا طنز ہے۔ کاش ایسے لوگ حج کرنے کے بعد رول موڈل بن جاتے تو معاشرہ میں اصلاح کا پہلو نکلتا۔ مگر ہوتا اس کے برعکس ہے۔ باپ کی وراثت کو بیٹا سنبھالنے لگتا ہے۔جس سے پورا سماج عاجزو پریشان رہتا ہے۔ ایک کہاوت بھی ہے ۔
آپت پوت پراپت گھوڑا 
کچھ نہیں تو تھوڑا تھوڑا
’’دو گز زمیں‘‘ کو رونا بیماری سے متاثر ہوکر لکھا گیا افسانہ ہے۔ لوگ اس مرض سے اتنے خوف زدہ تھے کہ لاش کو بھی قبر ستان میں دفنانے دینا نہیں چاہتے ۔ زندہ انسان تو پریشان تھا ہی مردے بھی اس قبرستان سے اُس قبرستان جارہے تھے کہ کہیں بھی دو گز زمیں مل جائے۔ اسی کرب کو بیان کیاگیا ہے۔ 
کورونا نے بھلے انسان کو بھی برائیوں کے دلدل میں پھنسا دیا۔ مدھو اس کی اچھی مثال ہے۔ مدھو کے گھر میں دو وقت کی روٹی نہیں۔ وہ اپنی بچیوں کی پرورش کی خاطر جسم فروشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ مگر وقت حالات نے اسے بھی میڈیکل آئسولیشن وارڈ میں داخل کرادیا۔ 
’’مرزا غالب ‘‘ افسانہ کم طنز و مزاح زیادہ ہے۔ اسے پڑھتے جایئے اور محظوظ ہوتے جایئے۔ 
منجملہ محترم ڈاکٹر محفوظ عالم صاحب کے افسانے موجودہ سماج کا بھر پور عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں جہاں دردو کرب، حزن و ملال، اشک اور حرماں نصیبی ہے۔ وہیں کوئی افسانہ رومان سے بھر پور ہے۔ ان کے افسانوں میں منظر نگاری کردار نگاری مکالمے اور خوبصورت پلاٹ پر توجہ دی گئی ہے ۔ ہاں ! یہ اور بات ہے کہ انگریزی لفظوں کا استعمال بھی کہیں کہیں ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کردار تعلیم یافتہ ہیں یاپھر افسانہ نگار نے ’’میں‘‘ کے ذریعہ واقعات کو بیان کیا ہے۔ 
تمام افسانوں کا پلاٹ قریب قریب شہر سے لیاگیا ہے۔ افسانہ نگار خود بھی بڑے شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے۔ فن کار اپنے ارد گرد سے بھی متاثر ہوتا ہے اور اسے کہانیوںکا روپ دیتا ہے۔ اس میں کوئی تصنع نہیں۔ بلکہ حقیقت پرمبنی ہے۔ ڈاکٹر محفوظ عالم صاحب علم نفسیات کے ماہر ہیں۔ کوئی بھی انسان فنکار اسی وقت بنتا ہے جب اس کی حس بیدار رہتی ہے۔موصوف کی حس بھی بیدارہے اور وہ علم نفسیات کے ڈاکٹر بھی ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں سونے پہ سہاگہ۔ 
عالیہ خاں صاحبہ نے ٹھیک ہی لکھا ہے ۔’’ڈاکٹر محفوظ عالم نئے افسانہ نگاروں میںاپنی زود حسی اور موضوعات پر گرفت اور طاقت ور بیانیہ کے حوالے سے اعتبار کی جگہ بنارہے ہیں۔ ان کے یہاں بالکل تازہ موضوعات پر بہت ہوشیاری سے افسانہ گڑھنے کا ہنر بہت نمایاں ہے۔ ‘‘ 
مجھے امید ہے کہ ان کا یہ افسانوی مجموعہ ’’نقطہ سے دائرہ تک ‘‘ کو لوگ بہت اشتیاق سے پڑھیںگے ۔ کتاب کی طباعت اور کاغذ بہت عمد ہ ہے۔ یقینا مجموعہ ہاتھوں ہاتھ لیاجائے گا۔