اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے!!

- محفوظ عالم 
رانچی،جھارکھنڈ
 جب اپنے اردگرد نظر ڈالتا ہوں تو بڑی اذیت ہوتی ہے، صدمہ ہوتا ہے، اردو زبان کی بدحالی، پامالی پر دل خون کے آنسوروتا ہے۔ پہلے اردو دکانوں، بازاروں اور کاروبار سے رخصت ہوئ۔ اب مساجد،  مزارات اور قبرستانوں میں بھی دفن ہوتی جارہی ہے۔ زیادہ تر مساجد ، مزارات، قبرستانوں کے نوٹس بورڈ، پمفلٹ، رسیدیں ہندی یا رومن رسم الخط میں نظر آتے ہیں ۔ دور دور تک اردو نظر آتی نہیں ۔  جب ہم اپنے اداروں میں اردو کا استعمال نہیں کرتے ہیں یا نہیں کررہے ہیں تو پھر ہم کس منھ سے سرکار سے اردو کی ترقی و ترویج کا مطالبہ کریں گے۔ جب آپ دفاتر میں اردو میں خط وکتابت نہیں کریں گے تو پھر سرکار کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ دفاتر میں اردو عملہ کی تقرری کرے اور انہیں موٹی موٹی تنخواہیں دے۔ ہم ہندی اور انگریزی کے دشمن نہیں ہیں مگر اردو زبان کو اپنے اداروں سے رخصت کرنا ، کہاں کی دانشمندی ہے اور پھر یہ توقع رکھنا کہ سرکار اردو اکیڈمی قائم نہیں کررہی ہے، اردو بھون نہیں بنا رہی ہے، اردو کے ادباء و شعراء کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ یہ تو سراسر منافقت ہے۔
  اردو پہلے تجارت و بازار سے غائب کی گئی، پھر اسکولوں سے ، گھروں سے اور اب دینی اداروں میں بھی نظرانداز کی جارہی ہے۔ ایسا نہ ہو کل دینی مدارس کے نصاب بھی ہندی یا رومن میں آنے لگیں۔ 
  خود اردو کو نظر انداز کرنا اور پھر مردم شماری کے وقت یہ وکالت کرنا کہ مادری زبان کے کالم میں اردو لکھائیں،  یہ بات ہضم نہیں ہوتی ۔ کوئ بھی زبان اس وقت  تک زندہ رہتی ہے جب عوام عملی طور پر استعمال کرتے ہیں۔ پہلے انتخاب کے دوران اردو زبان میں پوسٹر، پمفلٹ نظر آتے تھے، آج نظر نہیں آتے ہیں ۔ یہاں تک کے میونسپل کے الیکشن میں مسلم امیدواروں کے ذریعہ بھی اردو کو ترجیح نہیں دی جاتی ہے۔ 
 اگر آپ اردو کے ساتھ یہ رویہ اپنائیں گے تو اردو کا مستقبل جو ہوگا وہ تو ہوگا ہی، بلکہ یہ خود کا خسارہ ہوگا۔ اردو صرف ایک زبان نہیں ایک تہذیب ہے۔ اردو کو چھوڑنے کے معنی اپنی تہذیب کو بھی ہم زک پہنچا رہے ہیں ۔ 
 اب بھی ہم ہوش کے ناخن لیں اور اپنی زبان و شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے گھر سے  تحریک شروع کریں  ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر ہم اردو کو اپنی نظروں سے گرا دیں گے، گھروں اور اداروں سے نکال دیں گے تو دوسرے لوگ اسے اپنا کر سرخرو ہوسکتے ہیں اور پھر اس زبان کو اپنے رنگ میں ڈھال دیں  اور ہم صرف منھ تکتے رہ جائیں  ۔
 وقت ہے ہم اب بھی خواب خرگوش سے بیدار ہوں  اور اپنے اداروں میں اس زبان کا عملی استعمال کریں ۔ استعمال کرنے کے معنی صرف اردو الفاظ کا نہیں بلکہ رسم الخط کا۔ 
 آثار اچھے نہیں ہیں!