مگر ہم نے اپنی زندگی کا مقصد پورا نہیں کیا

        محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 
مفکراسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رح نے اپنے زمانہ کے جن اکابر اہل علم سے استفادہ کیا اور ان کے پاس جاکر خوشہ چینی کی نیز ان کی زندگی سے گہرا تاثر لیا اور جن کے زہد و استغنا اور تقوی و طہارت سے بے حد متاثر ہوئے ان میں ایک اہم نام اور شخصیت حضرت مولانا احمد علی لاہوری رح کی تھی جو اپنے علم و فضل تقوی و طہارت اور زہد و ریاضت میں اپنے معاصرین میں ممتاز اور نمایاں تھے ۔ مولانا لاہوری رح ایک طرف علوم قرآنی کے ماہر اور  رمز شناس تھے تو دوسری طرف زہد و استغنا میں اپنی مثال آپ تھے ۔ *حضرت مولانا علی میاں ندوی رح آپ کی دنیا سے رہد و بے نیازی اور استغنا کے بارے میں پرانے چراغ جلد اول میں لکھتے ہیں ۔ 
مجھے ایک مرتبہ اچانک اس کا اندازہ اور علم ہوا کہ عام طور پر کیسی گزارن اور کیا معیار زندگی ہے ،رمضان مبارک میں غریب مسلمان کے یہاں بھی کچھ نہ کچھ اہتمام اور تکلف ہوتا ہے ،لیکن مولانا کے یہاں میں نے اتنا بھی اہتمام نہیں پایا، واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک رمضان المبارک میں مولانا کی خدمت میں مقیم تھا ،مولانا نے ایک روز فرمایا کہ آج کھانا میرے ساتھ کھایئےگا ،افطار ہم لوگوں نے پنجاب کے رواج کے مطابق مسجد میں پانی اور چھوہارے سے کیا ۔ نماز مغرب کے بعد مولانا نوافل میں مشغول ہو گئے ،فارغ ہوئے تو میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ ۰۰ مولوی صاحب! میں گھر میں اطلاع دینا بھول گیا کہ آج آپ ساتھ کھانا کھائیں گے ۔ یہ کہہ کر مجھے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ فرمایا، کھانا آیا ،صرف روٹی اور دال کا پیالہ غالبا ماش کی دال تھی اسی وقت دہی کا میری خاطر اضافہ کیا گیا، مولانا نے کھاتے ہوئے فرمایا کہ مولوی ابو الحسن صاحب ! ہم سے تو یہ دال بھلی ہے کہ یہ جس مقصد کے لئے پیدا کی گئ تھی اس کو اس نے پورا کیا ،مگر ہم نے اپنی زندگی کا مقصد پورا نہیں کیا اس کے بعد بغیر کسی معذرت کے کھانے میں شریک ہوگئے ۔ اور ایسا معلوم ہوا کہ آج کوئ غیر معمولی بات نہ تھی ۔
 ( پرانے چراغ جلد ۱/ صفحہ ۱۵۶)
یہاں اس بات کا تذکرہ بھی مناسب ہوگا کہ مولانا لاہوری صاحب رح کے گھر کے پڑوس میں ان کا قائم کردہ مدرسہ تھا جس کے وہ ذمہ دار اور سرپرست تھے اس مدرسہ میں طلبہ کے لئے بہترین اور عمدہ قسم کا کھانا ہر ٹائم تیار ہوتا تھا اور طلبہ جی بھر کر شوق اور مزے سے کھاتے تھے  اور مولانا لاہوری رح کے گھر میں باکل ہی عام سا اور سادہ و معمولی کھانا بنتا تھا لیکن کبھی بھی آپ نے مدرسہ کے کھانے کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا اور نہ ہی اپنی اولاد اور کسی عزیز کو وہاں سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانے دیا ۔ 
شکر و امتنان، صبر و توکل اور زہد و استغنا کی ایسی مثالیں اور ایسے واقعات ہمارے اکابر کے یہاں بے شمار ملتے ہیں جو ہمارے لئے بہترین نمونہ و اسوہ ہیں اور اس میں موعظت و نصیحت کے  انگنت کے پہلو ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو زہد و استغنا اور صبر و توکل کو اپنا وظیفہ اور دستور بنانا چاہتے ہیں ۔ خاص طور پر اس موقع پر مولانا لاہوری رح کا یہ جملہ کہ *مولوی ابو الحسن صاحب! ہم سے تو یہ دال بھلی ہے کہ یہ جس مقصد کے لئے پیدا کی گئی تھی اس کو اس نے پورا کیا، مگر ہم نے اپنی زندگی کا مقصد پورا نہیں کیا تو ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے کہ عسرت و تنگ دستی کے موقع پر ہم کیسے صبر و شکر  تحمل و برداشت اور عزیمت و استقامت  سے کام لیں اور ایسے موقع پر بھی بندگی و خود سپردگی تسلیم و رضا اور قناعت و عاجزی کا کس طرح اظہار کریں ۔ 
اس واقعہ میں ہم ارباب اہتمام اور ذمہ داران مدارس کے لئے بھی عبرت و نصیحت کے انگنت پہلو ہیں کیا بہتر ہو کہ ہم اپنی عملی زندگی میں مولانا لاہوری رح کو اپنا نمونہ اور آئڈیل بنانے کی کوشش کریں، اور ہمارا یہ فقر، فقر اختیاری کی بنیاد پرہو ، نہ کہ فقر اضطراری کی وجہ سے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر بھی فقر اختیاری تھا نہ کہ فقر اضطراری ۔