مدارس ملحقہ جھارکھنڈ حالات، مسائل، مطالبات اور گذارشات

حامد غازی
جنرل سکریٹری آل جھارکھنڈ 
مدرسہ ٹیچرس ایسوسی ایشن
جھارکھنڈ کے مسلمان اقلیتی طبقہ میں شامل ہیں، اس طبقہ کی فلاح و بہبود کے لئے معاون بننے والے اداروں میں مدارس ملحقہ بھی ہیں۔ان دنوں یہ مدارس موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہیں، کیوں کہ پچھلے تین چار سالوں سے ایسے قوانین وضوابط لائے جارہے ہیں اور ایسے حربے اپنائے جارہے ہیں جن کی وجہ سے یہ خدشہ یقین میں تبدیل ہو چکاہے کہ یہ سارے مدارس ملحقہ بند ہوجائیں گے، ان کے اساتذہ بے روز گار ہوجائیں گے اور ان مدارس سے جن غریب ، یتیم، بے سہارا اور پسماندہ مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم ملتی تھی اور وہ دینی و عصری تعلیم سے لیس ہوکر ملازمت کے اہل بنتے تھے وہ اس سے محروم ہوجائیں گے۔ اس طرح اس کا نقصان صرف چند افراد کا نہیں ہوگا بلکہ مجموعی طورپر اقلیتی طبقہ کے تمام مسلمانوں پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ اور وہ تعلیمی و معاشی مسائل کے حل کے ایک اہم ذریعہ کو کھودیں گے۔
اس خطرناک صورت حال سے روشناس کرانے کے لئے پہلے ہم مدارس ملحقہ سے متعلق کچھ ضروری معلومات اور حالات کا ذکر کریں گے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ یہ مدارس کن حالات میںاور کن اغراض و مقاصد کے تحت قائم کئے گئے اور ان سے مسلم اقلیتی طبقہ کو کیا ملا، اس کے بعد ان سازشوں اور تدبیروں کو بیان کریں گے جو ان مدارس کی افادیت ختم کرنے بلکہ ان کو بند کرنے کے لئے پچھلے تین چار سالوں سے اپنا ئی جارہی ہیں۔ اور یہ سلسلہ ابھی تک رکا نہیں ہے ۔
حالات
آئین ہند کی مختلف دفعات مثلاً 29,25,14 اور 30کے تحت ہندوستان کی اقلیتوں کو مذہبی، لسانی اور تعلیمی تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے، اس مقصد کے لئے اقلیتوں کو نہ صرف ادارے قائم کرنے کی اجازت دی گئی ہے بلکہ بعض صورتوں میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ مالی تعاون کے ذریعہ ان اداروں کو مستحکم اور مضبوط بنائیں، نیز یہ ہدایت بھی ہے کہ مالی تعاون دینے میں وہ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں تفریق نہ کریں۔ اور قانونی طورپر یہ التزامات اس لئے کئے گئے تاکہ یہاں کااقلیتی طبقہ کہیں اکثریت کی عصبیت کا شکار ہوکر ترقی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائے۔
چنانچہ مذکورہ دفعات کی روشنی میں مسلم رہنما ؤں نے دینی و عصری تعلیم کے لئے یہ مدرسے قائم کئے۔ اور اس طرح کے مدرسے صرف اسی صوبے میں نہیں بلکہ ملک کے تقریباًتمام ایسے صوبوں میں ایسے مدرسے قائم ہیں اور وہ ریاستی حکومت کے مالی تعاون سے چل رہے ہیں۔
ان مدارس کے قیام کا اصل مقصد یہ تھا کہ خاص طورپر ایسے غریب، یتیم اور بے سہارا بچے جن کا کوئی پرسان حال نہیں اور ان کے والدین اپنی غربت کی وجہ سے بچوں کو پڑھانے کی طاقت نہیں رکھتے،  ان کے لئے نہ صرف یہ کہ مفت تعلیم کا انتظام کیا جائے بلکہ ان کے کھانے پینے اور رہنے سہنے کا بھی نظم کیا جائے اس مقصد کے لئے گاؤں سماج کے دیندار باشعور اور علم دوست حضرات نے بڑی قربانی اور جانفشانی کا مظاہرہ کیا،انہوں نے زمینداروں سے منت سماجت کرکے زمینیں حاصل کیں،گھر گھر جاکر عوام سے چندے حاصل کئے، پھر چندے کے پیسوں سے مدرسوں کی تعمیرکی اور غریب، یتیم اور محتاج بچوں کے کھانے ، پینے، رہنے سہنے، کتاب قلم، اور روشنی وغیرہ کے انتظامات کئے، اتنی محنت ومشقت کے بعد یہ مدارس قائم ہوئے اور یہاں تعلیم کا نظم ہوا۔ اور مذکورہ مقصد میں ان حضرات کو سوفیصد کامیابی ملی۔
مدارس ملحقہ کا نصاب تعلیم مذہبی اورعصری دونوں طرح کے علوم پر مشتمل بنایا گیا، تاکہ یہاں سے فارغ ہونے والے بچے جہاں مذہبی علوم میں مہارت رکھتے ہوں وہیں عصری علوم میں بھی ید طولی رکھتے ہوں، چنانچہ اس حقیقت سے انکا ر نہیں کیا جاسکتا کہ ان مدارس ملحقہ سے فارغ ہونے والے طلبہ بیک وقت دینی اور عصری علوم کے جامع ہوتے ہیں اور سرکاری اسکول و کالج میں اردو، عربی اور فارسی کے ٹیچر، یونیورسٹی میں مذکورہ سبجیکٹ کے پروفیسر، اور ریلوے ملازم بننے کی نہ صرف یہ کہ بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ بنتے آرہے ہیں۔
غیر منقسم بہار میں مدارس ملحقہ کی کل تعداد ۱۳۰۵؍ تھی، تقسیم بہار کے بعد صوبہ جھارکھنڈ میں صرف 186 مدارس آئے، ان مدارس کے اساتذہ کو  ۲۰۱۷؁ تک مسلسل تنخواہ ملتی رہیں، جس میں باضابطہ شرح اسکیل، مہنگائی بھتہ وغیرہ۔سرکاری اداروں کی طرح ہی ہے نیز وقتاً فوقتاًپے رویژن کا فائدہ بھی اساتذہ کو حاصل ہوتا رہا، ان میں کچھ مدارس تو وہ ہیں جن کا قیام آزادی سے پہلے عمل میں آیا اور کچھ مدارس آزادی کے بعد قائم کئے گئے، ۱۹۸۰؁ سے قبل ان کے لئے کوئی نیماولی (سیوا شرط) نہیں بنایا گیا تھا بلکہ گاؤں سماج کے ذریعہ تشکیل کردہ کمیٹی کی نگرانی میں سارے مدارس بحسن و خوبی چل رہے تھے، البتہ بعد کے نئے مدرسوں کو منظوری دینے کے لئے مؤرخہ 29,11,80 کو ایک نیماولی (سیواشرط) ۱۰۹۰؍ بنایا گیا۔
مسائل
یہ توتھیں مدارس ملحقہ سے متعلق کچھ ضروری معلومات، اب  ۲۰۱۷؁ء سے ان مدارس پر جو لرزہ خیز حالات آئے وہ ملاحظہ فرمائیں۔
بی جے پی حکومت کے دور میں پہلی بار  ۲۰۱۷؁ میں ایک لیٹر 1294 مؤرخہ 20,04,2017 نکالاگیا اور جھارکھنڈ کے تمام مدارس کی بھوتک ستیاپن (زمینی سطح کی جانچ) کڑی شرطوں کے ساتھ ڈی سی کے ذریعہ کرنے کا حکم جاری کیا گیا، لیکن جانچ کا ریزلٹ خراب لانے کے لئے اس سے پہلے ایک سازش رچی گئی، وہ یہ کہ پہلے مدرسہ کی منتظمہ کمیٹی میں گاؤں سماج کے افرادہوتے تھے جو مدرسہ کی خبر گیری کرتے تھے، اور مدرسہ کی کمیوں اور ضرورتوں کو پورا کرتے تھے، اس منتظمہ کمیٹی کو کالعدم کرکے ایک نئی کمیٹی بنام ساسی نکائے تشکی دی گئی، جس میں زیادہ ممبران سرکاری عہدیداروں کو رکھا گیا مثلاً ڈی ای او، ایس ڈی او، ودھایک، اور JAC کے ذریعہ نامزد کردہ کالج کا پروفیسر وغیرہ کمیٹی کی اس تبدیلی کی وجہ سے گاؤں سماج کے لوگوں میں مدرسہ کے تعاون کا جذبہ نہیں رہا، اور کمیٹی میں گاؤں سماج کے وہ افراد بھی کم ہوگئے جو مدرسہ کے بہی خواہ، اور ہمدرد ہوتے تھے۔ اور اس وقت جو سرکاری عہدیداران کمیٹی میں ہیں ان کو نہ مدرسہ سے کوئی لگاؤ ہے نہ دلچسپی، اور نہ ان کے پاس مدرسہ کی ترقی کے بارے میں غور و فکر کرنے اور کام کرنے کی فرصت ہے۔ وہ مدرسہ کی کمی اور ضرورت کوکب دیکھیں گے۔چنانچہ اس نئی کمیٹی کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان ہوا اور نئی کمیٹی بنانے سے سرکار کی جو سازش تھی وہ بڑی حد تک کامیاب ہوئی۔
بھوتک ستیاپن کئی سطحوں سے کی گئی۔ ڈی سی، ڈی ای او، ایس ڈی او اور CEO کے ذریعہ، ان مختلف طرح کی جانچوں میں تقریباً دو سال کا عرصہ لگا دیا گیا۔ اور دو سال بعد جب تنخواہ جاری کی گئی تو صرف 69 مدرسوں کی جبکہ 115 مدرسوں کی تنخواہ جاری نہیں کی گئی، ان کے اساتذہ مسلسل تین سالوں سے تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے سخت پریشان رہے، ان پر مصیبتوںکے پہاڑ ٹوٹے جن کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔فاقہ کشی اور گداگری تک کی نوبت آگئی بلکہ کئی اساتذہ تو صحیح علاج و معالجہ نہ ہونے موت کی آغوش میں چلے گئے، سرکارکو بار بار توجہ دلائی گئی مگر ان کے کانوں پر کوئی اثر نہیں ہوا، کیونکہ ایسا اتفاقیہ نہیں ہو رہا تھا بلکہ یہ منصوبہ بند طریقہ سے ہو رہاتھا، اور ان کا منشاء بالکل واضح تھا کہ دھیرے دھیرے ان مدرسوں کو مختلف بہانوں سے بند کردینا ہے۔
بی جے پی سرکار جانے کے بعد جب یو پی اے کی سرکار بنی تو مدارس کے اساتذہ کو خوشی ہوئی اور ان کو امید ہوئی کہ ان کو انصاف ملے گا اور ان کو پچھلے ساڑھے تین سالوں کی تنخواہ جاری کی جائے گی، اس سلسلے میں کا بینہ کے ذریعہ مدرسہ اساتذہ کو تنخواہ جاری کرنے کا فیصلہ لیاگیا ، لیکن جب تنخواہ کی رقم اور شرط کو دیکھا گیا تو خوشی ایک مرتبہ پھر غمی میں تبدیل ہو گئی ، اور پہلے سے زیادہ مایوسی چھا گئی، کیونکہ اس تنخواہ کے ساتھ جو شرائط ہیں ان کی رو سے ان مدرسوں کا وجود ہی ختم ہوجائے گاآگے تنخواہ جاری رہنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں۔ لہذا یہ جاننا ہوگا کہ کتنے مہینوں کی تنخواہ ہے اور اس کے  شرائط کیا ہیں۔
ان اساتذہ کو پچھلے تین سال دس مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔ اور اس وقت ان کے لئے تنخواہ کی جو رقم ہے اس سے صرف سات آٹھ مہینوں کی تنخواہ ہوسکے گی۔اور آئندہ تنخواہ ایک مرتبہ پھر مدرسہ کی جانچ کے بعد ہوگی۔
اس سلسلے میں مؤرخہ 28,08,2020 کو نوٹیفکیشن 1377  جاری کیا گیا ہے۔ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ نیما ولی 1090 میں اضافہ شدہ شرائط کے تحت تمام مدارس کی جانچ ہوگی لہذا نوٹیفکیشن میں درج تمام شرائط کو مؤرخہ 31,03,2021 تک پورا کرنا تمام مدارس کے لئے لازمی ہوگا۔ 
اب سوال یہ ہے کہ جب سرکولر 1090 کو پورا کرنا ہی مدارس کے لئے دشوار ہے کیونکہ اس میں غریب اور انتہائی پسماندہ لوگوں کے بچے پڑھتے ہیں وہ کیسے تعاون کریں گے۔ دوسرے یہ کہ مدرسہ کی پہلی والی منتظمہ کمیٹی نہیں جو چندے لاکر انتظام کرتی تھی بلکہ اس میں زیادہ تر ممبران سرکاری عہدیداران ہیں جو مدرسہ پر توجہ ہی نہیں دیتے، ایسے میں 1090 میں جن شرائط کا اضافہ کیا گیا ہے وہ کون پورا کریگا؟ اس مدرسہ سے کس کو مطلب ہے؟ ان شرائط کا تو حاصل یہی نکلا کہ جو مدرسہ کے اساتذہ ہیں وہی مدرسہ کی عمارت اور ضروریات کو پوراکریں۔
لہذا یہ بتایا جائے کہ جن اساتذہ کو ساڑھے تین سال سے تنخواہ نہیں ملی ہے وہ قرضوں کے تلے دبے ہوئے ہیں اور ان کی بہت سی ضروریات ہیں وہ آٹھ مہینے کی تنخواہ سے کیا کیا کریں گے؟ وہ قرض کی ادائیگی کریں گے، بال بچوں اور گھر کے اخراجات پوراکریں گے یا مدرسہ کی عمارت بنوائیں گے؟ آخر ان اساتذہ کے کندھوں پر عمارت کی شرائط پوری کرنے کی ذمہ داری کیوں عائد کی جارہی ہے۔  اور ان  کی تنخواہ کو عمارت سے کیوں جوڑا جارہا ہے کیا اس کا صاف مطلب یہ نہیں کہ جب مدرسہ کی عمارت اور شرائط پوری نہیں ہو سکیں گی تو خود ہی یہ مدرسے ختم ہوجائیں گے۔اور ہم پر الزام بھی نہیں آئے گا کیونکہ ہم کہ دیں گے کہ مدرسے شرائط پوری نہیں کر سکے اس لئے ان کی منظوری رد کردی گئی۔
دوسری بات یہ ہے کہ 1090 میں جو شرائط اضافہ کردہ ہیں ان میں طلبہ کی تعداد سے متعلق بھی ہے۔ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ ان مدرسوں میں غریب ،یتیم اور نادار بچے پڑھتے ہیں، اور ایک سروے کے مطابق صرف پانچ فیصد بچے ہی ان مدرسوں میں آتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ جو شرائط ایک ارب تیس لاکھ لوگوں کو سامنے رکھکر جنرل اسکول کے لئے بنائے گئے ہیں، ان مدرسوں میں کیسے نافذ ہوں گے جہاں صرف پانچ فیصد بچے آتے ہیں۔ لہذا 1090 میں اضافہ کردہ شرائط صحیح معنوں میں ان مدرسوں کو بند کرنے کے لئے ہیں کہ نہ یہ تعداد پوری ہوگی اور نہ یہ مدرسہ رہے گا۔
تیسری بات یہ ہے کہ 1090 میں اضافہ کردہ شرائط میں ایک یہ بھی ہے کہ مدارس کے طلبہ کے لئے بایو میٹرک حاضری لازمی ہوگی۔ اس سلسلے میں کہنا یہ ہے کہ جہاں تک اساتذہ کی بات ہے تو ان کی بایو میٹرک حاضری ٹھیک ہے لیکن طلبہ کی بایومیٹرک حاضری کسی بھی طرح درست نہیں  اس سے تعلیمی نظام متأثر ہوگا کیونکہ دوگھنٹے تک دواستاد کو مسلسل آنے والے بچوں کی حاضری میں لگنا پڑے گا اور خاص بات یہ ہے کی اسکولوں میں بھی بایومیٹرک حاضری طلبہ کے لئے لازمی نہیں پھر مدرسہ میں طلبہ کے لئے لازمی کیوں؟
اتنی تفصیلات پیش کرنے کا حاصل یہ ہے کہ نیماولی 1090 میں جن شرائط کا اضافہ کیا گیا ہے ان شرائط کی رو سے جھارکھنڈ کے تمام مدارس ملحقہ ختم ہوجائیں گے، جن کی وجہ سے مسلم اقلیتی طبقہ کے غریب، یتیم اور نادار بچے جو ان مدرسوں سے تعلیم پاکر ملازمت کے اہل بنتے تھے وہ اس سے محروم ہوجائیں گے اس وجہ سے نیماولی 1090 میں اضافہ کردہ شرائط کو ختم کرنا نہایت ضروری ہے۔
مدراس ملحقہ سے متعلق دو اہم مسائل اور توجہ طلب ہیں، ایک مسئلہ تو عالم و فاضل کی اسناد سے متعلق ہیں، ۲۰۰۰؁ میں جھارکھنڈ کے بہار سے الگ ہونے کے بعد ہی یہاں کی حکومت نے عالم و فاضل کے امتحانات منعقد کرانے اور سند تفویض کرنے کی ذمہ داری جھارکھنڈ اکیڈمک کونسل کو دے دی، اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ JAC کی طرف سے جاری کردہ عالم و فاضل کی اسناد کو کسی دوسری ریاست کے اداروں میں ملازمت یا داخلہ کے لئے ناقابل قبول سمجھا جاتا ہے، خود جھارکھنڈ میں بھی ان اسناد کو کسی شعبہ میں ملازمت کے لئے غیر معتبر مانا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ JAC صرف انٹر کلاس تک امتحان لینے اور انٹر کلاس تک کے اسناد جاری کرنے کا اہل ہے، جبکہ عالم، B.A اور فاضلM.A کے مساوی ہوتا ہے۔حالانکہ آل جھارکھنڈ مدرسہ ٹیچرس ایسو سی ایشن شروع سے ہی سرکار سے مطالبہ کرتی رہی ہے کہ عالم و فاضل کے امتحانات و اسناد کے لئے کوئی باضابطہ عربی و فارسی یونیورسٹی قائم کی جائے اور اس سے عالم و فاضل کو ٹیگ کرکے اس کے ذریعہ سے امتحانات منعقد کرائے جائیں، یا کم از کم کسی موجودہ یونیورسٹی سے ہی عالم و فاضل کا امتحان لیا جائے، لیکن جھارکھنڈ کے قیام سے آج بیس سال ہورہے ہیں اور اب تک کسی سرکار نے اس طرف توجہ نہیں دی، اس کی وجہ سے عالم و فاضل کی ڈگری رکھنے والے دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ ان کو کسی شعبہ میں قبول نہیں کیا جارہاہے۔ لہذا سرکار کو چاہئیے کہ اس جانب فوری توجہ دے۔
دوسرا مسئلہ اساتذہ کے پینشن سے متعلق ہے  ۲۰۱۴؁ء میں ہیمنت سرکار نے مدارس کے ان اساتذہ کے لئے پینشن جاری کرنے کے لئے باضابطہ کابینہ سے فیصلہ لیا تھا جو  ۲۰۰۴؁ سے پہلے بحال ہوئے ہیں، اس سلسلے میں نوٹیفکیشن 2020  24,10,2014 بھی جاری ہوچکا تھا۔ ہیمنت سرکار کے اس قابل ستائش اقدام سے اساتذہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ بی جے پی سرکار نے  ۲۰۱۸؁ء میں اس نوٹیفکیشن کو کابینہ سے رد کرکے پینشن ختم کردیا، اور اس طرح اساتذہ کے ساتھ بی جے پی سرکار نے غیر متعصبانہ اور ظالمانہ سلوک کیا۔ اب جبکہ بی جے پی کی ظالم حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے، موجودہ یوپی اے حکومت سے گذارش یہ ہے کہ ۲۰۰۴؁ء سے پہلے جو اساتذہ بحال ہوئے ہیں ان کے پینشن کے لئے راستہ ہموار کیا جائے۔
جھارکھنڈ سرکار سے ہمارے مطالبات
یہ تو تھیں مدارس ملحقہ کے حالات و مسائل سے متعلق چند اہم باتیں۔ جن کو اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی گئی، اب اس ضمن میں آل جھارکھنڈ مدرسہ ٹیچرس ایسوسی ایشن کے موجودہ سرکار سے جو مطالبات ہیں ان کو نمبر وار اختصار کے ساتھ ذیل میں تحریر کیا جارہا ہے۔
(۱)   سرکولر1090 میں ترمیم کرکے جو اضافی شرائط رکھے گئے ہیں ان کو کالعدم کرکے سابقہ 1090 کو بحال کیا جائے، اس کے لئے نوٹیفکیشن 1377 کو دوبارہ کابینہ میں لاکر ترمیم (سنشودھن) کی جائے کیونکہ اس کا فیصلہ کا بینہ سے لیا گیا ہے اس لئے اس کی تنسیخ بھی کابینہ سے کی جائے تاکہ ان مدرسوں کا وجود باقی رہے اور حسب سابق غریب و نادار بچے ان سے استفادہ کرسکیں۔
(۲) مدارس کی ایک بار پھر جانچ کی آخری تاریخ 31-03-2021 ہے اس کو بڑھایا جائے کیونکہ اتنے کم وقت میں عمارت سے متعلق شرائط کو پورا کرنا ان مدارس کے لئے نہایت دشوار ہے جن کی تفصیل ما قبل میں گذرچکی ہے لہذا جانچ کی آخری تاریخ 31-03-2021 کوبڑھاکر 31-03-2022 کیا جائے۔
(۳) مدارس ملحقہ کے طلبہ و طالبات کے لئے بایو میٹرک حاضری لازمی کی گئی ہے، اس کو ختم کیا جائے کیونکہ اس سے ان کا تعلیمی نقصان ہے۔
(۴) عالم و فاضل کے امتحانات کے لئے باضابطہ عربی و فارسی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے جیساکہ بہار میں ہے، اور اس سے عالم و فاضل کا امتحان لیا جائے، اگر فوری طورپر ایسانہ ہوسکے تو پہلے جب تک کے لئے کسی موجودہ یونیورسٹی سے ہی عالم و فاضل کا امتحان لیا جائے، اس میں  اب مزید تاخیر قطعاً نہ کی جائے۔
(۵) جھارکھنڈ کے قیام کے بعد عالم و فاضل کی جو اسناد JAC سے اب تک جاری کی جاچکی ہیں ان کو یونیورسٹی کے اسناد کے طرح مانا جائے۔
(۶) ۲۰۱۴؁ء  میں مدرسہ اساتذہ کے پیشن کے لئے جو نوٹیفکیشن 2020  24-10-2014 جاری کیا گیا تھا جس کو بی جے پی نے کالعدم کردیا اس کو دوبارہ کابینہ میں لاکر اساتذہ کے پینشن کو بحال کیا جائے۔
(۷)  مولوی تک کے امتحانات کے لئے مدرسہ بورڈ قائم کیا جائے کیوںکہ مدارس کے وجود و بقاء اور ان افادیت کے پیش نظر یہ بے حد لازمی ہے ۔
جھارکھنڈ سرکار سے ہمارا مطالبہ ہے کہ ان مذکورہ تمام مسائل کے حل کے لئے مدرسہ کے بہی خواہ ، تجربہ کار اور ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دے اور ان کو حل کرنے کے لئے جلد از جلد پیش رفت کرے۔
امید ہے کہ جھارکھنڈ سرکار ہمارے ان مطالبات پر توجہ دے گی ، موجودہ افسران جو پچھلی سرکار کی پالیسی کو آگے بڑھانے کا کام کر رہے ہیں ان پر روک لگائے گی اور اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے ہرممکن اقدامات کریگی۔
ملی و سماجی تنظیموں سے گذارش
ایسے سنگین حالات میں مؤدبانہ گذارش ہے جھارکھنڈ کی تمام ملی، سیاسی اور سماجی تنظیموں سے، خاص طورپر جمعیت علماء، امارت شرعیہ، ادارہ شرعیہ، ملی کونسل، جماعت اسلامی، جمعیت اہل حدیث، انجمن اسلامیہ اور جھارکھنڈ تنظیم وغیرہ سے، نیز تمام سیاسی شخصیات، عالمگیر صاحب وزیر دیہی ترقیات جھارکھنڈ، فرقان صاحب سابق ایم پی، عرفان انصاری، سرفراز احمد، سدیو کمار سونو اور دیپیکا پانڈے ودھایک حلقہ مہگاواںوغیرہ سے پرزور اپیل ہے کہ وہ مسلم اقلیتی طبقہ کے تعلیمی ومعاشی مسائل کے حل میں معاون بننے والے ان مدارس ملحقہ کے وجود کو بچانے کے لئے آگے آئیں اور ہمارے جائز مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے اپنی آواز سرکار تک پہنچائیں۔تاکہ یہ مدارس اپنا وجود برقرار رکھ سکیں اور حسب سابق ملک و ملت کے لئے اپنی خدمات پیش کرتے رہیں۔