کورونا ویکسین کی تقسیم کے نام پر اب مُلک میں سیاسی کھیل کھیلنے کی کوشش ہوگی

ویکسین کی تقسیم کے لیے یکم جنوری کو حکومتِ 
ہند نے اعلا سطحی نشست کے بعد جو فیصلے کیے، 
ان پر ابھی سے سوالات قایم ہونے لگے ہیں۔
عرض داشت
صفدرا مام قادری
صدر شعبۂ اردو، کالج آف کامرس،
 آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
بہ ظاہر وباے کورونا کا زور عالمی سطح پر کم ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے مگر اس کے علاج کے نام پر عالمی سطح پر جو سیاسی چال چلی جا رہی تھی، اب اس کے نقطۂ عرروج تک پہنچنے کا وقت آ گیا ہے۔علاج کے لیے دنیا کو ویکسین چاہیے مگر بازار میں اتنے انداز کے کھیل تماشے چل رہے ہیں کہ آسانی سے یہ بات طَے نہیں کی جا سکتی کہ علاج کب تک پایۂ تکمیل کو پہنچے گا۔ چوں کہ مالی معاملات ہر مرحلے پر فوقیت اختیار کر لیتے ہیں، اس لیے معیشت سے متعلّق کھیل بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ آفت میں مواقع حاصل کرنے کا صرف حکومتِ ہند کو شوق نہیں ہے بلکہ کورونا کے علاج کے نام پر دنیا بھر کے ممالک اور دواکمپنیاں اپنے دعوئوں کے ساتھ بازار میں پہنچ چکی ہیں۔ مختلف حکومتوں میں مفاد کا ٹکراو بھی ہوگا۔ پتا نہیں پسماندہ اور ترقّی پذیر ممالک تک اس کے فائدے پہنچتے پہنچتے اور کتنے مسائل سے اس دنیا کو ابھی نبرد آزما ہونا ہوگا۔
کورونا کے علاج کے لیے سب سے پہلے روس نے ویکسین بنا لینے کا دعوا کیا اور یہ بھی خبرشاہ سرخیوں میں آئی کہ روٗس کے صدر اور ان کی صاحب زادی نے یہ ویکسین لے لی۔ دنیا کے اور مُلکوں میں بھی ویکسین بنانے اور ٹرائل کرنے کے دعوے ہوئے۔ برطانیہ ، امریکا، اور چیٖن سے اس سلسلے سے سنجیدہ خبریں آئیں۔ ٹرائل کے بعد عام پروڈکشن کا کام بھی شروع ہوا اور دیکھتے دیکھتے دنیا کے مختلف مُلکوں میں ویکسین کے عوامی سطح پر استعمال کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔ کچھ چھوٹے ممالک میں رفتار تیز ہے۔ قطر سے یہ خبر آئی ہے کہ جنوری مہینے میں وہ اپنے عام لوگوں کو ویکسین دے کر مستقل حفاظت کے دائرے میں لے آئیں گے۔ کچھ ملکوں میں فرنٹ لائن پر کام کرنے والوں کو ویکسین دینے کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ 
ہندستان کے اکثر سیاست داں ملک میں اعلا تعلیم و تحقیق سے بے اطمینانی ظاہر کرتے رہے ہیں۔ کورونا کے دوران یہ بات اور عریاں حقیقت کی طرح سے سامنے آ گئی کہ ملک کا نظامِ صحّت رام بھروسے چل ر ہا ہے۔ ڈاکٹر ، نرس سے لے کر اسپتال اور اسپتال کے بستر تک ناکافی ثابت ہوئے۔ حقیقت میں وہ دس فی صد عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے بھی بہت مشکل سے کارگر تسلیم کیے جائیں گے۔ شروع میں ہندستان میں ویکیسن بنانے کا سب سے پہلا دعوا تو بابا رام دیو نے ہی کر دیا تھا مگر ان کا کھیل ناکام ثابت ہوا اور انھیں پیچھے ہٹنا پڑا۔ تھوڑے بہت اور دعوے ہوئے مگر پھر یہ طَے ہوگیا کہ ہندستان میں ایسی ایجاد نہیں ہونے والی ہے اور مُلک کو غیر مُلکی ویکسین کی در آمدات پر ہی منحصر رہناہوگا اور آخر کا ریہی ہوا۔ 
جب ہندستان میں مَرَض اپنے عروج پر تھا، اس وقت یہ افواہ اُڑی تھی کہ ہمارے وزیرِاعظم ۱۵؍ اگست کو ایک چونکانے والا اعلان کریں گے۔ توقّع تھی کہ وزیرِ اعظم کورونا ویکسین کے سلسلے سے بڑے اعلانات کریں گے۔ ادھر بھارتیہ جنتا پارٹی کے چینل اشارے کرنے لگے تھے کہ کسی ہندی نژاد ویکسین کا اعلان ہونے والا ہے مگر وہ دور تھا جب روزانہ پچاس ہزار سے زیادہ وبا متاثّرین کی تعداد مُلک میں سامنے آ رہی تھی۔ وزیرِ اعظم کو اندازہ ہو گیا کہ ابھی زیادہ بے سر پَیر کی کہنے کی گنجایش نہیں ہے۔ ویکسین کا معاملہ عالمی معیار کا متقاضی تھا ، اس لیے کسی دیسی برانڈ کا تذکرہ کرکے واہ واہی لوٗٹنے کا انھیں موقع کھونا پڑا۔ ہر چند کہ بِہار کے انتخابات میں اپنی پہلی ہی تقریر میں انھوں نے عوام سے یہ وعدہ لیا کہ تم اسے ووٹ دوگے جو تمھیں کورونا کی ویکسین دے گا۔ ظاہر ہے یہ ویکسین جب ملے مگر اسے حکومتِ وقت کو ہی دینا تھا ،اس لیے نریندر مودی نے ایک ہاتھ سے ویکسین اور ایک ہاتھ سے ووٹ کا فارمولا دے ہی دیا۔ جب کہ دوٗر دوٗر تک ویکسین کا کسی کو پتا نہیں تھا۔ ہر مُلک میں ٹرائل کا سلسلہ تھا۔
ہندستان کی بعض بڑی کمپنیوں نے عالمی سطح پر دوا کی کثیر قومی کمپنیوں نے معاملات مقرر کرکے ویکسین کے ٹرائل جگہ جگہ شروع کرائے۔ ہندستان جیسے جغرافیائی اعتبار سے پیچیدہ صورتِ حال کے مُلک میں کئی طرح کی پریشانیاں موجود ہیں۔ کوئی علاقہ سرد ہے اور کوئی بے حد گرم۔ دنیا کے جن ملکوں میں اس سلسلے سے تحقیق کا کام ہوا، وہ سرد ممالک تھے وہاں کی دوائیں اور انجکشن اور وہاں کے لوگوں پر ٹرائل کو ہوٗ بہ ہوٗہندستان کے لیے کارگر سمجھنا مشکل تھا۔ حکومتِ ہند نے اگرچہ کوئی بڑی پیش رفت خود سے نہیں کی مگر اربوں کھربوں کے معاملات ہونے کی وجہ سے اپنے آپ دنیا ایک سو تیس کروڑ آبادی والے اس ملک کی طرف بڑھی۔ یکم جنوری کو ہندستان میں ماہرین کی بڑی طویل بیٹھک ہوئی اور بالآخر آکس فورڈ کے ٹیٖکے کو ہندستان میں استعمال کی منظوٗری دی گئی۔
دنیا کے ہر ملک نے اپنے طَور پر حکمتِ عملی بنائی ہے کہ یہ ویکسین کس طرح سے لوگوں تک کامیابی کے ساتھ پہنچے گی۔ یہ ایک الگ سوال ہے کہ عوامی استعمال کے بعد آخری توثیق ہونا باقی ہے کہ دو خورا ک لینے کے بعد اس وبا سے بہ ہر طور عام لوگ محفوظ ہو پائیں گے یا نہیں۔ ابھی تک کی تحقیقات میں تھوڑے بہت سوالات بھی موجود رہے ہیں۔ سائڈ اِفکٹ اور پھر ادھوری کامیابی کے خدشات بہت سارے ماہرین کی طرف سے آ چکے ہیں۔ حکومتِ ہند کو بہ عُجلت پہلی جنوری کو نئے سال کے تحفے کے طور پر اس کا اعلان کرنا تھا۔ یوں بھی گذشتہ ۹؍ ،۱۰؍ مہینوں میں اس وبا سے حفاظت کے لیے عام انسانوں کی خاطر حکومت کے  صرف دعوے سامنے آئے۔ نقلی باتیں کرنے اور ڈینگیں  ہانکنے سے مرکزی حکومت بھی اب پست ہو چکی ہے۔ اس لیے ویکسین کے عام استعمال سے بہت پہلے ویکسین ویکسین کی صدائیں سیاست دانوں کی بولیوں میں پچھلے دو مہینوں سے سُننے کو مل رہی تھی۔ یہ حکومتوں کا اصل معاملے سے ذہن کو دور کرنے کے لیے کیا جانے والا ایک خاص قدم ہے۔ عوام کو بہلانے کا اس سے اچھّا کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا۔
ہندستانی حکومت کو ہمیشہ اس کی آبادی کی وجہ سے ایک بچاو کی گنجایش رہی ہے۔ کوئی چھوٹا ملک یا دولت مند اور ترقّی یافتہ ملک فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کو ویکیسین جلد از جلد دے سکتے ہیں مگر ہندستان اور چیٖن کی آبادی کو دیکھتے ہوئے ایسی باتیں ہمیشہ ناممکنات میں تسلیم کی جائیں گی۔ ۱۳۰؍ کروڑ لوگوں کو ایک لمحے میں یا ایک مہینے میں تو ویکسین شاید نہ دی جا سکے مگر تمام لوگوں کو کتنی مُدّت کے دوران میں ویکسین دے دی جائے گی، اس سلسلے سے حکومتِ ہند کھل کر کبھی کوئی گفتگوٗ کرتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ یہ درست کہ پہلے مرحلے میں ڈاکٹر اور اس قبیل کے فرنٹ لائن ورکرس میں سے حکومت نے دس کروڑ لوگوں کو ویکسین دینے کا ہدف رکھا۔ اعلان میں کئی طرح کی پیچیدگیاں ہیں، جن سے یہ سمجھنا آسان ہے کہ جنوری مہینے کے لیے حکومت نے جو نشانات رکھے ہیں ،انھیں شاید ہی پورا کیا جا سکے۔ یہ بھی یاد رہے کہ جس کمپنی نے ویکسین بنائی ہے اس نے ابھی ہندستان کو پانچ کروڑویکسین ہی دینے کی تیّاری کی ہے۔ باقی پانچ کروڑ ویکسین کب آئے گی اس کا کوئی اعلان ابھی تک نہیں ہوا ہے ۔ توقّع کرتے ہیں کہ اس سلسلے سے حکومت حسّاس اور سنجیدہ ہونے کی کوشش کرے گی۔
ہندستان جغرافیائی اعتبار سے مختلف النّوع تو ہے ہی، سیاسی اعتبار سے بھی پیچیدگی کم نہیں ہے ۔ ویکسین کے بٹوارے کے مرحلے میں یہ بات سامنے آئی کہ کہیں مرکز اور صوبوں کی سیاست سامنے نہ آ جائے۔مرکزی حکومت اس معاملے میں اپنی سیاست شعاری سے باز نہ آئے تو کوئی کیا کر لے گا۔ اس بات کے اندیشے موجود ہیں کہ حزبِ اختلاف کی اقتدار والی ریاستوں کے ساتھ بے انصافی نہ ہو۔ اس بات پر بھی لوگ غور و فکر میں مبتلا ہیں کہ یہ مُلک فرنٹ لائن ورکرس سے آگے کی بات کیوں نہیں کر رہا ہے۔ حکومت نے پولیو میں کئی بار ناکامیاں جھیلی ہیں۔ کورونا کی ویکسین تو اصول کے مطابق ہر ایک شہری کو دیا جانا ہے۔ پہلے دس کروڑ کے بعد اگر اس کی رفتار تیز نہ ہوئی اور صرف چند مہینوں کا نشانہ رکھ کر اس میں کامیابی حاصل نہ کیا گیا تو پولیوسے زیادہ نامامیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چوں کہ حکومت کا مکمّل کنٹرول ہے، اس لیے انصاف پسندی کے ساتھ ویکسین کی تقسیم کا عمل بھی اسی مرکزی حکومت کو انجام دینا ہے۔
تھوڑے دنوں میں دنیا میں اور بھی ویکسین عوامی استعمال کے لیے شاید سامنے آ جائیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں ہمیں اور آسانیوں سے ویکسین مل سکے مگر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ حکومت کی نیّت اگر درست رہے اور پورے ۱۳۰؍ کروڑ لوگوں کو ۲۰۲۱ء میں لازمی طَور پر ویکسین دے دیے جانے کا ارادہ کر لے تو ملک کی مشکلات کم ہوں گی  اور عالمی بازار میں ہندستان کی ساکھ بڑھے گی۔ یوں بھی ساڑے تین برس تک تو نریندر مودی کو ہی حکم راں رہنا ہے، اس لیے انھیں ہی ان مسائل کا حل ڈھونڈنا ہوگا۔
مضمون نگار کالج آ ف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس میں صدر شعبۂ اردو ہیں۔