کیا تیار شدہ ویکسین کرونا وائرس کی نئی قسم کے لئے بھی مؤثر ثابت ہوں گے ؟

ڈاکٹر عقیل خان
مصنف : ڈاکٹر عقیل خان پروفیسر و ہیڈ
 (ریٹائرڈ) پوسٹ گریجویٹ ٹیچنگ
 ڈیپارٹمنٹ آف بایو کیمسٹری،
آر ٹی ایم ناگپور یونیورسٹی، ناگپور ' مہاراشٹر
9890352898
انگلینڈ میں ناویل (Novel) کرونا وائرس کی نیء قسم کے وجود میں آنے کے بعد دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جیسے ہی اس کی اطلاع برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے دی نتیجتاً کئی ممالک نے انگلینڈ سے آنے اور وںاں جانے والی پرواز یں عارضی طور پر معطل کر دی ہیں۔ کرونا وائرس کی یہ نئی قسم جو وی یو آئی - 202012/01 یا B.1.1.7کے نام سے جانا جارہا  ہے ۔اسمیں 23 تبدیلیاں پائی گئی ہیں۔ جسمیں اس کے اسپایک پروٹین کی تبدیلیاں بھی شامل ہیں۔ اور یہ  70 گنا زیادہ بیماری پھیلانے کی قوت رکھتا ہے۔ لیکن ایک اہم بات اسکے تعلق سے یہ ہیکہ اسکی ہلاکت خیزی ناویل کرونا وائرس سے زیادہ نہیں ہے جس سے وہ 23 تبدیلیوں کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔ وائرس کی اس نئی قسم کے پیدا ہونے کے بارےمیں انگلینڈ کی تنظیم "کوویڈ 19 جینومکس یو کے (COG- UK) کونسورٹییم" نے حکومت برطانیہ کو مطلع کیا۔ اس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے حکومت برطانیہ نے تقریباً تمام احتیاطی اقدامات لیے ہیں۔ جسمیں لاک ڈاؤن بھی شامل ہے۔
چونکہ کرونا وائرس کی یہ نئی قسم 70 گنا زیادہ متعدی ہے اس وجہ سے وہ بیماری تیزی سے پھیلا سکتا ہے۔ سپتمبر 2020 میں اس کی شناخت برطانیہ میں کی گئی تھی ۔یہ اتنی تیزی سے پھیلا کہ تین مہینے بعد دسمبر میں کل کرونا وائرس کے کیسوں میں سے 60 فیصد کیس کرونا وایرس کی نئی قسم کی وجہ سے تھے۔ اس کی شناخت جنوبی افریقہ، اٹلی، ڈنمارک، نیدرلینڈ اور آسٹریلیا میں بھی کی گئی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق وایرس میں تبدیلیاں ہونا فطری امر ہے اور ان تبدیلیوں سے وہ اپنا بچاؤ کرتا ہے۔
اس بات کا ذکر یہاں مناسب ہوگا کہ بھارت نے حالانکہ کرونا وائرس کی نئی قسم سے بچاؤ کے طور پر انگلینڈ سے آنے اور وںاں جانے والی پرواز یں 23 دسمبر 2020 سے 31دسمبر 2020 تک معطل کر دی ہیں لیکن اس سے پہلے آنے والے 21 لوگ کرونا وائرس سے متاثر شدہ پائے گئے ہیں۔ حکومت حفاظتی اقدامات کررہی ہے اور یقیناً یہ بات بھی معلوم کرنے کی کوشش ہوگی کہ اس میں سے کتنے کرونا وائرس کی نئی قسم سے انفیکٹ ہوئے ہیں۔
کوویڈ 19 سے نپٹنے کے لیے تیار شدہ ویکسین کیا کرونا وائرس کی نئی قسم کے لئے موثر ثابت ہوںگے ؟
کوویڈ 19 سے نپٹنے کے لیے ویکسین کی عالمی دوڑ میں تین کمپنیوں کے مندرجہ ذیل ویکسین سب سے آگے ہیں۔
 امریکہ کی فایزر کمپنی کا بی این ٹی  162b2 نامی ویکسین
 امریکہ کی موڈرنا کمپنی کا میسینجر آر این اے 1273 نامی ویکسین
 اور
انگلینڈ کی ایسٹرا زینیکا کمپنی کا اے زیڈ ڈی 1222 نامی ویکسین۔
امریکہ اور برطانیہ نے اپنے شہریوں کو  فایزر کمپنی کا ویکسین دینا بھی شروع کر دیا ہے۔ 
 مندرجہ بالاویکسینز میں وایرس کا ایساجینیاتی مادہ ہوتا ہے جو انسانی خلیوں میں وایرس کا اسپایک پروٹین بناتا ہے۔یہ وایرس پروٹین انسان کے مدافعتی نظام کو متحرک کرتا ہے۔ ویکسین کا ہدف ناول کرونا وائرس کا اسپایک پروٹین ہے۔ جس کے معنی یہ ہے کہ ویکسین دینے کے بعد مدافعتی نظام جو اینٹی باڈیز بناتا ہے وہ اسپایک پروٹین سے چپک کر ناول کرونا وائرس کو برباد کر دیتی ہیں یا کرونا وائرس کو انسانی خلیوں کے ساتھ چپکنے  اور ان کے اندر داخل ہوکر انھیں برباد کر نے سے روک دیتی ہیں۔ یہ ویکسین سایٹوٹاکسک ٹی سیلز کو متحرک کردیتے ہیں جو کرونا وائرس سے متاثر شدہ انسانی خلیوں کو مار دیتے ہیں۔ سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ جب کرونا وائرس کے اسپایک پروٹین میں تبدیلی ہونے کی وجہ سے جو کرونا وائرس کی نئی قسم بنی ہے کیا مندرجہ بالاویکسین اس نیء قسم کے خلاف کام کر پائیںگے ' انھیں برباد کرپائیںگے اور انسانوں کو کوویڈ 19 بیماری سے محفوظ رکھ پائیںگے؟ اس سلسلے میں محقیقین کی رائے ہے کہ کرونا وائرس کے اسپایک پروٹین میں تبدیلی کی وجہ سے ویکسین کی کارکردگی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وہ اس لیے کہ وایرس کے اسپایک پروٹین کے مختلف حصوں کو دھیان میں رکھ کر ویکسین میں اس کا جینیاتی مادہ رکھا گیا ہے جو انسانی خلیوں کے ذریعےپروٹین کے مختلف حصے بناتا ہے۔ جو بعد میں مدافعتی نظام کو متحرک کر کے وایرس کو برباد کر تے ہیں۔ یقیناً ویکسین کی کارکردگی برقرار رہنے کی خبر ہمارے اطمینان کا باعث ہے۔ سائنسدانوں کا یہ بھی خیال ہےکہ ویکسین سے بڑے پیمانے پر جب انسان محفوظ ہو جائیںگے تو انسانی مدافعتی نظام سے بچنے کےلئے کروونا وایرس میں بھی تبدیلیاں آسکتی ہیں جو پر یشانی کا باعث ہو سکتی ہیں!!!