مسلمانوں کے تابناک مستقبل کی طرف رمز

از قلم : ارشد جمال عمار
متعلم دارالعلوم دیوبند
 حالیہ دنوں مسلمانان ہند پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے جارہے ہیں، ان کو ملک بدر کرنے کی جو سعی پیہم ہورہی ہے، جس طریقے سے متعصبانہ و متکبرانہ رویے کے ساتھ ان کے ایمان کے استحصال کی مذموم سرگرمیاں عروج پر ہیں وہ کسی فرد بشر سے ڈھکی چھپی اور مخفی نہیں، یہ کرم فرمائیاں آج کے درانداز، اور فرقہ پرست برسر اقتدار حضرات کی ہیں، جو ہندو مسلم لڑا کر آتشِ منافرت کی تپش پر اپنے سیاست کی روٹی سینک رہی ہیں، اور غیر مسلموں کو ہندوستان کے ہندو راشٹر بنانے کو لیکر خواب خرگوش سے لطف اندوز کرا رہی ہیں اور انہیں یقین دلارہی ہیں کہ ہم مسلمانوں کے کٹر دشمن ہیں، ہمارا مقصد ان کی زندگی کو سرزمین ہند پہ تنگ کرنا اور انہیں دل فگاری و اشکباری کی دہلیز تک پہونچانا ہے۔
 بس یہی بات ان احمقوں اور حماقت زادوں کو فرحاں و شادماں کیے ہوئے ہے کہ وہ ہمارے معاون و مددگار اور حامی و حمایتی ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ان کے بھی ممد و یاور نہیں، ہاں اگر وہ کسی کی راہ حیات میں نصرت و وسعت کی رمق ڈالنے کی  تفکیر و تدبیر کررہے ہیں تو وہ صرف اور صرف اعلی طبقہ کے لوگوں کی، اور بقیہ جو اقلیتی طبقہ کے لوگ ہیں تو انہیں دیدہ دانستہ طور پر معاشی و سیاسی لحاظ سے بلکہ فولادی و آہنی لحاظ سے بھی ضعیف اور کمزور کردینا چاہتے ہیں۔
 اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیوں وہ اس طرح کی سازشیں اور شورشیں رچ رہے ہیں؟ اس سے ان کا کیا مقصد ہے؟ 
انتہائی غور و خوض کے بعد حاشیہ عقل میں یہ بات آتی ہے کہ اس سے ان کا مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ وہ ان اقلیتی طبقے کے لوگوں کی گردن میں غلامی کا طوق پہنا دینا، اور ان کے ہاتھوں کو اسارت کی زنجیر میں جکڑ کر انہیں بندھی بنا کر رکھنا چاہتے ہں تاکہ وہ اپنے اوپر ہورہے مظالم کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کر سکیں، ننھے ننھے معصوم بچوں کے قاتلوں اور عفیفہ و پاکدامن عورتوں کی عصمتوں کا دامن چاک کرنے والوں سے محاذ ِمزاحمت بھی نہ کر سکیں۔
 الغرض کہ ان کا ارادہ ماضی کی اس سیاہ تاریخ کو دہرانا ہے جہاں پہونچ کر مؤرخین کا قلم لرز جاتا ہے، قارئین کے قلب پر رقت اور جسد پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے، آنکھوں سے قطرہ آنسو مانند خوں ٹپکنے لگتا ہے، جب آج کے موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہیں تو ماضی کے المناک اور اذیت ناک سانحے چشم تصور کے سامنے آکر جھلملانے لگتے ہیں اور تاریخ گویا ہوتی ہے کہ اس وقت اقلیتی طبقے کے لوگ درجہ ضعف کے اس دہانے پر پہنچا دیے گئے تھے کہ وہ درماندہ و ناچار ہوکر گوبر سے دانے کو نکال کر صاف کرکے کھانے پر مجبور تھے، حالت زاری کے ساتھ ساتھ بزدلی کا یہ عالم تھا کہ اگر اقلیتی طبقہ کے پچاس لوگوں کے پاس اعلی طبقے کا ایک فرد آکر کہہ جاتا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرو میں ابھی گھر سے تلوار لے کر آتا ہوں تو وہ لوگ وہیں جمادات کی طرح منجمد ہوکر اپنی موت کا انتظار کرتے۔
 لیکن مسلمانوں کو اس سے حیران و سرگرداں ہونے کی قطعی ضرورت نہیں، کیونکہ اس وقت اگر کسی نے ظلمت کے ابر آلود فضاء میں وسعت و اعانت کی قندیل روشن کی تھی تو وہ مرد مجاہد محمود غزنوی تھا، اس نے شر پسندوں اور فرقہ پرستوں، ظالموں اور جابروں کا صفحہ ہستی سے صفایا کیا، اور ان کی دندناتی تلواروں کو میانوں میں واپس کیا، لیکن محمود غزنوی بذات خود ان سے نبرد آزمائی اور معرکہ آرائی کے لئے میدانِ حرب میں نہیں اترا بلکہ ان کو اقلیتی طبقے کے غیر مسلموں نے ہی ان تعصب پرستوں کے روشن چراغ کو قلع قمع کرنے کے لئے طلب کیا تھا۔
اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ صبر و تحمل کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، اور ضبط کے پیمانے کو لبریز نہ ہونے دیں، ان شاءاللہ العزیز بہت جلد کفار ہند مسلمانوں سے اعانت و صیانت اور اپنے تحفظ و بقاء کے واسطے فریاد کناں ہوں گے۔
بس ہمیشہ دست بہ دعا رہیں کہ اللہ رب العزت پورے عالم کے مسلمانوں کی حفاظت فرمائے، اور انہیں ان کے مکر و فریب اور گھناؤنی سازشوں سے محفوظ رکھے، اور انہیں جسد آہنی اور جسم فولادی عطاء کرے ۔۔۔۔ آمین