عربی زبان کو قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ میںکیوں شامل نہیں کیا گیا ؟

ڈاکٹر محمد اظہر صابر
رانچی، جھارکھنڈ
حکومت ِہند کی مرکزی کابینہ نے ۲۹؍جولائی ۲۰۲۰؁ کو قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ کو منظورکرلیا۔یہ پالیسی اکیسویں صدی کی پہلی قومی تعلیمی پالیسی ہے جو چونتیس سال پہلے ۱۹۸۶؁ میں منظور شدہ قومی تعلیمی پالیسی کو ختم کرکے اس کی جگہ پر لایا جائے گا۔اس پالیسی کے بارے میں ماہرین تعلیم کی رائے الگ الگ ہے۔ کچھ لوگوں نے اسکو ایک اچھی پہل کے طور پر دیکھا ہے تو کچھ لوگوں نے اس پالیسی کو عملی جامہ پہنائے جانے میں آنے والی دشواریوں کی وجہ سے اسے صرف کاغذوں کی کاروائی بتائی ہے۔ بعض مبصرین کی رائے میں یہ پالیسی ملک کی سیکولر تعلیم کو ایک خاص جہت کی طرف لے جانے کی کوشش ہے جسکے اثرات آنے والی نسلوں پر کافی گہرے ہونگے اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب و ثقافت پر ایک منفی اثر چھوڑے گی۔
بہرحال ماہرین اور مبصرین کے تجزیے اور پیشن گوئیاں کس حد تک صحیح ثابت ہوتی ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گااور اسکے مثبت یا منفی نتائج کب اور کیسے مرتب ہونگے یہ مستقبل قریب یا مستقبل بعید کی بات ہوگی لیکن سردست اسکے اثرات جو سب سے زیادہ پڑنے والے ہیں وہ ان مضامین یا زبانوں پر پڑیںگے جو کسی کم عقلی اور عالمی حالات کی بے خبری کی وجہ سے کسی ایک خاص قوم و فرقہ یا مذہب و ملت سے جوڑ دئے گئے ہیں۔
حکومتِ ہند کی وزارتِ ترقی انسانی وسائل کے ویب سائٹ پر جو قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ کی فائنل کاپی موجود ہے اسکے پیراگراف چار کے پوائنٹ نمبر بیس میں واضح طور سے لکھا ہوا ہے:
  " 4.20: In addition to high quality offerings in Indian Languages and English, foreign languages, such as Korean, Japanies, Thai, French, German, Spainish, Portugues and Russian, will also be offered at the secondary level for students to learn about the cultures of the world and to enrich their knowledge and mobility according to their own instrest and aspirations."
ترجمہ:  ’’ہندوستانی زبانوں اور انگریزی میں اعلی معیار کی پیش کش کے علاوہ غیر ملکی زبانیں جیسے کورین، جاپانی، تھائی، فرانسیسی، جرمن، ہسپانوی، پرتگالی اور روسی سکنڈری سطح پر کورس میں پیش کی جائیںگی تاکہ طلباء و طالبات عالمی تہذیب و ثقافت کے بارے میں جان سکیں، دنیا کے بارے میں اپنی معلومات بڑھا سکیں اور اپنی دلچسپی اور خواہشات کے حساب سے نقل و حرکت کی منصوبہ مندی کر سکیں۔‘‘
اس پیراگراف میں غیر ملکی زبانوں میں عربی زبان کو شامل نہیں کیا گیا ہے حالانکہ اگر حقیقت پسندی کے ساتھ ان ساری زبانوں کا مختصراً تقابلی مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ عربی زبان ان تمام زبانوں سے ہر معاملہ میں آگے ہے چاہے وہ دنیا کے ممالک کی تعداد ہو جہاں پر عربی زبان بولی جاتی ہے یا انسانوں کی تعداد ہو جو عربی زبان بولتے ہیںیا سیر و تفریح کے مقامات ہوں یا تجارت کے اڈّے ہوں یا مال و دولت کی ریل پیل ہو یا فی کس آمدنی کا حساب ہویا ہندوستان کے لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کا معاملہ ہو یا ہندوستان سے تجارتی تعلقات ہوں یا ہندوستان میںبھیجے جانے والے غیر ملکی زرِمبادلہ میں اوّل رہنے کا معاملہ ہو، ان تمام معاملات میں وہ ممالک جہاں عربی زبان بولی جاتی ہے وہ ہندوستان کے لئے سب سے اہم ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان ممالک کی زبان یعنی عربی زبان کو اس لائق نہیں سمجھا گیا کہ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں سکنڈری سطح پر اسکولوں میں پیش کی جانے والی غیر ملکی زبانوں میں اس کو شامل کیا جائے۔
 وہ غیر ملکی زبانیں جو نئی قومی تعلیمی پالیسی میں سکنڈری سطح پر اسکولوں میں پیش کی جائیں گی  جیسے کورین، جاپانی، تھائی، فرانسیسی، جرمن، ہسپانوی، پرتگالی اور روسی ان کے اور عربی زبان کے بیچ ایک مختصر تقابلی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے عربی زبان کو اس فہرست میں شامل کیا جانا کتنا ضروری تھا لیکن خدا معلوم کیا اسباب و عوامل رہے ہونگے جنکی وجہ سے ایسا نہیں کیا گیا جبکہ تعلیمی ماہرین کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے اسکا برملا اظہار کیا ہے کہ عربی زبان کو نئی قومی تعلیمی پالیسی میں سکنڈری سطح پر اسکولوں میں پیش کی جانے والی زبانوں میں نہ رکھکر نئی نسلوں کے لئے سیر و سیا حت ، صنعت و حرفت اور روزگار ومنفعت کے بڑے دروازہ کو بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
کورین زبان: یہ زبان بنیادی طور پر دنیا کے صرف دو ملکوں میں بولی جاتی ہے جو پہلے ایک ہی ملک ہوا کرتے تھے اور ۱۹۵۳؁ میں ایک جنگ کے بعد جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے نام سے وجود میں آئے۔یہ زبان ننانوے فیصد سے زیادہ انہی دونوں ملکوں میں بولی جاتی ہے جبکہ چین ، روس اور وسطِ ایشیاء کے کچھ ممالک میں بہت ہی کم تعداد میں اس زبان کا استعمال ہوتا ہے۔ SIL International  جس کا پہلے نام Summer Institute of Linguistic  تھا ، مختلف زبانوں کے ریسرچ کرنے میں پوری دنیا میں اس انسٹی ٹیوٹ کا ایک بڑا مقام ہے اور اسکے اعداد وشمار کی پوری دنیا میں ایک قدر و قیمت ہے۔اس کا ہیڈکوارٹرریاستہائے متحدہ امریکہ کے شہرڈالِس میں ہے۔ اسی ادارہ سے۱۹۵۱؁ سے ہر سال Ethnologue نام سے ایک شمارہ نکلتا ہے جو دنیا میں موجود زبانوں پر تفصیل کے ساتھ بحث کرتاہے۔ اس شمارہ کی ۲۰۱۹ کی رپورٹ کے حساب سے دنیا میں چونتیس سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں کورین زبان کا بائیسواں نمبر ہے جو ہندوستان کے کئی علاقائی زبانوں جیسے مراٹھی، تلگو اور تمل سے بھی نیچے ہے۔ اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد صرف آٹھ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔اگر ہندوستانیوں کو روزگار دینے کے حساب سے دیکھیں تو جنوبی کوریا میںموجود ہندوستانی سفارت خانہ کے ۳۰؍نومبر ۲۰۱۹؁ کے اعداد وشمارکے مطابق صرف ۱۳۲۳۶(تیرہ ہزار دوسو چھتیس) ہندوستانی افراد روزگار کی وجہ سے وہاں قیام پذیر ہیں اور شمالی کوریا میں تو یہ تعداد صرف ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ 
جاپانی زبان: یہ زبان بنیادی طور پر صرف جاپان میں بولی جاتی ہے اور وہاں کی سرکاری زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔ننانوے فیصد سے زیادہ جاپانی بولنے والے افراد اسی ملک میں رہتے ہیں جبکہ بہت ہی تھوڑی مقدار میں لوگ پَلاَؤ نامی ملک میں اس زبان کا استعمال کرتے ہیں جہان کی اپنی آبادی ہی صرف تیس ہزار کے آس پاس ہے۔ایس آئی ایل انٹرنیشنل کے مطابق جاپانی زبان دنیا میں بولے جانے کے لحاظ سے تیرہویں پائیدان پر ہے جو کہ بنگالی زبان سے بھی کمتر ہے۔ اس کے بولنے والوں کی تعداد صرف چودہ کروڑ کے قریب ہے۔اگر ہندوستانی شہریوں کو روزگار دینے کے حساب سے دیکھا جائے تو دسمبر ۲۰۱۹؁ کے رپورٹ کے مطابق صرف چالیس ہزار کے لگ بھگ ہندوستانی جاپان میں رہتے ہیں۔
تھائی زبان:  یہ زبان اصلاً تھائی لینڈ میں بولی جاتی ہے اور وہاں کی سرکاری زبان کا درجہ اسکو حاصل ہے۔ اسکے علاوہ کمبوڈیا، ملیشیا اور برما میں بہت تھوڑے لوگ اس زبان کو بولتے ہیں۔ایس آئی ایل انٹرنیشنل کے مطابق اس زبان کا دنیا میں اٹھائیسواں نمبر ہے جوکہ بنگالی، مراٹھی اور تلگو سے بھی نیچے ہے۔ صرف چھ کروڑ لوگ اس زبان کو بولتے ہیں۔ ہندوستان کے شہریوں کے روزگار سے متعلق بات کی جائے تو تقریباً دو لاکھ ہندوستانی لوگ وہا ں روزگار کے سلسلہ میں رہتے ہیں۔
فرانسیسی زبان: یہ زبان اقوامِ متحدہ کی چھ منظور شدہ زبانوں میں سے ایک ہے۔یہ زبان بنیادی طور پر فرانس میں سب سے زیادہ بولی جاتی ہے اور وہاں کی سرکاری زبان ہے۔ لیکن فرانس کے علاوہ دنیا کے اٹھائیس اور ملکوں کی بھی سرکاری زبان ہے، جن میں اکیس ممالک برّاعظم افریقہ سے تعلق رکھتے ہیںجہاں فرانسیسیوں نے اپنی کالونیاں بنائی تھیں، پانچ ممالک برّاعظم یوروپ کے ہیں اور باقی الگ الگ برّاعظموں سے آتے ہیں۔ ایس آئی ایل انٹرنیشنل کے مطابق یہ زبان بولنے کے حساب سے پانچویں نمبر پر ہے۔اس کے بولنے والوں کی تعداد تقریباً تیس کروڑ ہے جن میں چالیس فیصد لوگ برّاعظم یوروپ میں، پینتیس فیصد لوگ برّاعظم افریقہ کے سب صحارا میں، پندرہ فیصد لوگ شمالی افریقہ اور مشرق وسطی میں، آٹھ فیصد لوگ امریکہ میں اور صرف دو فیصد لوگ ایشیاء میں رہتے ہیں۔ ہندوستان کے شہریوں کو روزگار دینے کی بات کی جائے تو صرف ایک لاکھ تیس ہزار کے لگ بھگ لوگ ان تمام اُنتیس ملکوں میں رہتے ہیں جہاں کی سرکاری زبان فرانسیسی ہے۔
جرمن زبان: یہ دنیا کے چھ ممالک کی سرکاری زبان ہونے کی حیثیت رکھتی ہے جو سب کے سب برّاعظم یوروپ سے تعلق رکھتے ہیںلیکن بنیادی طور پر جرمنی میں سب سے زیادہ تقریباً اسّی فیصد اس زبان کے بولنے والے رہتے ہیں۔ یوروپی یونین میں انگریزی اور فرانسیسی کے بعد سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ ایس آئی ایل انٹرنیشنل کے مطابق یہ زبان دنیا میں بارہویں نمبر پر ہے اور تقریباً گیارہ کروڑ لوگ اس زبان کو بولتے ہیںجو بنگالی زبان سے بھی کم ہے۔ ہندوستانی شہریوں کو روزگار فراہم کرنے کی بات کی جائے تو ۲۰۱۷؁ کے اعداد و شمار کے حساب سے ان ممالک میں جہاں جرمن زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے ایک لاکھ اسّی ہزار کے لگ بھگ لوگ معاش کی خاطر رہتے ہیں۔
ہسپانوی زبان: یہ اقوام ِمتحدہ کے چھ منظور شدہ زبانوں میں سے ایک ہے۔ اس زبان کا نام ہسپانیہ (اسپین) کے نام سے جڑا ہوا ہے کیونکہ اس زبان کا وجود یہیں سے ہوا لیکن اس زبان کے بولنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد میکسیکو میں رہتی ہے۔ یہ دنیا کے بیس ملکوں کی سرکاری زبان ہے جن میں اکثر ممالک برّاعظم جنوبی امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پوری دنیا میں اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد تقریباً پچپن کروڑ ہے۔ ایس آئی ایل انٹرنیشنل کے مطابق یہ زبان دنیا میںچوتھے نمبر کی زبان ہے۔ اگر ہندوستانیوں کو روزگار فراہم کرنے کی بات کریں تو ان تمام ممالک جن میں یہ زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں لگ بھگ ایک لاکھ ہندوستانی روزگار سے جڑے ہوئے ہیں۔
پرتگالی زبان: اس زبان کا نام بھی پرتگال سے جڑا ہوا ہے کیونکہ اس زبان کا وجود وہیں ہوا اور وہیں پروان چڑھی لیکن اس زبان کے سب سے زیادہ بولنے والوں کی تعداد برازیل میں ہے۔یہ دنیا کے نو ملکوں کی سرکاری زبان ہے اورتقریباً ستائیس کروڑ لوگ اسے بولتے ہیں۔ ایس آئی ایل انٹرنیشنل کے مطابق یہ زبان دنیا میں نویں نمبر کی زبان ہے۔ اگر ہندوستان کے لوگوں کو نوکری کے مواقع فراہم کرنے کی بات کریں تو ان تمام ممالک میں جہاں یہ زبان بولی جاتی ہے تقریباً دس ہزار ہندوستانی روزگار سے متعلق ہیں۔
روسی زبان: یہ زبان اقوام ِمتحدہ کی چھ منظور شدہ زبانوں میں سے ایک ہے اور دنیا کے گیارہ ممالک کی سرکاری زبان کی حیثیت رکھتی ہے جن میں اکثر و بیشتر وسطِ ایشیاء کے ممالک ہیں جو سویت یونین سے الگ ہوئے تھے۔ ایس آئی ایل انٹرنیشنل کے مطابق یہ زبان دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے اور اسکے بولنے والوں کی تعداد تقریباًاٹھائیس کروڑ ہے۔ اگر ہندوستانیوں کو نوکری کے حساب سے دیکھیں تو ان ممالک میں جہاں یہ زبان بولی جاتی ہے، وہاںایک لاکھ کے لگ بھگ ہندوستان کے لوگ نوکری کرتے ہیں۔
یہ وہ زبانیں ہیں جنکو نئی قومی پالیسی ۲۰۲۰ میں غیر ملکی زبان ہونے کی حیثیت سے سکنڈری سطح کے اسکولوں میں پیش کیا جائے گا تاکہ طلباء و طالبات ان زبانوں میں سے کسی کا انتخاب کر سکیں اور زبان کے ساتھ ساتھ وہا ں کے تہذیب و کلچر کو سیکھ سکیںاور ضرورت پڑنے پر وہ ان ممالک سے رابطہ میں آسکیں اور اپنی نقل و حرکت کے دائرہ کو ان ممالک تک بڑھا سکیں۔
عربی زبان:اس جگہ عربی زبان کی مختصر تفصیل بھی پیش کی جاتی ہے تاکہ موازنہ میں آسانی ہو سکے۔ یہ زبان اقوام متحدہ کی چھ منظور شدہ زبانوں میں سے ایک ہے۔یہ زبان دنیا کے چھبیس ملکوں میں سرکاری زبان کی حیثیت رکھتی ہے جو دو برّاعظموں ایشیاء اور افریقہ پر محیط ہے۔ پوری دنیا میں تقریباً چوّن کروڑ لوگ اس زبان کو بولتے ہیں۔اس کے علاوہ دنیا کے ایک سو پنچانوے ملکوں میں پھیلے لگ بھگ دو ارب مسلمانوں کی یہ مذہبی زبان جس میں وہ اپنے مذہبی امور کو انجام دیتے ہیں۔ ایس آئی ایل انٹر نیشنل کے مطابق یہ دنیا کے چھٹے نمبر کی زبان ہے۔ اگر ہندوستان کے لوگوں کو روزگار فراہم کی بات کریں تو اس معاملہ میں وہ تمام ممالک جن میں عربی زبان بولی جاتی ہے وہ بہت ہی نمایاں ہیں کیونکہ تقریباً ایک کروڑ سے زیادہ ہندوستان کے لوگ ان ممالک میں برسرِروزگار ہیں۔
اگرہندوستان میں بیرون ممالک سے آنے والی غیر ملکی زر مبادلہ کی بات کریں تو سب سے زیادہ ان ممالک سے آتی ہے جہاں کی زبان عربی ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۹؁ میں ہندوستان میں جو غیر ملکی زرِمبادلہ کی رقم موصول ہوئی ہے وہ تقریباً تیراسی اعشاریہ ایک تین دو بلین امریکی ڈالر (USD 83.132 Billion)تھی جو آج کے ہندوستانی روپیوںکے حساب سے چھ کھرب بائیس ارب نوے کروڑ بائیس لاکھ چھپن ہزار سات سو ساٹھ بنتے ہیں۔ اس میںتقریباً پچپن فیصد صرف ان چھ ممالک متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، کویت، قطر، عمان اور بحرین سے موصو ل ہوئے ہیں جہاں کی زبان عربی ہے۔
سکنڈری سطح کے اسکولوں میں عربی زبان کو غیرملکی زبانوں میں شامل نہ کئے جانے کا نقصان ہندوستان کے لوگوں کو بھی ہے۔ حکومتِ ہند کے اعداد وشمار کے مطابق پورے ملک میں ایک لاکھ چالیس ہزار سکنڈری سطح کے اسکول ہیں۔ اگر بہت محتاط طریقہ سے اندازہ لگایا جائے اور صرف پندرہ فیصد سکنڈری سطح کے اسکولوں میں عربی زبان کو طلباء و طالبات کے ذریعہ انتخاب کیا جائے اور ہر اسکول میں صرف ایک ٹیچر مان لیا جائے تو پورے ملک میں اکیس ہزار عربی زبان کے ٹیچرز کی ضرورت پیش آتی اور اکیس ہزار لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوتے لیکن ایسا ہوتے دیکھنا اربابِ حل و عقد کو پسند نہیں آتا ،مزید اتنی بڑی تعداد میں طلباء و طالبات کا عربی زبان پڑھنا اور عربی تہذیب و ثقافت سے رو برو ہونا اور اپنی تاریخ کو اُسی زبان میں جاننا شاید آج کے ہندوستان کے مزاج سے میل نہیں کھاتاہے۔
اگر ہم دنیا کی سب سے قدیم تہذیبوں کی بات کریں تو میسوپوٹامیا کا علاقہ جو موجودہ عراق، شام اور ترکی میں واقع تھا وہ دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ قدیم تہذیب والا خطہ تھا، اسکے بعد وادی سندھ کی تہذیب قدیم مانی جاتی ہے جو آج کے شمال مشرقی افغانستان سے ہندوستان کے شمال مغرب تک پھیلا ہوا تھا۔ اسکے بعد تیسرے نمبر پر مصر کی تہذیب قدیم مانی جاتی ہے جو آج کے مصر میں واقع تھا۔ قدیم تہذیبوں کے مابین رابطہ کے لحاظ سے بھی ہندوستان کا رشتہ ان خطوں سے ملتا ہے جہاں کی زبان عربی ہے ، لہذاعربی زبان اس بات کی زیادہ حقدار تھی کہ سکنڈری سطح کے اسکولوں میں اسکو پیش کیا جاتا تاکہ جو طلباء و طالبات اسکا انتخاب کرنا چاہیں وہ ایسا کرسکیں۔
پیش کردہ حقائق سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ پوری دنیا میں ہندوستان کا سب سے پرانا تعلق ان خطوں سے رہا ہے جہاں کی زبان عربی ہے اور آج بھی سب سے زیادہ ہندوستان کے لوگ تقریباً ایک کروڑ سے زیادہ ،ان ملکوں میںبر سرِروزگار ہیں جہاں کی زبان عربی ہے۔پوری دنیا میں سب سے زیادہ تقریباً پچپن فیصد غیر ملکی زر مبادلہ ہندوستان میں ان ملکوں سے آتا ہے جہاں کی زبان عربی ہے۔ ہندوستان میں تقریباًتیس کروڑ لوگ بھی اس زبان سے کسی نہ کسی طرح جڑے ہوئے ہیں۔پوری دنیا میں چوّن کروڑ لوگوں کے لئے عربی زبان یا تو انکی مادری زبان یعنی پہلی زبان ہے یا ان کے لئے دوسری زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔عربی زبان کا دائرہ برّاعظم ایشیا ء سے برّاعظم افریقہ تک پھیلا ہوا ہے۔عربی زبان دنیا کے چھبیس ملکوں کی سرکاری زبان ہے اوردنیاکے ایک سو پنچانوے ملکوں میں کسی نہ کسی صورت میں استعمال ہوتی ہے۔لیکن یہ ساری خصوصیات ہندوستان میں عربی زبان کو اس قابل نہیں بنا سکی کہ سکنڈری سطح کے اسکولوں میں بطور غیرملکی زبان کم ازکم پیش ہی کی جا سکے تاکہ جن طلباء و طالبات کو دلچسپی ہو وہ اسکوپڑھنے کے لئے انتخاب کر سکیںحالانکہ جن زبانوں کا اس مقصد سے انتخاب ہوا ہے وہ عربی زبان سے ہر زاویہ میں کمتر ہیں۔