بابری مسجد کے بعد دو تاریخی مساجد ہندوتا کے نشانے پر

مولانا جاوید اختر رضوی مصباحی
،ہوڑہ (بنگال)متعلم 
الجامعۃ الاشرفیۃ مبارک پور
(اعظم گڑھ )
یہ بات حساس مؤرخین کے درمیان مبنی بر صداقت ہے کہ 6 دسمبر1992ء کو فیض آباد (جس کا نام بدل کر ایودھیا رکھ دیا گیاہے) میں بی جے پی، وشوا ہندوپریشد اور بجرنگ دل کے ذمہ داران اور دیوانوں نے سولہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہونے والی بابری مسجد کو تباہ کرنے کے بعد پرزور انداز میں یہ نعرہ لگایا تھا:"ایودھیا تو صرف جھانکی ہے، کاشی، متھرا باقی ہیں"، یہ مکر آمیز نعرہ ہندوستان کے گوشے گوشے میں گونج رہا تھا-2018ء میں یہی ناحق صدا دوبارہ بلند ہوئی تھی شاید شرانگیز گروہوں کا اس سے مقصود مسلمانوں کے جذبہ ایمانی اور بلند معیاری کا تجزیہ اور سیاسی ذہنیت کا سروے کرنا تھا جس سے بدرجہ اتم شناسائی اجودھیا میں بھومی پوجن کی تقریب سے ہوگئی-نتيجۃً اب آرایس ایس ذیلی ہندوتا تنظیموں نے  فقط زبانی نہج پر نہیں بلکہ عملی طور پر پر تشدد انداز میں یہ مطالبہ اٹھارکھا ہے کہ متھرا کی عیدگاہ بھی درحقیقت مندر کی جگہ ہے، ان کا دعویٰ ہےکہ جس جگہ پر عیدگاہ ہے وہاں کرشنا مندر تھا جسے سن 1670 میں اورنگ زیب عالمگیر ؒ نے منہدم کردیا تھا
 یہ دعویٰ ویسا ہی ہے جیسے بابری مسجد پر رام جنم بھومی کا دعویٰ، متھرا کی شاہی عیدگاہ کے علاوہ بنارس کی مسجد بھی آر ایس ایس کے اہداف میں ہے، متھرا کی شاہی عیدگاہ والی مسجد ہندؤوں کے مطابق کرشنا کی جنم۔بھومی پے-عین اسی طرح بنارس میں گنگا کے کنارے وشواناتھ مندر سے متصل صدیوں پرانی گیان واپی مسجد کے سلسلے میں یہ  دعوہ کیا جارہا ہے کہ بادشاہ اورنگ زیب کے عہد میں 1669 ء میں تعمیر ہوئی تھی اور ابتداءً اس مسجد کی جگہ وشواناتھ مندر تھا جسے اورنگ زیب نے مسمار کردیا تھا- ہندواحیاء پرستی کی شدت پسند علمبردار بجرنگ دل نے ان دونوں مساجد کو ہٹانے کے لیے زمینی مہمات کے علاوہ سپریم کورٹ میں بھی کوششیں کی ہیں، اور اب بابری مسجد میں رام مندر کے بھومی پوجن کے بعد سخت گیر ہندؤوں کی جانب سے ان دونوں مساجد کا مطالبہ شدت سے ہورہاہے-
 متھرا کی شاہی عیدگاہ(جو ساڑھے تیرہ ایکڑ رقبہ پر مشتمل ہے) کو ختم کروانے کے لیے اور اسے کرشنا جنم۔بھومی میں ضم کرنے کے لیے کارروائیاں تیز ہوتی نظر آرہی ہیں، رام۔مندر کا خواب شرمندہء تعبیر ہوتا دیکھ کر متھرا میں اب "شری کرشن جنم بھومی نرمان نیاس‘‘ قائم کیا گیا ہے، جس میں 14 ریاستوں کے 80 سادھو سنت شامل ہیں جو اس مشن کے لیے ملک گیر مہم چلانے جارہےہیں-
 واضح رہے کہ  1992ء بابری مسجد کی مسماری کے بعد بندرا بن کے ایک شہری منوہر لال شرما نے الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دی تھی کہ شاہی مسجد میں جہاں اس سے پہلے صرف عید اور بقر عید کی نمازیں اد کی جاتی تھیں، پنچ وقتہ نمازوں کی ادائیگی پر پابندی عاید کی جائے، اس کے جواب میں اسلامی انٹر کالج کے پرنسپل عبد الحق نے عدالت میں ایک درخواست دی تھی کہ عید گاہ کی پوری زمین مسجد کی ملکیت ہے اور اس پر سری کرشنا ٹرسٹ کا قبضہ غیر قانونی ہے۔
 شدت پسند آر ایس ایس کے لئے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ متھرا عیدگاہ کے ذمہ داروں نے اس مسئلے کو پہلے ہی مقامی عدلیہ اور قانونی سطح پر حل کرلیا تھا مسجد کی زمین کا کچھ حصہ مندر کے لیے دے دیا گیاتھا اس تصفیے میں وشوہندو پریشد کے سابق سربراہ ہری دالمیا موجود تھے، معروف بزرگ اسکالر مصنف اور دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے بھی لکھا ہے کہ متھرا عیدگاہ تنازعہ کو باہمی تصفیے کے ذریعے حل کرکے اس معاملے کو بند کردیاگیاتھا جس میں کورٹ اور وشو ہندو پریشد کے لیڈر شامل تھے، لیکن پختہ معاہدے کے بعد آدھی زمین لے کر اس پر شاندار مندر تعمیر کرلینے کے باوجود اب وہ ظلم بالاے ظلم مزید آدھی باقی بچی زمین کا پھر سے مطالبہ کررہےہیں جس پر عیدگاہ کھڑی ہے۔
متھرا عیدگاہ کا دوبارہ مطالبہ اور اس کے لیے تحریک چلانے کا اعلامیہ اظہر من الشمس کی طرح واضح بیانیہ ہے کہ برہمن ہندوتوا کے علمبردار عہد شکن وعدہ خلاف اور انسانیت کے غدار ہیں، یہ نفرت پسند لوگ کبھی امن پر قائم نہیں رہتے، ان کا نظریہ ایک ہی ہے نسل پرستانہ بالادستی اور وہ اس کی خاطر بدامنی کا طوفان اٹھاتے رہیں گے، متھرا عیدگاہ کے مسئلے کو جس طرح فرمانے کی تیاریاں ہیں جس کا قضیہ کورٹ اور فریقین کے معاہدے سے بند کیاگیاتھا اس نے ثابت کردیا کہ ہندو احیاء پرستی کے علمبردار  معاہدوں میں صلیبیوں اور یہودیوں کے نقش قدم۔پر ہیں _
ہندی باشندگان کو چاہیے کہ خاموشی، تساہلی اور بے راہ روی سےہمکنار ہوکر ملک میں امن و شانتی  قائم کرنے  اور حق تلفی کے علم بردار کو دستبردار کرنے کے لیے سود بخش لائحہ عمل اختیار کیا جائے اور ملک کو نفرت و زبوحالی کا شکار بننے سے بچایا جائے -