کہانی شکاری خود شکار ہوگیا !

رئیس  صِدّیقی
 ایک دن کی بات ہے کہ ایک  بھیڑئیے کو دن بھر جب کوئی  شکار نہ ملا تو وہ مارے بھوک کے اتنا  نڈھال ہو گیا کہ وہ شام ہوتے ہی  ایک جگہ چھپ کر شکار کی تاک میں بیٹھ گیا۔ 
تھوڑی دیر بعد، بھیڑیئے کی نظر ایک لومڑی  پر پڑی ۔ لومڑی  بھیڑئیے کو دیکھ کر بھاگی۔
  بھیڑئیے  نے  بڑی تیزی  سے اسکا پیچھا کیا اور پکڑلیا۔
ہوں… آپ کا خیال تھا کہ آپ بہت چالاک ہیں۔ آپ بھاگ رہی تھیں۔یہ سوچ کر کہ آپ مجھ سے زیادہ تیز بھاگ سکتی ہیں۔ آخر کارآپ میری گرفت میں آ ہی گئیں… چہ چہ چہ… افسوس صد افسوس!
بھیڑئیے  صاحب نے اپنی کامیابی پر مسکراتے ہوئے  اپنی  خوشی کا اظہار کیا ۔
میرے مہربا ن او ر رحم دل بھائی… میں موت سے قطعی نہیں ڈرتی ہوں… مجھے معلوم ہے کہ ہم سب کو ایک دن مرنا ہے ۔  یہ     خدا کا نظام ہے ۔ مگر… مگر مجھے ایک بات کا دکھ ضرور  رہے گا ۔ 
لومڑی  صاحبہ نے بڑی  عاجزی کے ساتھ کہا۔
کس بات کا دکھ…؟  ۔  بھیڑئیے نے سوال کیا۔  
اس وقت ، اگر آپ اس ناچیز کو  اپنے  خوبصورت  پنجوں سے مارڈالیںگے تو میرے معصوم بچے بھوکے رہ جائیں گے۔ میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ میں ان کے کھانے کے لئے آج  پنیر ضرور لائوںگی۔ وہ کس قدر روئیںگے !
 لومڑی صاحبہ  نے اپنا دکھ جتایا۔
پنیر…… ؟ میں تو اس کا بڑا شوقین ہوں۔ تم کہاں سے پنیر لائوگی؟
بھیڑئیے صاحب نے دریافت  فرمایا۔
جناب ،ڈیری والے لوگ اسے کنویں کے اندر رکھتے ہیں تاکہ خراب  نہ ہو جائے  ۔  لومڑی نے  عرض کیا۔ 
کیا…؟  کنویں کے اندر  ؟  بڑی مضحکہ خیز، عجیب و غریب بات  ہے… لیکن تم کیسے اسے کنویں سے نکال لیتی ہو…؟
بھیڑئیے صاحب نے بڑی بے چینی سے معلوم کرنا چاہا۔
حضور، میں بالٹی میں بیٹھ کر کنویں کے اندر جاتی ہوں اور  بہت آسانی سے اپنے ساتھ پنیر کا بڑا سا ٹکڑا  باہر  لے آتی ہوں ۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں کچھ ہی دیر میں   پنیر کے ساتھ حاضر ہوجائوںگی۔
لومڑی صاحبہ نے فرار ہونے کی ترکیب سوچی ۔
کیا؟  ہم تم کو اجازت دیں؟  نہیں محترمہ،  میں بیوقوف نہیں ہوں۔ میں بھی تمھارے ساتھ چلوںگا۔
بھیڑئیے  صاحب نے اپنی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا ۔
 ضرور …ضرور… یہ تو میری خوش قسمتی ہوگی۔
لومڑی نے دل میں  اسے کوستے ہوئے ، مگر چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا۔
 چنانچہ دونوں ایک کنوئیں کے پاس  پہنچے۔
اس وقت  پورا  چاند آسمان پرچمک رہا تھا۔ لومڑی نے کنویں میں جھانک کر دیکھا تو اس کو کنوئیں کے اندر پانی کی سطح  پر  پورے چاند کا  گول گول  عکس بالکل صاف  نظر  آرہا تھا۔
 ارے ،  وہ  دیکھئے… کس قدر بڑا سا ، گول گول د پنیر ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا بڑا پنیر کبھی نہیں دیکھا!
لومڑی صاحبہ نے حیرت ظاہر کی۔
  تم بالکل صحیح کہہ رہی ہو۔
بھیڑئیے  صاحب نے کنویں میں جھانکتے ہوئے تصدیق فرمایا ۔۔
دیکھیے جناب ،  میں خود غرض نہیں ہوں۔ آپ خود بالٹی کے اندر بیٹھ کر کنویں سے پنیر لائیں اور آپ آدھے سے زیادہ اپنا  حصہ بھی خود ہی  لے لیں۔
لومڑی  نے بڑی انکساری سے اپنی پیش کش رکھی ۔
سنئے محترمہ ! میںبے وقوف نہیں ہوں کہ آپ کی باتوں میں آجائوں۔ آپ جلدی سے کنویں کے اندر جائیں اور پورے کا پور ا پنیر  اوپر لیکر آئیں۔ جلدی کیجیے۔ نہیں تو میںآپ کو کھانے میں  تاخیر نہیں کروں گا ۔
بھیڑئیے صاحب نے دھمکاتے ہوئے  فرمان جاری  کیا۔
 لومڑی مجبوراً  رسّی  کے ایک سرے سے بندھی  بالٹی کے اندر بیٹھ کر کنویںکے اندر جانے لگی۔
سنئے سنئے ، بھائی صاحب۔ یہ بہت بڑاپنیر ہے ۔ یقین مانئے،  میں نے اپنی زندگی میں اتنا بڑا پنیرکبھی   نہیں دیکھا۔ 
 لومڑی  نے  چلاتے ہوئے کہا ۔
 اچھا… اچھا… جلدی کرو ۔  بھیڑئیے  صاحب نے حکم دیا۔
یہ بہت بھاری ہے۔ میں اس کو اکیلے نہیں لا پائوںگی۔ آپ میری مدد فرمائیے ۔
لومڑی صاحبہ نے مجبوری ظاہر کرتے ہوئے مدد کی فر یاد کی۔
اچھا تو  میں کیسے آئوں؟  
  بھیڑئیے صاحب نے دریافت  فرمایا۔
 اس رسّی  کے دوسرے سِرے سے  ایک بالٹی بندھی ہوئی ہے۔ اس میں آپ بیٹھ جائیں۔ آپ حفاظت سے نیچے آجائیں گے ۔
لومڑی صاحبہ نے ترکیب بتائی۔
  بھیڑئیے صاحب بالٹی کے اندر کود کر بیٹھ گئے۔
چونکہ بھیڑئیے صاحب بھاری تھے اور لومڑی صاحبہ ہلکی تھیں،
اس لئے ، جیسے ہی بھیڑیابالٹی میں بیٹھتا ہے ،  لومڑی کی بالٹی اوپر آجاتی ہے اور بھیڑئیے  کی بالٹی نیچے پہنچ جاتی ہے۔
 لومڑی صاحبہ  جب اوپر آجاتی ہیں تو بھیڑئیے  سے   طنز کرتے ہوئے فرماتی ہیں۔
 اجی عقلمند قبلہ… خوب پنیر کھائیے اور ہمیشہ کے لئے وہیں سوجائیے!
میں چلتی ہوں۔ خدا حافظ!!
اس طرح  لا لچ میںآکر ،  شکاری خود  شکار ہو گیا  !!!
( کہانی کار ساہتیہ اکادمی قومی ایوارڈ یافتہ ادیبِ اطفال، پندرہ کتابوں کے مصنف، مولف، مترجم،افسانہ نگار و شاعر اور ڈی ڈی اردوو آل انڈیا ریڈیو کے سابق آئی بی ایس افسر ، واٹس ایپ گروپ  بچوں کا کیفے کے بانی ایڈمن ہیں)