دادا کی کہانی

محمد سراج عظیم
میرے دادا تھے تو انپڑھ لیکن بہت ذی فہم اور رحم دل تھے ہمارا خاندان بریلی کے بانسمنڈی علاقے کے لال مسجد کے محلے میں رہائش پذیر تھا دادا کا بکری کے چمڑے کا کاروبار تھا ہمارے محلے میں غریب امیر سب رہتے تھے ہمارا گھر بہت بڑا تھا اور ہم پھاٹک والے کہلاتے تھے ہمارے پڑوس میں جو گھر تھا وہ لوگ بہت غریب تھے ایک بھائ ٹھیلا چلاتے تھے ایک رکشہ اور ایک کی سائیکل ٹھیک کرنے کی دکان تھی ہم نے ہوش سنبھالاتو ان لوگوں کو دودھانی کے گھر سے ہی جانا دودھانی ایک بوڑھی عورت تھیں جو ان تینوں بھائیوں کی ماں تھیں خیر انکے گھر کی عورتوں کا ہمارے گھر میں انا جانا تھا اس وقت کے دستور اور رواداری کے تعلق سے ہماری دادی انکو ہر چیزبھجواتیں اور انکو اگر ضرورت ہوتی تو چیزین مانگ کر بھی لے جاتیں دادی انکی پیسے سے بھی مدد کیا کرتیں ہم لوگ اس وقت انلوگون کو چچا یا چچی کہہ کر بلاتے یہ طریقہ تھا اور انکی عزت بھی کرتے تھے ان تینوں بھائیوں میں منجھلے بھائ شمشاد چاچا تھے جو رکشہ چلاتے تھے انکی بیوی جنکو ہم چچی کہتے تھے بہت ہنس مکھ تھیں وہ اپنی غریبی میں بھی خوش رہتی تھیں۔
شمشاد چاچا صبح رکشہ لیکر نکلتے رات گئے گھر واپس اتے تھے ان کو ایک بری عادت کی لت لگ گئ تھی جوا اور شراب کی روز وہ شراب پی کر اتے پھر چچی اور ان میں لڑائ ہوتی سب لوگ ایک جگہ رہتے تھے اس لئے انکے پورے گھر میں ایک ہنگامہ ہو جاتا خیر۔ہمارے دادا کی علاقے میں بڑی عزت تھی اور لال مسجد پر تو لوگ دادا کو محلے کا بڑا مان کر جو وہ کہتے اس کو مانتے اور بے انتہا عزت کرتے تھے ہماری گلی میں کل دس گھر تھے تو ہر گھر کے متد اور عورتوں کے لئے دادا چچا تھے ہر کوئ اکر انکو اپنی بات بتاتا اور مشورہ کرتا تھا۔
ایک شمشاد چاچا کی بیوی دادا کے پاس گودام میں آئیں اور ان سے رو رو کر شمشاد چاچا کی شکایت کرنے لگیں کہ ایک ہفتے سے گھر بیٹھے ہوئے ہیں کام پر نہی جارہے ہیں رکشہ بھی پتہ نہیں کہان چھوڑ ائے ہین گھر میں فاقے ہورہے ہیں کھانے کو کچھ نہیں ہئے دادا خاموشی سے چچی کی باتین سن رہے تھے انھوں نے اپنی صدری کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور انکو دو روپئے نکال کر دئے کہ جاکر سامان لا اور کھانا پکا کر بچوں کو کھلا اور شمشاد کو میرے پاس بھیج دے وہ چلی گئیں شمشاد چاچا ڈر کی وجہ سے نہیں ائے دادا نے عصر کی نماز کے بعد مسجد سے واپسی پر دودھانی کے گھر پر آواز لگائ شمشاد او شمشاد اب چچا کے ڈر کے مارے ہاتھ پیر کانپنے لگے وہ ڈرتے ہوئے آئے ہاں چچا آیا کہتے ہوئے دادا کے سامنے کھڑے ہوگئے نظریں جھکی ہوئ تھیں دادا نے پوچھا کیوں بھئ شمشاد تیرا رکشہ کہاں ہئے دلہن کہہ رہی تھی کہین چھوڑ آیا مجھے معلوم ہئے کمبخت جوئے شراب کے چکر میں بیچ دیا ہوگا حرامخور اب کیا کرے گا بچوں کو کہاں سے پالے گا میں نے کئ بار دودھانی سے تیری گندی باتوں کی شکایت کی تھی وہ بھی بےچاری کیا کرے تو اس کے قبضے ہو تب کی بات ہئے شمشاد چاچا چپ چاپ سنتے رہے دادا کو غصہ اگیا بولے ابے کاٹھ کے الو کچھ تو منھ سے بھکر لیکن اس وقت کا بڑوں کا لحاظ اور شرم دیکھیں کہ ایک غیر آدمی کے اتنا سخت سست کہنے پر بھی لوٹ کر کوئ جواب نہیں دیا۔
دادا نے پوچھا نیا رکشہ کتنے کا آئے گا انھوں نے بتایا پانچ سو روپئے کا دادا بولے صبح میرے ساتھ چلیو بھگوان داس سائیکل والے کے یہاں پنجابی مارکیٹ تجھے رکشہ دلا دوں گا ایسا کر تو دکان کھلنے کے وقت وہاں مجھے مل میں مصبح سے بازار نبٹا کر وہین پہنچوں گا۔
خیر دوسرے دن دادا نے بھگوان داس جو دادا کو ملٹری کی بکری کی کھال سپلائ کرتے تھے کے یہاں سے شمشاد چاچا کو رکسہ دلا دیا اور گودام میں آکر بیٹھ گئے شمشاد چاچا جب رکشہ لیکر آئے تو دادا نے انکو گودام میں بلا لیا اور نوکر سے چچی کو بھی بلوا لیا۔
دادا تب بولے ہا بھئ کتنے پیسے دن بھر مین کما لے گا انھوں نے جواب دیا دس بارہ روپئے اس وقت سواری دس پانچ پیسے میں جاتی تھی اگر بہت ہوتا تو پورے رکشہ کے چار انے ملتے اسٹیشن آٹھ آنے میں رکشہ جاتا تھا تو دن بھر میں اس سے زیادہ کمائ نہیں ہوتی تھی خیر دادا بولے دیکھ بھئ شمشاد تو روز دس مہینے تک مجھے دو روپئے روز دے گا اور دلہن پانچ روپئے روز اور سن گھر کا کھانے کا سامان تو لائےگا دلہن سے پیسے مت مانگنا وہ بچیوں کی شادی کے لئے جمع کرے گی یہ بات دادا نے کہی شمشاد چاچا نے ہامی بھری اور اپنے کام میں لگ گئے۔
چاچا دادا اور چچی کو پیسے دیتے رہے دس مہینے بعد دادا نے چچی کو بلایا اور ان کو چھ سو روپئے دیتے ہوئے بولے دلہن یہ لے یہ تیرے میاں کی کمائی ہئے جو دس مہینے میں اکٹھی ہوئ تیرے پاس جتنے پیسے اکٹھے ہوئے ہیں ان سب کا بچیوں کے لئے سامان اکٹھا کر اگلے سال شادی کر دینا اللہ مالک ہئے شادی بھی ہوجائےگی فکر مت کر اور شمشاد سے روز پانچ روپئے لیتی رہنا۔
پتہ نہیں دادا کے ڈر سے یا پھر خود اللہ نے شمشاد چاچا کو سمجھ دی انھوں نے شراب اور جوا چھوڑ دیا اور نماز پڑھنے مسجد میں جانے لگے یہ تھی کہانی دادا کی یہ انھوں نے کیسی حکمت سے ایک شخص کو سدھار دیا اور اس کے ساتھ جو رحم کا معاملہ کیا تھا اس سے پیسہ واپس نہیں لیا بلکہ جو اس کا پیسہ جمع ہوا وہ بھی انھیں ہی دے دیا ایسی شخصیتیں میں نے بہت کم دیکھی ہیں اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے ۔