طِفل کدہ(تدریسیات)

 اشفاق عمر
اُن دنوںمیں مضافاتی علاقےکے ایک اسکول میں جماعت ششم میں اپنے تدریسی فرائض انجام دے رہا تھا۔میرے کِلاس رُوم میں یوں تو کئی بچے بڑی پیچیدہ شخصیات کے مالک تھے مگر ان میں ایک انوکھا بچہ بھی تھا۔ ششم جماعت کے بچوں کی اوسط عمر سے زیادہ عمر والابچہ شفیق (فرضی نام) اپنے آپ میں گم رہتا تھا۔ کلاس کی سرگرمیوں میں کم ہی شامل ہوتا تھا اور ہوتا بھی تو بے دلی سے۔ میں نے اسے کئی مرتبہ علاحدہ سے مختلف قسم کےدرسی اور  ذاتی کام بھی دیے مگر وہ ان کاموں کو پورا کرنے کے بعد پھر اپنی دنیا میں مست ہوجاتا ۔ اس کی تعلیمی ترقی کی رفتار اوسط تھی جس سے سمجھ میں آتاتھا کہ وہ بہرحال کلاس میں ہونے والی سرگرمیوں سے دور بھی نہیں ہے ۔میں نے اس کے گھریلو حالات اور دوستوں سے متعلق تحقیق کی تو پتہ چلا کہ وہ ایک نارمل بچہ ہے۔ پتہ نہیں کیوں بس کلاس روم میں گم سم رہتا تھا۔
دھیرے دھیرے وہ بچہ میرے لیے چیلنج بنتا گیاکیوں کہ عام زندگی میں وہ ایک عام بچہ تھا مگر کلاس روم میں گم سم اور لاتعلق۔ میری کئی کاروائیوں نے اس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی۔ اس بیچ ایک واقعہ ایسا ہوا جس سے مجھے ایک نیا علم حاصل ہوا اور اس بچے میں بھی انتہائی خوشگوار تبدیلی پیدا ہوگئی۔
سیلاب کے موضوع پر ہم نے کلاس میں پروجیکٹ بنانے کی منصوبہ بندی کی۔ ہم سب نے مل کر کافی تیاریاں کرلیں۔ردّی کی دکان سے’’ ممبئی کے جولائی کے سیلاب‘‘ کے دنوں کے انگریزی اخبارات لائے گئے اور ایک دن ہم نے پروجیکٹ بنانے کی شروعات کردی۔
کلاس میں سب بچے تیار بیٹھے تھے کہ کب میں انہیں الگ الگ تصاویر مع تفصیلات دوں اور وہ اپنا کام شروع کریں۔ میں نے دیکھا کہ شفیق بھی تیار بیٹھا ہے مگر اس کے اندر ویسی ہی لاتعلقی جھلک رہی تھی۔میرے ذہن میں بجلی کی طرح ایک خیال کوندا اور میں نے اسے اپنے پاس بلا لیا۔میں نے پروجیکٹ میں لگنے والے اضافی سامان اسے دیے اور کہا کہ میں تصویریں نکالتا ہوں، تم ان تصویروں کو بچوں میں بانٹنا اور جسے ضرورت ہو یہ سامان دیتے رہنا۔
اب میں اخبار سے تصاویر نکالتا جاتا اور شفیق کو دیتا جاتا۔ میں نے اسے کلاس میں تقسیم کرنے سے متعلق پوری ہدایات دے دی تھیں۔ سبھی بچے تصاویر کے لیے اتاولے ہورہے تھے مگر میں دھیمی رفتار سے اپنا کام کررہا تھا۔ شروع میں شفیق نے بے دلی سے اپنا کام کیا مگر بچے اس سے بار بار تصاویر مانگ رہے تھے۔ میں آہستہ آہستہ کام کرتا رہا اوربچے اسے تنگ کرتے رہے۔تھوڑی دیر میں اس نے سنبھالالے لیا اورپھر خوش اسلوبی سے تصاویر کی تقسیم کا کام شروع کردیا۔ اب کلاس میں صرف یہ آوازیں گونج رہی تھیں ، ’’ شفیق مجھےتصویر دو، شفیق گوند کہاں ہے؟ شفیق کاغذ دو۔۔۔۔۔۔ ‘‘ دھیرے دھیرے اس نے بچوں پر کنٹرول کرنا شروع کردیا۔
مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ دو گھنٹے میں ہی اس کے اندرتبدیلی پیدا ہوگئی۔ کہاں وہ الگ تھلگ رہتا تھا کہاں وہ سب سے گھل مل گیا۔ اسے احساس ہوگیاکہ اس کے اندر کلاس کنٹرول کی صلاحیت ہے اور اس طرح اس کے اندر کی لیڈرشپ کی صلاحیت باہر آگئی۔
اس کے بعد کا کیا کہوں!۔۔۔۔سر یعنی میں بلاشرکت غیر اس کی ملکیت ہوگیا۔ اب وہ آگے بڑھ کر ہر کام اپنے ذمہ لےلیتا تھا اور میں نے اس کے اندرہمیشہ ایک عجیب جوش پایا۔