نئی تعلیمی پالیسی 2020ایک سرسری جائزہ

ڈاکٹر سرفراز عالم
سیکریٹری آئیٹا جھارکھنڈ
موبائل نمبر:9572161345
کافی مشقت کے بعد آخر کار 29؍جولائی کو قومی تعلیمی پالیسی کو کابینہ کی منظوری مل گئی۔34سال بعد دیش کو نئی تعلیمی پالیسی کے ساتھ اب سفر کرنا پڑےگا۔یوں تو ہر ملک کی اپنی تعلیمی پالیسی ہواکرتی ہے۔آزادی کےبعد 1968میں پہلی بار قومی تعلیمی پالیسی پیش کیاگیا تھا،پھر راجیو گاندھی کے وقت 1986میں دوسری بار قومی تعلیمی پالیسی بنی۔بعد میں 1992میں کچھ ترمیمات کے بعد اس پالیسی کو آگے بڑھایاگیا،لیکن جب 2014 میں این ڈی اے کی سرکار آئی تو انہوں نے اپنے Manifestoمیں ہی اعلان کیاتھا کہ ہماری سرکار دیش کے لیے نئی تعلیمی پالیسی لائےگی۔جس کے لیے باضابطہ طور پر 2015 میں T.S Subramaniumکی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔یہ اور بات ہے کہ اس وقت کی وزیر تعلیم اسمرتی ایرانی سے ان کا تال میل نہیں بیٹھنے کی وجہ کر سبرامنیم نے 2016 میں اپنی سفارشات پیش کردی۔حالانکہ یہ مسودہ کچھ ادھورا بھی تھا،جس کے بعد دوسری کمیٹی جو I.S.R.Oکے سابق ڈائرکٹر K.Kastoori Ranjanکے قیادت میں تشکیل دی گئی۔جس نے پچھلے سال 31؍مئی 2019 کو رپورٹ پیش کی۔جس میں زبان اور دوسرے معاملے کو لے کر کافی تنازعہ بھی ہوا۔کچھ شمالی ریاستوں کے ساتھ ساتھ دوسری ریاستوں نے بھی اس ڈرافٹ کو اپنانے سے انکار کیا۔جس کے بعد کمیٹی کی طرف سے کچھ Inputاور Sugesstionبھی مانگا گیا۔آخرکار کچھ ترمیمات کے بعد اس کا نوٹیفکیشن جاری کیاگیا۔حالانکہ اب بھی اسے ایکٹ بننے میں پارلیمنٹ سے منظوری ضروری ہے۔اس کے کچھ اہم نکات کوہم جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔سب سے پہلے وزارت برائے فروغ وسائل انسانی کا نام بدل کر وزارت تعلیم کیاگیا۔ساتھ ہی پہلے سے چلے آرہے سسٹم 10+2کا خاکہ بدل کر 5+3+3+4 کیاگیا۔جس میں بچے 5سال تک کلاس ایک یا دو مکمل کرلیںگے۔اس درمیان انہیں کتابوں کا بوجھ نہیں دیاجائےگا،بلکہ وہ خود سے کھیل کھیل میں تعلیم حاصل کریںگے۔اس کے بعد تین سال تک اسے کلاس پانچ کی پڑھائی کرنی ہوگی۔جس میں وہ اپنے مقامی زبان کے علاوہ Math اور  Humanitiesکی پڑھائی کریںگے۔اس کے بعد تین سال تک یعنی 6سے8کلاس میں Skill Developmentکے تحت پروجکٹ بھی دیاجائےگا۔یعنی Codingکے ذریعہ اسے Practical Knowledge دیا جائےگا۔ اس کے بعد چار سال کلاس 9سے12 تک معیاری تعلیم دی جائےگی۔اسی طرح Higher Education میں بھی کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔جس کے تحت اگر طلباء تین سال تک گریجویشن کی پڑھائی کرکے آتےہیں تو ان کے لیے 2سال،اور جو طلباء4 سال کی پڑھائی کرکے آئیںگے ہے توان کے لیے ایک سال کا پوسٹ گریجویٹ ہوگا۔M.Phil کو ختم کیاگیا ہے۔PH.Dکورس اب چار سال کاہوگا ، اس کے ساتھ ساتھ اس پالیسی میں باہری یونیورسٹی کا دروازہ بھی کھول دیا گیا ہے۔ساتھ ہی تمام کالجوں کو ایک پلیٹ فارم میں لانے کے لیے Comman Test For Universityکا اہتمام بھی کیاگیا۔جس سے لیگل اور میڈیکل کی پڑھائی باہر رہےگی۔
Same Level_Same Education کے تحت National Research Foundationکا قیام کیاگیاہے۔حالانکہ ماہرین کا کہناہے کہ باہری یونیورسیٹی کے داخلے سے تعلیم کافی مہنگاہوسکتاہے۔ساتھ ہی کارپوریٹ کا بھی دبدبہ بڑھنے کا امکان ہے۔اس کے ساتھ ہی سماج کے دبے کچلےطبقے کے لوگ پڑھائی سے باہر بھی ہوسکتے ہیں۔تعلیمی نصاب اور کنٹینٹ پر اس پالیسی میں کافی زور دیاگیا ہے۔جس سے ویدک دور کے تعلیم اور اس زمانے کی تہذیب و ثقافت کوترجیح دینے کی کوشش کی گئی ہے۔طلباء کے ذہن میں یہ بات بھی گھر کر جانے کا اندیشہ ہے کہ پرانے زمانے میں بھارت میں نظام تعلیم بہت اچھا تھا۔ساتھ ہی بھارت کی تعلیم پوری دنیا میں بہتر تھی۔اس کے ساتھ ساتھ ویدک دور ،میتھالوجیکل ایج،رامائن،مہابھارت کےساتھ ساتھ ہندو راشٹرواد کے ایجنڈا کو بھی فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔جس پر ماہرین کا سخت اعتراض بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلی پالیسی میں جہاں Rational   Thinkingکو بڑھاوا دیاگیا تھاجس سے ہر طبقے کی کارکردگی ابھر کر سامنے آئی تھی اور ہندوستان کے Liberty,Equalityاور Fraternityکا ڈھانچہ کافی مضبوط ہوا۔ساتھ ہی مسلم دور کی مدرسے اور نظام تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی دور کے تعلیمی سسٹم کو بھی فروغ ملا،لیکن اس پالیسی میں دونوں دور کو حاشیے میں کھڑا کیاگیا ہے جس سے آنے والی نسلیں ان کےAchievementکو جان نہیں پائیںگے،ساتھ ہی دونوں قوموں سے ان کی نفرتیں بھی بڑھیںگی۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اس پالیسی میں B.J.Pحکومت اپنے خفیہ ایجنڈے کو اجاگرکرکے نئے ہندوستانیت کی سوچ کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ساتھ ہی تعلیم میں یرقانی رنگ کو گھولنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔جس سے مستقبل میں Minority Nature of Institutionکو خطرہ لاحق ہونے کااندیشہ بڑھ گیا ہے۔