جھارکھنڈ میں عربی زبان کی حالت: ایک تجزیہ

ڈاکٹر محمد اظہر صابر
عربی زبان سامی زبانوں میں سے ایک ہے۔ سام حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹوں میں سے ایک کا نام تھا۔ اس قبیلہ سے جو زبانیں وجود میں آئیںوہ سامی زبانوں کے نام سے مشہور ہوئیں۔سامی زبانوں میں عربی کے علاوہ عبرانی اور ارامی زبانیں آتی ہیں۔ عربی زبان دنیا میں تقریباً تیس کروڑ لوگوں کی مادری زبان ہے اور تقریباً ساٹھ کروڑ لوگ ایسے ہیں جو اس زبان کو سمجھ سکتے ہیں اور بول سکتے ہیں۔ عربی زبان داہنی جانب سے بائیں جانب کی طرف لکھی جاتی ہے اور اس زبان میں اٹھائیس حروف ہوتے ہیں۔ چونکہ کرہ ارض کی ایک بہت بڑی آبادی اس زبان کو بولتی اور سمجھتی ہے اس لئے اس زبان کو اقوامِ متحدہ کے چھہ مرکزی زبانوں میں شمار کیا گیاہے۔ باقی پانچ زبانیں انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی، روسی اور چینی ہیں۔ پوری دنیا میں چھبیس ایسے ممالک ہیں جہاں کی سرکاری زبان عربی ہے۔ ان ممالک کے نام اسطرح ہیں۔ الجزائر، بحرین، کوموروس، چاڈ، جیبوتی، مصر، ایریڑیریا، عراق، فلسطین، اردن، کویت، لبنان، موریتانیا، مراکش، عمان، قطر، مغربی صحارا، سعودی عرب، صومالیہ، سوڈان، شام، تیونس، متحدہ عرب امارات، یمن، مالی اور سنیگل۔ ان ممالک کے علاوہ پوری دنیا کے مسلمان اپنے مذہبی امور میں عربی زبان کا سہارا لیتے ہیں۔قرآن مجید جیسی مقدس کتاب عربی زبان میں ہی ہے۔ احادیث نبویہ ﷺ کی ساری کتابیں اسی عربی زبان میں ہیں۔ مسلمانوں کی آذانیں ،نمازیں، جمعہ کے خطبے اور نکاح کی محفلیں سب کے سب عربی زبان کے مرہونِ منت ہیں۔ 
تاریخی اعتبار سے ہندوستان میں عربی زبان کی موجودگی حضور اکرم ﷺ کی پیدائش سے پہلے کی بتائی جاتی ہے جب عرب کے تاجر حضرات ہندوستان کے جنوب مغرب میں واقع ساحلی علاقوں میں تجارت کی غرض سے آیا جایا کرتے تھے۔ اسلام کی آمد کے بعد بھی عرب قبیلوں کے قافلے تجارت کے واسطے بدستور آتے جاتے رہے۔ اس تجارتی عمل کی وجہ سے عرب کے لوگوں کو اس زمانہ میں ــ’نوایت‘ بھی کہا جاتا تھا جس کے معنی ’کشتی چلانے والے‘ کے ہوتے ہیں۔ بہت سارے عرب تاجروں نے کونکن کے علاقے میں رہائش بھی اختیار کرلی تھی۔ موجودہ صوبہ کرناٹک کے ساحلی شہر بھٹکل میں یمن کے بے شمار تاجروں نے اپنا مسکن بنالیا تھا اور وہیں کے ہوکر رہ گئے تھے۔وہیں انہوں نے شادیاں بھی کرلی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی انکی کونکنی زبان میں عربی، فارسی اور اردو کے بے شمار الفاظ پائے جاتے ہیں۔ 
آٹھویں صدی عیسوی میں جب مسلمانوں نے ہندوستان کے مغربی علاقوں پر قبضہ کرکے اپنی حکومت قائم کی تو عربی زبان کی ترقی بڑی تیزی سے ہوئی۔ چونکہ اس وقت لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہورہے تھے اور اسلام کے سارے احکام و معاملات اسی زبان میں طے ہو رہے تھے تو لوگوں کی مجبوری تھی کہ وہ فاتحین کی زبان کو سیکھیں اور اپنے مذہبی امور کو اس زبان میں انجام دیں۔ دسویں صدی عیسوی میں جب دہلی کے تخت پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا تو عربی اور فارسی زبانوں کا چلن عام ہو گیا لیکن دونوں زبانوں کا محور الگ الگ رہا، جہاں ایک طرف فارسی زبان نے سرکاری زبان کی حیثیت اختیار کرلی وہیں دوسری جانب عربی زبان مذہبی زبان کی حیثیت سے پروان چڑھنے لگی۔ دونوں زبانوں نے اس دور میں خوب ترقی حاصل کی اور بے شمار مؤرخین اور ادباء نے اپنے اپنے فن کے جوہر ان زبانوں میں خوب دکھائے۔رفتہ رفتہ جب سلطنتِ مغلیہ زوال کے راہ پر چل پڑی تو لامحالہ دونوں زبانوں پر بھی اس کا اثر پڑا۔فارسی چونکہ سرکاری زبان تھی اس وجہ سے حکومت کے زوال کا اثر اس پر زیادہ پڑنا واجبی تھا جبکہ عربی کے براہِ راست ایوان مملکت سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے اس پر زیادہ اثرنہیں پڑا اور ہمیشہ کی طرح وہ مسلمانوں کے درمیان مذہبی زبان کی حیثیت سے تسلیم کی جاتی رہی اور مسلمانوں کی زندگیوں میں باقی رہی اور مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعدبھی ہندوستان میں دینی مدارس کے قیام کی وجہ سے عربی زبان کی تازگی اور ترقی برقرار رہی۔اس زمانہ کے علماء اور فضلاء نے عربی زبان میں بے شمار کتابیں تصنیف فرمائیں اور گاؤں و دیہات، قصبہ و شہر دورے کرکے مسلمانوں کو اپنے دین سے جوڑے رکھنے کی بھرپور کوششیں کیں اور وہ لوگ اس مقصد میں کامیاب بھی رہے۔اس دوران عربی زبان نے اسلام اور مسلمانوں کی ملی و دینی شناخت اور مذہبی تشخص بحال کرنے اور اسکو برقرار رکھنے میں بڑا اہم رول ادا کیا جبکہ فارسی زبان کا بول بالا ختم ہورہا تھا اور اسکی جگہ آہستہ آہستہ اردو زبان لے رہی تھی۔
اردو زبان کے وجود میں آنے کے بعد عربی و فارسی کے بے شمار الفاظ نے اس نئی زبان میں چار چاندلگائے اور اسکی بڑھتی مقبولیت اور ترقی میں اسکا بھر پور ساتھ نبھایا۔ عربی زبان کے الفاظ نے اپنی چاشنی سے اس نئی نویلی زبان کو مرجع خلائق بنادیااور عربی زبان کے بے شمار الفاظ اردو زبان میں ایسے شیر وشکر ہوگئے کہ سیکھنے والے اور پڑھنے والے عش عش کر اٹھے اور اس نئی زبان کے زلفوں کے اسیر ہوگئے۔ عربی زبان کے الفاظ نے ا ردو زبان میں ایسی پکڑ بنالی کہ لوگوں کو فرق کرنا مشکل ہو گیا کہ یہ لفظ اردو کا ہے یا عربی کا؟کچھ الفاظ کی فہرست یہاں پر پیش کی جاتی ہے جو اصلاً عربی زبان کے الفاظ ہیں لیکن اردو میں بڑی شد و مد کے ساتھ استعمال ہوتے ہیںجیسے عدالت، عقل، دین، دنیا، فرصت، غسل، غزل،حج، حاجی، حق، حقیقت، حکمت، ایمان، انقلاب، عشق، جہنم، جنت، کفن، کتاب، لذت، مجلس، مکان، مقام، ماتم، موت، نظم، قبر، قلم، قرار، قسم، سلام، شراب، شیطان، عمر، وعدہ، واجب، یقین، ظلم، ظالم، مظلوم، زیارت، وغیرہ وغیرہ
انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں عربی زبان کو کچلنے کی پوری کوشش کی کیونکہ انکو معلوم تھا کہ انکی مخالفت سب سے زیادہ جو قوم کررہی ہے وہ مسلمان ہیں۔ اس مخالفت کا بدلہ لینے کے لئے لاکھوں علماء کو سولیوں پر چڑھا دیا۔ہزاروں مسجدوں اور مدرسوں کو نیست و نابود کر دیا اور پوری کوشش کی کہ مسلمانوں کا ربط عربی زبان سے ختم کرادیا جائے کیونکہ انکے خیال میں عربی زبان کے لاکھوں علماء و فضلاء ہی عوام الناس کو انکے خلاف کھڑا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے تھے ،لیکن لاکھوں کوششوں کے باوجود مسلمانوں کے دلوں سے وہ عربی زبان کی اہمیت و محبت نہیں نکال سکے بلکہ اسکے برعکس مسلمانوں نے دل و جان سے عربی زبان کو نہ صرف اپنائے رکھا بلکہ اسکی ترویج و ترقی کی بھی کوششوں میں حتی المقدور لگے رہے کیونکہ انکو معلوم تھا کہ اگر آج عربی زبان کو چھوڑدیںگے تو یہ قرآن کریم اور احادیثِ نبویہ ﷺ سے منھ موڑنے کے مترادف ہوگا اور اپنے اسلاف کے کاموں اور کارناموں سے اپنی آنے والی نسلوں کو کاٹنے کے برابر ہوگا۔ مسلمانوں کی اسی مضبوطی کا نتیجہ تھا کہ انگریزوں نے مجبور ہوکر فورٹ ویلیم کالج میں عربی، فارسی، اردو، سنسکرت اور بنگالی زبانوں کی تعلیم کا آغاز کروایا۔  ۱۹۱۱؁ میں مدراس یونیورسیٹی میں ایک علیحدہ شعبہ کی داغ بیل ڈالی گئی جس میں عربی، فارسی اور سنسکرت کی تعلیم ہوتی تھی۔ اسکے بعد سے تو تھوڑے تھوڑے وقفے سے اس وقت موجود یونیورسیٹوںمیں عربی زبان کی تعلیم ہونے لگی۔ الہ آباد یونیورسیٹی میں شعبہ عربی وفارسی قائم ہوا۔ بنارس ہندو یونیورسیٹی میں عربی ڈپارٹمنٹ کا قیام عمل میں آیا۔لکھنؤیونیورسیٹی میں عربی کی تعلیم شروع ہوئی۔ دہلی یونیورسیٹی میں شعبہ عر بی وجود میں آئی اور اسی طرح کیرل یونیورسیٹی میں عربی زبان و ادب کی تعلیم کی ابتدا ہوئی۔
آزادی کے بعد عربی زبان وادب کی تعلیم و تعلم کا سلسلہ یونیورسیٹیوں اور کالجوں میں بڑی تیزی سے بڑھا اور لوگوں نے اس زبان کی طرف مدارس سے باہر بھی توجہ دینی شروع کردی۔ابھی ہندوستان کے تقریباً ساٹھ یونیورسیٹیوں میں عربی کی تعلیم ہو رہی ہے۔ اسکے علاوہ سینکڑوں کالج اور اسکول ایسے ہیں جہاں عربی زبان و ادب سبجیکٹ کی حیثیت سے پڑھایا جاتا ہے۔ یہ تعداد تو وہ ہے جو سرکاری اداروں کی ہے ،اگر مدارس اسلامیہ اور وہاں پڑھنے والے بچوں کو شامل کر لیا جائے تو اسکی تعداد لاکھوں میں پہنچ جائیگی۔
جھارکھنڈ میں عربی زبان کی تعلیم کا آغاز کب ہوا یہ کہنا بہت ہی مشکل ہے لیکن یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ جب سے مسلمانوں کے قدم جھارکھنڈ کی سرزمین پر پڑے ہونگے اسی وقت سے قرآن مجید اور حدیث شریف کی وجہ سے عربی پڑھی اور سمجھی جانے لگی ہوگی کیونکہ مدارس، مساجد اور مکاتب میں عربی زبان کے قواعد قرآن فہمی کے لئے ضرور سکھائے جاتے ہونگے۔اگر ہم غیر روایتی تعلیم کی بات کریں تو عربی زبان کی تعلیم کی ابتدا کی سب سے اہم کڑی وہ نظر آتی ہے جو امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد نے ۳۰؍مارچ ۱۹۱۶؁ سے ۳۱؍دسمبر ۱۹۱۹؁ تک رانچی میں اپنی نظر بندی کے دوران ۱۹۱۷؁ میں مدرسہ اسلامیہ کے قیام کی بنیاد رکھی۔یہ ممکن ہے کہ اس وقت بھی جھارکھنڈ کے علاقے میں کئی مدارس کام کر رہے ہونگے لیکن اسکی تفصیلات واضح نہیں ہیں۔ مدرسہ اسلامیہ کے قیام کا سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن جو خدمات اتنے طویل عرصہ میں امت مسلمہ کے لئے انجام دئے جا سکتے تھے ، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ نہیں دئے جاسکے۔ البتہ اسی احاطہ میں ۱۹۷۰؁ میں مولانا آزاد کالج کا قیام ایک بڑا قدم تھا جس سے امت کے نوجوانوں کو فائدہ مل رہا ہے۔لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ مدرسہ اسلامیہ رانچی کے سوسال گزر جانے کے بعد بھی اس مدرسہ کو جو قائدانہ رول ادا کرنا چاہئے تھا وہ نہ ہوسکا۔ جھارکھنڈ کے وجود میں آنے سے پہلے یہ ادارہ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ سے ملحق تھا اور فاضل تک کی تعلیم کے لئے منظور تھا جو نئے معیار کے مطابق ایم اے کے مساوی ہوتا ہے، لیکن جھارکھنڈ بن جانے کے بعدقاعدہ کے حساب سے بہار کی طرح جھارکھنڈ میں بھی اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ برقرار رہنا چاہئے تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا اور سارے سرکاری مدرسوں کو جھارکھنڈ اکیڈمک کاؤنسل میں ضم کر دیا گیا۔ اگرچہ اس عمل سے اساتذہ کی تنخواہوں میں بھر پور فائدہ ہوا لیکن ان مدرسو ں کی خود مختاری چھین لی گئی اورسب سے زیادہ نقصان ان مدارس میں پڑھنے والے ان طلباء کا ہواجو فاضل کے بعد بھی اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ بہار میں تو ایسے طلباء کے لئے مولانا مظہر الحق عربی وفارسی یونیورسیٹی ، پٹنہ یونیورسیٹی اور کئی سارے کالجز ہیں جہاں وہ اپنی عربی کی مزید تعلیم کو مکمل کر سکتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کے صوبہ جھارکھنڈ میں ایسے طلباء کے لئے کوئی یونیورسیٹی یا کالج نہیں ہے جہاں وہ اپنی مزید تعلیم کو مکمل کر سکیں۔ ابھی حالات ایسے ہیں کہ اگر کوئی طالبعلم جھارکھنڈ میں عربی زبان و ادب میں کوئی ڈگری یا ڈپلومہ کرنا چاہے تو اسے اس کے لئے کہاں جانا ہوگا؟ کس کالج یا یونیورسیٹی کا رخ کرنا ہوگا؟ اس کا جواب ابھی تک جھارکھنڈ میں نہیں مل سکا ہے۔ یقینا جھارکھنڈ کے وہ طلبہ جو عربی زبان و ادب میں اعلی تعلیم کے خواہشمند ہیں وہ دہلی، علی گڑھ، لکھنؤ، بنارس، کولکاتا، پٹنہ اور حیدآباد جیسی جگہوں پر موجود یونیورسیٹیوں اور کالجوں میں شعبہ عربی میں داخلہ لے سکتے ہیں لیکن یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ اعلی تعلیم کے لئے اپنے صوبہ سے باہر جاکر ہر طرح کے خرچے اور پریشانیاں برداشت کرسکے۔یہ حکومتِ جھارکھنڈ کی ذمہ داری ہے کہ یہاں کے صوبائی یونیورسیٹیوں اور کالجوں میں عربی شعبہ قائم کرے تاکہ ہر طرح کے طلبہ وہاں سے استفادہ کر سکیں۔ اس طرح کی مانگ پورے زورو شور سے صوبہ جھارکھنڈ کے تعلیم یافتہ طبقہ اور قوم و ملت کے رہنماؤں اور دانشوروں کو اٹھانا چاہئے ورنہ دیر پر دیر ہوتی جائے گی اور اس صوبہ کے وہ طلباء و طالبات جو عربی زبان و ادب میں اپنا مستقبل تلاش رہے ہیں وہ برابر اپنے کو ٹھگاہوا محسوس کرتے رہیں گے۔
۲۰۱۲؁ میں رانچی یونیورسیٹی کے شعبہ اردو کے ماتحت عربی زبان سکھانے کے لئے ایک ڈپلومہ کا کورس شروع کیا گیا تھا اور یہ بڑی خوش آیند بات تھی۔ طلبہ کے درمیان جوش و خروش تھا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ کورس کے شروع ہوتے ہی تیس سے زائد طلبہ و طالبات نے عربی زبان سیکھنے اور اس میں اپنا کیریئر بنانے کی چاہت کے ساتھ دس ہزار سے بھی زیادہ فیس ادا کرکے داخلہ لے لیالیکن مایوسی ان طلباء و طالبات کے ہاتھ لگی اور یہ ڈپلومہ کورس ایک سال کی مدت بھی پوری نہ کرسکا اور شعبہ اردو کی آپسی رسہ کشی کے نذر ہو گیا۔ حد تو یہ ہوگئی کہ طلباء و طالبات فیس جمع کرنے کے باوجود نہ امتحان دے سکے اور نہ انکو اس ڈپلومہ کے سرٹیفیکٹ مل سکے۔
بہرحال ان پرانی باتوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ایک نئے آغاز کی ضرورت ہے اور اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کرتے ہوئے جہاں سارے علوم وفنون کی اشد ضرورت ہے ویہیںاپنے مذہبی زبان کی پڑھنے اور پڑھانے کا انتظام کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔صوبہ جھارکھنڈ میں مسلمانوں کے اپنے ادارے جو اقلیتی اداروں کی حیثیت سے حکومتِ جھارکھنڈ سے منظور شدہ ہیں جیسے رانچی کا مولانا آزاد کالج اور جمشیدپور کا کریم سیٹی کالج وغیرہ ان کالجوں میں شعبہ عربی کا قیام عمل میں لایا جائے اور طلباء و طالبات کو عربی پڑھنے کی طرف رغبت دلائی جائے تاکہ دوسرے صوبوں کی طرح جھارکھنڈ میں بھی عربی زبان پھل پھول سکے۔ 
 صوبہ جھارکھنڈ میں مدارس اسلامیہ کے علاوہ کچھ محدود پیمانہ پر پریٹیکل عربی زبا ن کے پڑھنے پڑھانے کی کوششیں ہو رہی ہیںجن میں ایچ اے سینٹر آف عربک اینڈ اسلامک اسٹڈیز سر فہرست ہے۔اس سینٹر میں اونلائن تعلیم کا بھی نظم ہے اور کل ملاکر سو سے زیادہ طلبہ و طالبات اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اس سینٹر نے طلبہ و طالبات کے لئے قلیل المدتی تین مہینے اور چھہ مہینے کے کورس مرتب کئے ہیں جس میں عربی زبان کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کوصحیح لب و لہجہ اور تجوید و مخارج کی رعایت کے ساتھ سکھانے کا بھی نظم کیا گیا ہے۔
یہ ساری کاوشیں اور کوششیں محدود پیمانہ پر ہیں، ان سے اتنا زیادہ فائدہ نہیں پہونچ سکتا ہے جتنا فائدہ جھارکھنڈ کے کالجوں اور یونیورسیٹیوں میں شعبہ عربی کے قیام سے ہوگا۔ اس لئے جھارکھنڈ کے تمام اربابِ فکرونظر اور تمام دانشورانِ قوم و ملت سے مؤدبانہ التماس ہے کہ اس مسئلہ کی طرف فوری طور پر توجہ مبذول کریں اور اگر سب ملکر کوشش کریں تو حکومتِ جھارکھنڈ سے اس مطالبہ کو منوایا جا سکتا ہے اور عنقریب جھارکھنڈ کے کالجوں اور یونیورسیٹیوں میں شعبہ عربی کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔