آزاد ملک، یرغمال جمہوریت

شہاب مرزا
 9595024421
‏آج 15 اگست ہے،کہنے کو تو ہم آزاد ملک میں رہ رہے ھیں لیکن افسوس آج بھی ہم غلام ھیں،پہلے ہم غیروں کے غلام تھے آج ہم اپنوں کے ہی غلام ھیں ‏‎‎‎‎‎‎‎معذرت میں نہیں سمجھتا کہ میرا ملک آزاد ہے جدھر بولنے پر آزادی نہ ہو لکھنے پر آزادی نہ ہو ہاں انگریزوں سے آزادی مل گئی لیکن غلام آج بھی ہیں ہم
بچھایا ہے جال پیراہن کوہن نے پارسائی کا
چوسا ہے لہو مذہب نے مزے لے لے کر خدائی کا
تمنائوں میں کب تک زندگی الجھائی جائے گی
کھلونے دے کر کب تک مفلسی بہلائی جائے گی
1984میں رام مندر تحریک محض اس لئے شروع کی گئی کہ اس ملک میں ویدک نظام کی برقرای کی خاطر منڈل کمیشن کا خاتمہ ہوا۔ یہ چیز اتنی آسان نہیں ہے بلکہ اس کی کڑیاں رام مندر سے لے کر بابری مسجد سے گزرتے ہوئے ارض مقدس فلسطین تا اسرائیل ریاست کے ناجائز قیام کے ذریعہ امریکی سرمایہ دارانہ نظام کی علامت ’’ڈالر‘‘ کے پوری دنیا پر نفاس پر محیط ہے۔ یہ دنیا میں سوشل جسٹس یعنی سماجی انصاف اور سرمایہ دارانہ نظام کے مابین جنگ سے تعلق رکھتی ہیں۔ یاد رہے کہ منڈل کمیشن ڈالر یعنی سرمایہ دارانہ نظام کی جڑوں کو ہلارہا تھا اور مٹھی بھر سرمایہ داروں کے پیروں تلے کی زمین کھسک رہی تھی کیونکہ منڈل کمیشن عوام الناس کیلئے عدل وانصاف اور انسانی حقوق کی راہیں ہموار کرنے میں لگا ہوا تھا۔ اگر منڈل کمیشن کی تحریک کو کامیابی مل جاتی تو بھارت کے ۱۰۰ کروڑ عوام کو غلام بنانا سرمایہ داروں کے بس کی بات نہیں تھی اس لئے اس تحریک کو ناکام کرنے کی خاطرہمیشہ کی طرح مذہب کے نام پر رام مندر کی تحریک جاری کی گئی ۔۶ دسمبر ۱۹۹۲ کے روز اس ملک عزیز میں مساوات بھائی چارہ اور انصاف کی علامت بابری مسجد کو شہید کر تیسری جنگ عظیم کا اآغازکردیا گیا تھا۔اور پھر دنیا کی تاریخی نے وہ خونی کھیل دیکھا کہ پوری انسانیت لہولہان ہوگئی۔ سفاکی کی ساری حدی ںپار کردی گئی اور ڈالر یعنی کے سرمایہ دارانہ نظام کے لئے درکا رماحول بھارت میں سازگار ہوا۔ ہر چیز کو ہر رشتے کو ہر جذبے کو اور ہر مذہب وعقیدے کو کرنسی میں تولہ جانے لگا۔ رشتوں کی تعریفیں بدل گئی۔ بھائی بھائی کا دشمن ہوا۔ بیٹا باپ کے خون کا پیاسہ ہوا ہر غرض کے ہر سو قیامت کا منظر قیامت سے پہلے دیکھنے کو ملا جبروتشدد نے جابرانہ انداز میں جمہوریت کا لبادہ پہن کر اپنے ماتھے پر انسانی خون سے اقتدار کا تلک لگایا۔ حتیٰ کہ ۲۰۱۴ کا وہ منظر بھی آگیا۔ جہاں وکاس کے پردے کے پیچھے گجرات کے سرمایہ دارانہ تجوری کے محافظ اور مسلمانو ںکے قتل عام کے مجرم’’فرضی وکاس پر وش‘‘ نریندرمودی وکاس کے ذاتی مچلکہ پر آزاد ہوا۔ اور بھارت کی معاشی تقدیر کا مالک بن بیٹھا!اس اثناء میں نوٹ بندی سے لے کر جی ایس ٹی تک معاشی غلامی نافذ کرنے کے ذریعہ عوام کی کمر کو توڑ دینے اور انہیں ایک تکڑے او رپانی کی بوند کے لے دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا گیا۔ جبکہ دوسری جانب مختلف قسم کے دیش بھکتی کے جھوٹے نعروں کے سہارے مسلمان وںکے خون سے سرزمین بھارت کو لال کردیا گیا۔ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگاتے ہوئے ذرائع ابلاغ کو پوری طرح سے دبوچ کر اور خرید کر پورے افق پر زعفرانی خونی ظلم کو کسی دیوتا کا اوتار بناکر نمودار کیاگیا۔لوگ محتاجی میں خود کشی کرتے رہے اور ایکدوسروں کو نوچتے رہیں لیکن اپنے کرب پر سیاسی افق پہ نمودار ودیوتا کے درشن سے تسکین کا مرہم لگاتے رہے۔ لیکن اس مرہم میں دائمی تسکین کے بجائے محرومی کی آتشی سوزشیں انسان کو جھلسا رہی ہے۔ اس لئے اب دوبارہ حکمی ایک یکے کے طور پر سرمایہ دارانہ نظام نے اس رام کو عین ایسے وقت پر یاد جب انتخابات قریب تھے ۔ واضح رہے کہ نوٹ بندی مہنگائی بے روزگاری کسانو ںکی خودکشیاں لوگوں کی لٹتی عزتیں اور اس طرح کے خونریز حالات پر مودی حکومت عوام سے کسی قسم کی توقع نہیںکرسکتے۔ بہر حال ایسے حالات میں بھارت کے عوام کو رام کے نام پر ہی دوبارہ ۲۰۱۹ میں جمہوری غلامی کے پیڑوں نے جکڑنا لیا ہے۔ کیونکہ اس طرح بھارت کی کرنسی پر امریکی ڈالر کا نقاس مستحکم ہوسکتا ہے ورنہ منڈل کمیشن کہ آئینے میں دیکھ کر امریکہ سے لے کر بھارت تک کا سرمایہ دارانہ نظام مارے خوف کے بھاگ جاتا۔کیونکہ یہاں کے عوام ۳ ہزار کروڑ کا گجراتی سردار کا ۱۸۰ فٹ کا مجسمہ بھی برداشت کرستے ہیں۔ نہ صرف برداشت کرسکتے ہیں۔بلکہ ملک میں ہر ساڑھے ۳ منٹ پر بھکمری کے سبب ہونے والی موت ہر لمحہ ہونے والاکھٹوا تمام جن کھاتوں سے ضبط کی گئی ۳۵۰۰ کروڑ کی رقم کا نقصان بھی برداشت کرسکتی ہیں۔نیرومودی کے ۱۳ہزار۴۰۰ کروڑ،مہسول چوکسی کے ۱۱ ہزار کروڑوجئے مالیاکے ۹ ہزار کروڑ کی لوٹ برداشت کرسکتی اور تو اور چند ٹکوں کی محتاجی پر ہزاروں کاشت کاروں کی خودکشیاں بھی برداشت کرسکتی ہیں لیکن رام مندر کی تعمیر میں رکاوٹ برداشت نہیں کرسکتے پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں...