ڈاکٹر راحت اندوری کے کلام میں قائدانہ رول

محمد مرشد
ریسرچ اسکالر ویر کنور سنگھ
 یونی ور سٹی، آرا، بہار
راحت اندوری بہ حیثیت شاعر اردو ادب کی دنیا میں ہی نہیں بل کہ عوام الناس کے حلقوں میں اپنی خاص خوبیوں کی بنیاد پر ایک دھاک جمائے ہوئے تھے اس کی جھلکیاں تمام وکمال ان کے کلام میں جا بجا دیکھنے کو ملتا ہے _ وہ منفرد لب و لہجے کے شاعر تھے _میں انھیں پہلی بار عیش باغ، لکھنؤ میں ٢٠٠٤ میں سنا تھا _مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انھیں صبح کے تین بجے کے آس پاس دعوتِ سخن دی گئی تھی _ان کی آمد پر تالیاں گونجنے لگی تھیں _ان کے اسٹیج چھوڑنے کے بعد آہستہ آہستہ مشاعرہ گاہ خالی ہونے لگا، تبھی سے ان کی عظمت کا دھاک میرے دل و دماغ میں بیٹھ گیا تھا ۔
راحت اندوری ایک بے باک شاعر کی حیثیت سے اس ابھرتے گلوبل دنیا میں رونما ہوئے اس کا اندازہ کئی مشاعرے میں دیکھنے کا اتفاق ہوا _ان کی بے باکی یہ انداز بھی کہ حکومت سے وابستہ افراد بھی اسٹیج پر جلوہ افروز ہیں اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، ان کی توجہ چاہ کر اپنا کلام انھیں نذر کرتے _واقعی راحت صاحب زندہ دل اور حاضر دماغ تھے _حکومتِ وقت کو اپنا ہدف و نشانہ بنانے میں ذرا برابر بھی دریغ نہیں کرتے اس حوالے سے ان کا کلام ملاحظہ فرمائیں کہ
اپنے حاکم کی فقیری پہ ترس آتا ہے
جو غریبوں سے پسینے کی کمائی مانگے
وہ گردن  ناپتا ہے ناپ لے
مگر  ظالم سے ڈر جانے کا نہیں
صاحب کچھ اور کام تو جیسے اسے آتا ہی نہیں
مگر وہ جھوٹ بہت شانداربولتا ہے
راحت صاحب دشمنوں کے دل و دماغ کے تار کو اس طرح جھنجھوڑ کر رکھ دینے کا ہنر خوب جانتے تھے اور اس طرح وہ دشمن کے جگر کو پاش پاش کر دیتے کہ
میں جانتا ہوں دشمن بھی کم نہیں ہے
لیکن ہمارے طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
جو ہمارے منھ سے نکلا وہی صداقت ہے
ہمارے منھ میں تمہاری زبان تھوڑی  ہے
راحت صاحب کے یہاں مختلف احساسات و جذبات کے رنگ کی آمیزش بکھرے پڑے ہیں، ان کی شاعری کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہ یک وقت قوم کے مصلح اور قائد، نوجوانوں کو ان کی عمر کے لحاظ سے نصیحتیں، تو کبھی ایمان و یقین کی گفتگو ساتھ ہی نیکی اور احسان کرنے پر اس کا علی الاعلان اظہار کرنے سے پرہیز کی تلقین، وطن سے محبت میں گرفتار اور بسا اوقات دنیا سے دل لگانے میں کنارہ کش اور اس کی محبت سے اپنے آپ کو در کنار رکھتے نظر آتے ہیں _مذکورہ باتیں دورانِ مطالعہ دیکھنے کو مل جائیں گی اس کی صداقت کے لیے ذیل کے چند اشعار اس ملاحظہ فرمائیں کہ
میرا ضمیر میرا   اعتبار   بولتا   ہے
میری زبان سے میرا اعتبار بولتا ہے
اٹھا شمشیر دکھا اپنا ہنر کیا لے گا
یہ رہی گردن، یہ سر کیا لے گا
بلاتی ہے مگر جانے کا نہیں
یہ  دنیا  ہے ادھر جانے کا نہیں
یارکشادہ ظرف ہونا چاہیے
چھلک جانے کا  پھر جانے کا نہیں
ادھر کرم کیا کسی پہ اور ادھر جتا دیا
نماز پڑھ کے آئے اور شراب مانگنے لگے
یہ زندگی سوال تھی جواب مانگنے لگے
فرشتےآکے خواب میں جواب مانگنے لگے
میں جب مر جاؤں تو میری الگ پہچان لکھ دینا
لہوسے میری  پیشانی پر ہندستان لکھ دینا
تضمین کا ایک شعر ملاحظہ ہو
دل و دماغ کے تار الجھے ہوئے تھے اس طرح
میں آنکھیں کھول کر سونے لگا تھا