پھر نیا گیجیٹgadget۔۔۔۔۔

شاہ تاج ( پونے)
پھر ایک فکر نے ذہن میں جگہ بنالی۔۔۔۔۔ اب یہ الیکٹرانک سامان خریدا جائے گا اور ریجیکٹ ہونے کے بعد اس کچرے کاکیا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ؟ حد ہو گئی۔۔۔۔ان الیکٹرونک کمپنیوں کے لئے کوئی قانون ہیں کہ نہیں۔۔ ! آئے دن کوئی نا کوئی نیا سامان مارکیٹ میں لے آتے ہیں۔۔۔میرا بس چلے تو ساری کمپنیوں کے خلاف کورٹ میں مقدمہ درج کرا دوں۔انہیں کیا حق ہے عام لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کا۔۔۔۔آئے دن نئے پیکٹ میں کوئی الیکٹرونک سامان منظرِ عام پر آ جاتا ہے۔۔۔۔ایک تو ہماری جیب دوسرے ہمارا ماحولیات( environment ) ان کمپنیوں کی نئی نئی اور جدید ترین( latest )تکنیک کا شکار بنتے جا رہے ہیں۔مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اخبار میں چھپے اس نئے فون کا پہلا شکار میں ہی بنوں گی۔۔۔۔اور ہوا بھی وہی۔۔۔
’’اب آپ ڈانٹ کھاؤ گے۔۔۔اتنے مہنگےفون کا آپ کیا کروگے۔۔؟‘‘میرا بیٹا اخبار میں نئے فون کی خوبیاں پڑھنے کے بعد ضد کر رہا تھا۔۔کہ اُسے وہ فون چاہئے۔
’’امّاں !اب میں کالج جانے والاہوں۔۔۔۔وہاں اس فون کے ساتھ کیسے جا سکتا ہوں۔۔۔؟‘‘ اس نے اپنے فون کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’کیوں۔۔۔اس فون میں کیا خرابی ہے۔۔؟‘‘میں نے فون ہاتھ میں لے کر دیکھا۔وہ ٹھیک نظر آ رہا تھا۔
’’یہ پرانا اور گھساپٹا  out dated  ہوگیاہے۔۔۔‘‘اس نے جھٹکے سے کہا۔
صاحبزادے تو فون رکھ کر چلے گئے لیکن اب میں سوچ رہی تھی کہ ایک اور کچرا۔ ۔۔ ۔!یہ جو میرے سامنے الماری ہےنا۔۔۔۔میں اسی میں e-waste   جمع کرتی ہوں۔ای- ویسٹ یعنی الیکٹرونک کچرا۔اس الماری میں کئی لیپ ٹاپ،موبائل فون،آئی- پیڈ اور ماؤس تو چوہوں کی طرح بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔اس کچرے میں آدھی سے زیادہ چیزیں بالکل درست حالت میں ہیں۔بس تیز رفتار ٹیکنالوجی نے اُنہیں پرانا بنا کریہاں پہنچا دیا ہے۔۔۔یہ سب گیجٹ ریس میں ریٹائرڈ ہرٹ ہو کر.... ریس سےباہر .... یہاں کونے میں پڑ ے ہیں۔
کافی پرانی بات ہے جب میں نے اس کچرے کے متعلق رائے دینے والوں کی بات پر عمل کرتے ہوئے ایک فون کسی دوسرے ضرورت مند تک پہنچانے کی نا کام کوشش کی تھی۔ ۔۔۔۔مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے جب  اپنی پڑوسن کو وہ فون مفت میں ،بالکل مفت میں دینے کی پیشکش کی تھی۔’’بھابھی جی۔۔ میری بیٹی نے نیا فون لے لیا ہے۔۔۔تو میں چاہتی تھی کہ اس کا پہلا فون آپ کی بیٹی استعمال کر لے۔۔ ۔۔‘‘میں نے ہچکچاتے ہوئے کہا تھا۔
’’کیوں۔۔۔۔؟‘‘
’’ کیونکہ اس کے پاس فون نہیں ہے۔۔۔‘‘میں نے آہستہ سے کہا تھا۔
’’تو کیا میں اُسے آپ کا پرانا فون دے دوں۔۔۔کیا بھابھی !آپ نے تو ہمیں بھنگار والاسمجھ لیا ہے۔۔۔‘‘
میں وہاں سے ایسی شرمندہ ہو کر اٹھی تھی کہ آج تک پڑوسن سے نظر نہیں ملا پا رہی ہوں۔وہ دن اور آج کا دن ہے۔۔۔میں نے کسی کو بھی یہ پیشکش دوبارہ نہیں کی۔
اس کچرے کو الماری میں سجا کر رکھنے کا مجھے کوئی شوق نہیں ہے۔میری دقت یہ ہے کہ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ای- ویسٹ ایسے ہی کہیں پھینک نہیں سکتی۔کیونکہ میں بہ خوبی جانتی ہوں کہ انہیں بنانے میں کتنے زہریلے اور خطرناک مادوں کا استعمال کیا گیا ہے۔اس میں پارہMercury ، پولی وینو کلورائیڈ polyvinochloride،سیسہ lead، کرومیم chromium، بیریلیم beryllium، کارڈمیئم cadmium،  گیلیم آرسینائیڈ    gallium arsenide  موجود ہیں۔۔۔۔۔۔۔!
گریٹا تھنبرگ (Greta thunberg) جیسی چھوٹی بچی ماحولیات کو ہو رہے نقصان کے تئیں سنجیدہ ہے۔۔۔لیکن یہ بڑی بڑی کمپنیاں ابھی بھی صرف اور صرف اپنے منافع کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔۔ آخرمارکیٹ میں نیا سامان لانے سےپہلے یہ انتظام اور تیاری کیوں نہیں کی  جاسکتی کہ پرانے سامان کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ ۔؟
کیا ای- ویسٹ بھی عام کچرے کی طرح کسی کباڑی یا بھنگار والے کو دے دیا جائے ۔۔۔۔؟ گلی کوچے میں گھومنے والے کباڑی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان سامانوں میں سونا،چاندی اور تانبہ موجود ہے۔۔۔اور جب وہ ان دھاتوں کو حاصل کرنے کے لئے اپنے پرانے نسخوں کا استعمال کرتے ہیں۔ تب ان طریقوں کے سبب ہوا میں ہائیڈرو کاربن ( hydrocarbon) اور برومینیٹیڈ ڈائے آکسنس  (brominated dioxins)شامل ہو کر صرف اُن غریبوں کو ہی نہیں بلکہ پورے ماحولیات کو نقصان پہنچا تے ہیں۔۔
میری مشکل یہی ہے کہ میں جانتی ہوں کہ اس کچرے کو ضائع کرنے کے لئے سائنٹیفک طریقے کی ضرورت ہے۔۔اسے نہ تو یہاں وہاں پھینکا جا سکتا ہے اور نہ جلایا جا سکتا ہے۔وہ تو شکر ہے کہ اب دھیرے دھیرے ہی سہی لیکن حکومت کی جانب سے کچھ پہل کی گئی ہے. شکر ہے  کسی کوخیال آیا تو۔۔ میں نے بھی دیر نہیں کی اور اِن آلات وغیرہ کو دوبارہ کارآمد بنانے والے مستنداور منظور شدہ ادارے اورفرد   (authorised recycler)کا پتہ معلوم کر لیا ۔۔ یہ پتہ مجھے سی ایس سی یعنی comman service centre کے ذریعے معلوم ہو سکا۔اب میں کچھ مطمئن ہوں ۔۔۔۔خیر۔۔میں تو اب ای- ویسٹ کو صحیح جگہ پہنچا دوں گی۔دوسرے کوئی بھی سامان سوچ سمجھ کر اور ضرورت کے مطابق ہی خریدوں گی۔۔۔ لیکن میرے اکیلے کے یہ کام کرنے سے کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔۔کیونکہ یہ جان لو کہ اس کچرے کے مضر اثرات ہوا،پانی اور  مٹی کے ذریعےآپ کی غذا کی پلیٹ تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔اس لیے جب بھی کوئی الیکٹرونک سامان خریدنا ہو تو سمجھداری کا مظاہرہ کریں۔جتنی ضرورت اتنی خریداری۔ ۔۔۔!