مدّتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

رضوان الدین فاروقی 
بھوپال 
دنیا میں ہر دور میں ایسے شاعر پیدا ہوئے ہیں جو اپنی ایک مخصوص چھاپ ادب اور سماج پر چھوڑ گئے۔ یہ سلسلہ میرؔ و غالبؔ سے لے کے جگر ؔ تک اور جگرؔ سے لے کے راحت اندوری تک سب پر صادق آتا ہے۔راحت اندوری جیسا زندہ دل اور بے باک شاعر کورونا جیسی مہلک بیماری کی لپیٹ میں آکر آج  ۱۱،اگست، ۰۲۰۲ ء کو شام پانچ بجے دنیا کو الوداع کہہ گئے اور اپنے چاہنے والوں کو سوگوار کرگئے۔ ابھی کل ہی ان کو اسپتال میں داخل کیا گیا اور آج صبح خبر آئی کہ وہ کورونا پوزیٹیو ہیں لیکن پھر بھی ہم لوگ مایوس نہیں تھے کہ بہت سے لوگوں نے اس درمیان کورونا سے جنگ جیتی بھی ہے ۔ لیکن شاید وہ اتنی ہی زندگی لے کر آئے تھے حالانکہ ابھی ان کی عمر ایسی نہیں تھی کہ اتنی جلدی وہ اس جنگ میں ہار جاتے لیکن مشیت ایزدی سے کس کو مفر ہے۔اللہ تعالیٰ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔آمین۔ ابھی پچھلے ماہ ہی تو اس مہلک مہاماری کے تعلق سے انہوں نے یہ شعر کہا تھا کہ
خاموشی اوڑھ کے سوئی ہیں مسجدیں ساری
کسی کی موت کا اعلان بھی نہیں ہوتا 
افسوس کہ آج ان کی موت کا اعلان ہوگیا.. 
راحت اندوری کا اصل نام راحت اللہ ہے۔ وہ یکم جنوری 1950ء کو ہندوستان کے شہر اندور میں پیدا ہوئے۔ان کے والدٹیکسٹائل مل میں ملازم تھے اوران کانام رفعت اللہ قریشی تھا، ان کی والدہ کانام مقبول النساء بیگم تھا  انہوں نے ابتدائی تعلیم اندورکے نوتن اسکول سے حاصل کی۔اسلامیہ کریمیہ کالج اندورسے 1973میں بی اے کیا، برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے 1975میں ایم اے کیااور مدھیہ پردیش بھوج اوپن یونیورسٹی سے 1985 میں اردوادب میں پی ایچ ڈی کی۔راحت قریشی جب محض اندور کالج کے طالب علم تھے تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ تیکھے نقوش اور آنبوسی رنگ کا یہ معمولی نوجوان اس کالج میں معلمی کے فرائض بھی انجام دے گا اور اپنی شاعر ی کا وہ ڈنکا بجائے گا جس کی گونج ملک کی سرحدوں سے نکل کر دنیا کے بیشتر ایوانوں تک پہونچے گی۔راحت اندوری نے ڈاکٹر عزیز اندوری کی نگرانی میں مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور وہ کالج کے استاد ہوگئے۔ راحت اندوری ایک ایسے شاعر تھے جن کے ہر شعر پر ان کے دستخط ثبت ہیں۔ ان کا انداز اس غزل سے لگایا جا سکتا ہے جو انھوں نے پہلی بار کسی ادبی نشست میں سنائی تھی۔ اس غزل کا مطلع ہے۔
مقابل آئینہ ہے اور تری گل کاریاں جیسے
سپاہی کررہا ہو جنگ کی تیاریاں جیسے
  راحت اندوری نے نوجوانی میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے ملک میں اور ملک سے باہرلاتعداد مشاعروں میں شرکت کی اور بیحد مقبول ہوئے۔ اب تک انکی شاعری کی جو کتب شائع ہو چکی ہیں ان میں 'دھوپ دھوپ، 'میرے بعد، 'پانچواں درویش، 'رت بدل گئی، 'ناراض اور ' موجود شامل ہیں۔ راحت نے اپنی شاعری پر بے شمار ایوارڈز بھی حاصل کیے ہیں۔ اردو شاعری کے ساتھ راحت اندوری نے فلموں کے لیے نغمہ نگاری بھی کی۔انھوں نے عشق، قریب، میناکشی، مشن کشمیر، پریم شکتی، آشیاں، سر، جانم، خوددار، مرڈر، منابھائی ایم بی بی ایس جیسی  مشہورفلموں میں گانے لکھے ہیں جنھیں بے حدپسندکیاگیا۔راحت اندوری نے اپنی شاعری میں عوامی جذبات اور رجحانات کا جس طرح خیال رکھا وہ ان کے ہر شعر سے ظاہر ہوتا ہے۔ انھوں نے وہ شاعری بھی کی جو کسی چھوٹے قصبے یا دیہات کے عام عوام کے دلوں گرمادے اور وہ بھی جو ہمارے عہد کے دانشوروں کو سوچنے پر مجبور کردے۔انھوں نے اپنے عہد کی جست و خیز کو جس طرح دو مصرعوں میں سمیٹا ہے اس کا ثبوت یہ چند اشعار بھی ہیں۔
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر
جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں
 مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے
راہ میں خطرے بھی ہیں لیکن ٹھہرتا کون ہے
موت کل آتی ہے آج آجائے ڈرتا کون ہے
 یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والاتھا
میں بچ بھی جاتا تو ایک روز مرنے والاتھا
ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو
دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو
 ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے
لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیما ر کردیا
دو گز سہی مگر یہ میری ملکیت تو ہے
 اے موت تو نے مجھ کو زمیندار کر دیا
 ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
جگر مرادآبادی نے دنیا سے جاتے ہوئے جو غزل کہی تھی اس کا مطلع تھا اور یہ مطلع ڈاکٹر راحت اندوری پر بھی صادق آتا ہے. 
جان کر منجملہء خاصان میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
تو سچائی یہ ہے کہ راحت اندوری کے اشعار ان کے شعر پڑھنے کا انداز اور سامعین کو اپنی گرفت میں رکھنے کا ہنر یقیناً  بہت دن تک یاد آتا رہے گا رلاتا رہے گا۔