بھروسہ

از قلم۔ شارق اعجاز عباسی
پچھلے تقریباً چار سال سے جب سے شاذیہ اور ضمیر دونوں تعلیم حاصل کرنے باہر چلے گئے تھے۔ ہم دونوں یعنی نو رجہاں بیگم اور میں اپنے نوئڈا کے تھری بیڈروم فلیٹ میں بڑی تنہائی محسوس کرتے تھے۔ ہالانکہ بچوں سے روز ہی کئی کئی بار  ویڈیو کال ہوتی تھی مگر دل کو تسلّی تو بچوں کو سامنے دیکھ کرہی حاصل ہوتی ہے۔ ۔۔پھر ہمیں سنجیدہ ملی!!!/ اب پچھلے دو سال سے وہ ہماری بیٹی-کم-پےاِنگ گیسٹ ہے۔ سنجیدہ سے میری ملاقات بڑے ڈرامائی انداز میں ہوئے۔
28' اگست کی شام کے کوئی 9.30 بجے ہونگے۔ میٹرو  اسٹیشن پرکوئی خاص گہماگہمی بھی نہ تھی۔  میں ابھی اے. ایف. سی. گیٹ سے داخل ہوا ہی تھا کہ سامنے سے ایک مختصر سی لڑکی ہانپتی کانپتی بھاگی چلی آ رہی تھی۔گھبرائی ہوئی کبھی اِدھر دیکھتی کبھی اُدھر دیکھتی اور جلدی سے بھاگ کرایسکلیٹرپر سوار ہو گئی۔ رات کا وقت تھا میں بھی گھرلوٹنےکی جلدی میں تھا اس کے پیچھے چل دیا اور دل ہی دل سوچ رہا تھا کہ آخر اس بچّی کو کس پریشانی نے آ لیا ہےکہ اسقدر بوکھلائی ہوئی ہے؟ بار بار میں اس کی طرف بڑھتا پھریہ دیکھ کر رک جاتا کہ وہ مسلسل فون پر بات کر رہی تھی۔ میٹرو آئی تو ہم دونو اس میں سوار ہو گئے اور وہ ٹھیک میرے پاس آ بیٹھی۔ وہ اس وقت اپنی پریشانی میں اسقدر کھوئی ہوئی تھی کہ شایداسے میرے وجود کا احساس ہی نہ تھا۔ اسکے پاس بیٹھ جانے سے میری جستجو قدرے کم ہو گئی۔وہ پاگلوں کی طرح اپنی کنھیں روم میٹس کو فون ملارہی تھی جنسے اسکی گفتگو کچھ یوں تھی"شافیہ تم کہاں ہو؟ کتنی دیر میں روم پر پہنچو گی؟" "ارےملیحا تم ابھی تک نہیں پہنچیں یار بڑی گڑ بڑ ہوگئی فارحہ اپّی روم پر آئی ہیں اور وہاں کوئی بھی نہیں ہے۔اب کیا ہوگا؟؟ تم جلدی سےپہنچ جائو ورنہ بہت گڑبڑ ہوجائےگی۔ مجھے پہچنے میں کچھ وقت لگ جائے گا۔اچھا میں پھر کرتی ہوں"۔
"جی ، اپّی میری روم میٹ آنے والی ہے مجھےابھی کچھ دیرلگے گی ایک سہیلی کے گھر گئی تھی۔پلیز ابّو سے مت کہیے گا وہ پریشان ہو جائیں گے۔ آپ تھوڑی دیر بیٹھیے چاہیے وغیرہ پیجئےمیں آتی ہوں" ادھر سے فارحہ نے کہا "نہیں، ہم لوگوں کو جانا ہے، رک نہیں پائینںگے!"
"پلیز اپّی میری پیاری اپّی رک جائیے نا میں آتی ہوں" تبھی اسکے فون پر ایک اور کال آئی اور دیکھتے ہی اسکا رنگ زرد پڑ گیا آنکھیں بھرآئیں اور وہ مانو فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ فون اٹھائے یا نہیں۔ مگر یہ ناممکن تھا۔ یہ اسکے ابّو کا فون تھا شاید فارحہ نے انھیں اسکی غیر موجوگی کی خبر دے دی تھی۔ا سنے بڑی ہمّت کر کے فون اٹھایا اور ادب سے سلام کر پوچھا  "ابّو آپ کیسے  ہیں؟" ادھر سے سخت لہجے میں کسی نے پوچھا "تم کہاں ہو؟؟" سنجیدہ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ کبھی اپنے ابّو سے جھوٹ نہ بولتی تھی۔ وہ ایک لمہے کےلیے رکی پھر" ابّو، الله قسم ہم اپنی ایک سہیلی سے نوٹس لینے اوکھلا گئے تھے اور وہیں دیر ہو گئی" یہ کہہ کر وہ رونے لگی۔ دوسری طرف کی وہ سخت آواز فوراً ایک شفیق باپ کی آواز میں تبدیل ہوگئی۔"رو مت میری بچّی سچ سچ بتا!!"
"ابّو یقین جانئے میں بالکل سچ بول رہی ہوں ادھر میں نکلی اور ادھر فارحہ اپّی آ گئیں اور اتفّاق سے میری روم میٹس بھی مارکیٹ گئی ہوئی تھیں۔ میرا فون نہ ملنے پر وہ پریشان ہوگئیں اور آ پکو فون کر دیا" " بیٹے سنجیدہ یہ پہلی اور آخری بار ہے آئیندہ کبھی ایسا نہ ہو ۔میں نے ہی فارحہ سے تمہاری خیر خبر لانے کو کہا تھا۔ زمانہ بڑا خراب ہے میری بچّی اورا تنی دور بیٹھ کر تمہارا باپ کچھ نہیں کرسکتا ذرا سی دیر کا مزہ زندگی بھر کی سزا بن جاتا ہے۔ اپنے ماں باپ کی عزّت تیرے ہاتھ  میں ہے۔ مجھے تجھ پر بھروسہ ہے اسی لیےتو تیری امّی کے لاکھ منع کر نےپر بھی میں نےتجھے وہاں پڑھنے بھیجا ہے۔ کسی بھی طرح کی لا پر واہی نہ کرنا اپنا خیال رکھنا۔۔"
" نہیں ابّو اب کبھی ایسا نہیں ہوگا۔آپ فکر مند نہ ہوں۔ اب میں کہیں بھی جائوں گی تو آپکوبتا کر ہی جائوں گی۔"
"جیتی رہو"
اس نے ایک لمبی سانس لی "الله تیرا شکر ہے!!!!" اس کے چہرے پر عجیب سے سکون کے تاثرات نمودار تھے۔ تھبی مجھے مسکراتا دیکھ اسے میری موجودگی کا احساس ہوا اور وہ ٹھٹھک گئی۔ میں نے از راہ ہمدردی ماجرےکی نویت پوچھ لی اور کہا "بیٹے آپ بہت اچھی ہو، مگر لڑکی کے باپ کا دل بہت چھوٹا ہوتا ہے"، "جی انکل!!" اس نے بڑے مؤدبانہ انداز میں کہا۔ چلتے چلتے میں نے اسے گھر آنے کی دعوت دے ڈالی اور اسکا اور اسکے ابّو کا فون نمبر بھی لےلیا۔ رحیم خان سے جب گفتگو ہوئی تو سنجیدہ کی تعریف کرتے کرتے انکا منہ ہی نہ تھکتا تھا۔
سنجیدہ نام ہی کی نہیں بلکہ در حقیقت عمل سے بھی سنجیدہ تھی۔ وہ اپنا ہر کام سنجیدگی کے ساتھ اور بخوبی انجام دیتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے دوسرے بھائی بہنوں کے مقابلے اپنے ابّو کی بہت چہیتی تھی۔ چھوٹا قد، کھڑا ناک نقشہ، صاف شفاف رنگت، دبلی پتلی، بلا کی پھرتیلی، فرمانبردار، غرض یہ کہ اسکی عمر کے بچوں میں جو بھی خوبیاں ہو سکتی تھیں وہ کم و بیش اس میں موجود تھیں۔ اسی لیے ابّو کو ا سپر بے حد ناز تھا اورکیوں نہ ہوتا آخر جب جب ابّو نے اس سے پڑھائی میں اچھے نمبروں کی فرمائش کی اس نے ہمیشہ انکی امید سے زیادہ نمبر لا کر دکھائی۔ اس سال بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اس نے اپنے ایس ایس سی کے امتحان میں اوّل آ کر ابّا جان کی چھاتی چوڑی کردی تھی وہ بڑے فخر سے ہر کس و ناکس کو اپنی بیٹی کا رزلٹ سناتے اور اسکا منہ بھی میٹھا کراتے تھے۔
رخصت کرتے وقت آبدیدہ نگاہوں سے ابّو نے کہا تھا۔" ویسے مجھےتم پر پورا بھروسہ ہے۔مگریہ عمر بڑی موزی عمر ہے میری بچّی ذرا سا پیر ڈگمگایا اور سب کچھ کھو جانے کا ڈر لاحق رہتا ہے۔ کوئی بھی ایسا کام نہ کر بیٹھنا کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔ ذرا سی دیر کا مزہ اکثر عمر بھر کی سزا بن کر رہ جاتا ہے۔ تمہارے ہاتھ میں ایک بڑی ذمّہ داری ہے اپنی اور اپنےبڑوں کہ عزّت کی حفاظت کرنا۔ گھر پر تو سبھی ایک دوسرے کی خبر رکھتے ہیں مگر وہاں غیر جگہ یہ سب کچھ تمہیں تنہا ہی سنبھالنا پڑے گا۔خیال رکھناکہیں کوئی چوک نہ ہو جائے۔ قدم قدم پر ایسےلالچ اور مواقے آئیںگے جنہیں ٹھکرانا قطعی نا ممکن نظر آ ۓگا۔ مگر میں جانتا ہوں تم اپنے جذبات کوبخوبی کنٹرول کر سکو گی۔ ورنہ!!!۔۔۔۔" اتنا کہہ کر ابّو کی آواز بھرّا گئی اور وہ یکایک خاموش ہوگئی۔