ہمدردی

کہانی
 
 رئیس  صِدّیقی 
یہ اُس وقت کی بات ہے جب میں قریب آٹھ نو سال کا تھا اور اپنی نانی  کے یہاں گرمیوں کی چھٹیاں منانے لال پور گیا ہوا تھا۔
ایک دن میں اپنے شرارتی دوستوں کے ساتھ،  جنھوں نے کسی حد تک مجھے بھی اپنے رنگ میں رنگ لیا تھا،  اپنے کھیت گیا۔
  کھیت کے پاس ایک کنواں تھا۔ ہم لوگ گرمی سے بچنے کے لیے اکثر وہاں بیٹھا کرتے تھے۔
   روزانہ کی طرح،  اس دن بھی ہم لوگ کنویں کی منڈیر  پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اس دن     ایک راہ گیر کا اُدھر سے گذر ہوا۔ شاید وہ اجنبی آدمی  پاس کے گائوں کا تھا ۔ہم لوگوں کو ایک شرارت سوجھی اور اس پر عمل کرڈالا۔
   میں چِلّا چِلّا کر رونے لگا۔
ایں۔۔۔ایں۔۔۔۔ایں !
 وہ آدمی مجھے روتا دیکھ کر وہیں ٹھِٹک گیا۔ پھر میرے  پاس آکر میرے رونے کی وجہ پوچھی۔ 
میں نے منہ بسور کر  روتے ہوئے کہا۔
’ایں ایں۔ میری ٹوپی اس کنویں میں گرگئی ہے۔ ایں ایں ایں۔ اگر ٹوپی مجھے نہیں ملی تو میری نانی مجھے بہت  ڈانٹیں گی۔ ہو سکتا ہے پٹائی بھی کریں ۔
   پہلے اس اجنبی راہ گیر  نے بڑے غور سے میرا معصوم چہرا دیکھا۔ کچھ سوچا۔پھر اپنی قمیص اتاری اور کنویں میں سیڑھی سے نیچے اُتر کر میری ٹوپی تلاش کرنے لگا۔
 ادھر ہم لوگوں نے اس کے کپڑے اٹھائے اور بھاگ کر ایک قریب کی جگہ پر  چھپا دئے۔
    جب تھوڑی دیر کے بعد ہم واپس آئے  تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ آدمی کنویں سے اپنا آدھا دھڑ  باہر نکالے بڑی حیرت سے ہم لوگوں کو تک رہا ہے۔ پھر وہ کنویں سے باہر آیا اور بولا — 
  بیٹا، ہمارے کپڑے کہاں ہیں؟— اور ہاں، تمھاری ٹوپی  تو مجھے  ملی  نہیں۔ اچھا ایسا کرو ، تم مجھ سے اس ٹوپی کے پیسے لے لو  اور  گائوں  کے  بازار سے خرید لو  تاکہ تم  اپنی  نانی  کے غصہ سے بچ جائو۔
    یہ سننا تھا کہ مجھے بڑی شرمندگی ہوئی۔ جیسے میرا ضمیر مجھ پر ملامت کرنے لگا ہو ۔ میں جلدی سے دوڑ کر اس نیک آدمی کے کپڑے  واپس لایا اور اس کو دیتے ہوئے بڑی مدھم آواز میں بولا۔
           میں بہت شرمندہ ہوں!  آپکی  ہمدردی  کے لئے بہت بہت شکریہ!!
    میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اب ــ میںکبھی بھی،  اسطرح کی کوئی بھی شرارت نہیں کرونگا !!!
 ( کہانی کار ساہتیہ اکادمی قومی ایوارڈ یافتہ ادیبِ اطفال، پندرہ کتابوں کے مصنف، مولف، مترجم،افسانہ نگار و شاعر اور ڈی ڈی اردوو آل انڈیا ریڈیو کے سابق آئی بی ایس افسر ، واٹس ایپ گروپ  بچوں کا کیفے کے بانی ایڈمن ہیں)