"حصے دار "

ممتاز نیازی
  (پہلا منطر)
   آفاق دوڑتا ہوا گھر میں داخل ہوا۔
"ممٌی!!! ممٌی۔۔۔ آج میں بہت خوش ہوں۔۔۔ میری مدد کیجیے مجھے کچھ لکھنا ہے۔۔ میری اسکول میں مقابلہ ہے جس میں مجھے اپنے گھر کے
متعلق کوئی خاص واقعہ یا ق۔۔قصٌہ لکھنا ہے۔"
ماں حیران رہ گئی۔۔ "ارے بیٹا!! تم کیا لکھو گے؟؟
آفاق:"کیوں!! مجھے یاد ہے مٌما!! جب ابٌو کی نوکری چلی گئ تھی اور ماموں جان نے ہمیں راشن بھر دیا تھاتم کتنی خوش ہو گئ تھیں۔۔
ماں ماں!! میں وہی واقعہ لکھوں گا۔۔موبائل سے ہماری ٹیچر کو بھیجنا ہے۔۔"
(دوسرا منظر )
دوسری طرف ریشم اپنی دیدی کو بتارہی تھی کہ " دیدی مجھے آج تم پر ایک قصہ لکھنا ہے، جب چاند رات کو تم نے میری ضد پر اپنی نئی قمیص کاٹ کردو گھنٹے میں میرے لئےمرغی والا فراک سیا تھادیدی۔۔مجھے یاد ہے۔۔ سچ دیدی آپ مہان ہو۔۔ مجھ سے بہت پیار کرتی ہو"۔۔
  (تیسرا منظر )
"بھیٌا پلیز  میری اصلاح کر دیجئے نا!!"
کیا بات ہے اربیہ!! آخر ایسا کیا لکھ لیا تم نے!! جس میں تمہیں میری اصلاح کی ضرورت پیش آرہی ہے؟؟؟"
"بھیا میں نے وہ واقعہ لکھا ہے جب آپ نے میری دوا لانے کے لیے اپنا گلٌہ توڑ دیا تھا۔۔"
"اوہ اربیہ!!! تم اتنا سوچ لیتی ہو؟؟ مجھے تم پر فخر ہے میری بہن"
"نہیں بھیا!! آپ ہی تو ہیں جو ہمیںصحیح راہ بتاتے ہیں، غلط صحیح کا فرق بتاتے ہیں، قربانی اور ایثار سیکھاتے ہیں۔۔"
الماس باجی نے الطاف سرکو فون پر پوچھا۔۔ " کیاہوا سر!!! ہمارے وہ کہانی قصٌہ مقابلے کا؟"
الطاف سر نے پْرجوش لہجہ میں جواب دیا۔۔
"ارے باجی!! سارے اساتذہ نے بچوں کے موبائل پر میسج بھیجا تھا اور ہمیں غیر معمولی رسپانس ملا ہے"۔۔
"اچھا یہ تو بہت اچھی بات ہے سر !! آپ لوگوں نے لاک ڈاؤن میں گھر پر رہ کر بھی بہت محنت کی۔۔"
"باجی!! کل ۴۵ کہانیاں موصول ہوئیں بچوں سے اور بچوں نے خود پر بیتے ہوئے واقعات ہی لکھے ہیں۔۔
"بہت خوب الطاف سر۔۔اب میری بات غور سے سنیے۔۔ ہر ٹیچر سے یہ کہنا ہے ان بچوں میں سے جو بہت غریب، مستحق، نادار بچے ہیں ان کو منتخب کیجئے اور ان کی کہانی کو دو دو ہزار روپے کا انعام دیجئے۔۔"
الماس باجی نے الطاف سر کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔
"لیکن باجی اگر ان کی کہانی انعام۔کے لائق نہیں ہوئی تو؟؟؟ الطاف سر نے بہت تذبذب کےساتھ پوچھا۔۔
"تب بھی کوئی بات نہیں۔۔ان کو انعام میں یہ رقم دے دیجیئے۔۔ اور بقیہ تمام شریک طلباء کو بھی دو۔۔دوسو روپے انعام دیجئے ۔۔ اور یہ ساری رقم آپ مجھ سے لے لیجئے۔۔
الطاف سر نے ایک بار پھر متعجب ہو کر پوچھا۔۔"لیکن ایسا کیوں باجی؟؟؟"
الماس مس نے جواب دیا۔۔" دیکھئے سر۔۔!! چھوٹے بچے بھی بہت غیرت مند ہوتے ہیں۔۔وہ اکثر اپنے گھریلو حالات نہیں بتاتے۔۔اگر ہم انھیں روپے دے کر مدد کرتے تو انھیں لگتا انھیں بھیک دی جا رہی ہے۔۔ اس لیے جب ضرورت مند بچوں کو ان کی کہانی کے عوض انعام میں روپے ملیں گے تو وہ خوش ہوگے اور ان کے والدین بھی خوشی خوشی یہ روپے لیں گے۔۔"
"واہ باجی!! مان گئے آپ کو۔!!! غریب بچوں کی مدد کا کیا زبردست طریقہ نکالا ہے آپ نے۔۔!الطاف سر کی آواز میں بہت جوش اور مسرت تھا۔۔"
باجی!! یہ رقم انعام کی آپ اکیلے نہیں دیں گی۔۔ ہم سارے ٹیچرز مل کر دیں گے۔۔ اس طرح سے مستحق بچوں کی مدد بھی ہوگی اور ان میں لکھنے کا شوق بھی پیدا ہوگا۔۔ بہت خوب ۔۔"
"جی ہاں۔۔ الطاف سر۔۔ "الماس باجی سنجیدہ ہو گئیں ۔۔ ہماری خوشحال زندگی کے حصٌےدار ہمارےیہ معصوم ننھے طلبہ بھی تو ہیں۔۔ ہمیں ان کے تئیں ایماندار رہنا چاہیے۔۔ یہ ہیں تو ہم ہیں سر۔۔۔
" جی باجی۔۔سمجھ گیا میں"
الطاف سر ایک بار پھر خوشیلے لہجے میں بولے۔۔ "واقعی غریب طلبہ کی مدد کرنے کا ایک نادر طریقہ ہے یہ۔۔ان کو بتائے بغیر ان کی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں پوری کرنا۔۔ ہر شریک طلبہ کو انعام دینا۔۔ سچ مچ ان کی خوشیوں میں شریک ہونا۔۔ اس حصٌہ داری میں تو بہت مزہ ہے۔۔ اطمینان ہے۔۔ اب ہر ماہ ہم یہ مقابلے کروائیں گے۔۔ "
الطاف سر نےخداحافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔۔
الماس باجی کے چہرے پر ایک سکون ۔۔ ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ  اور آنکھیں نم تھیں۔۔ "میرے مولی!! شکر گزار ہوں کہ تو نے مجھے ان بچوں کی خوشیوں کا حصہ دار بنایا ۔۔۔