عید کی خوشی

مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ
عید کا چاند نظر آچکا تھا ، گھر میں ایک طرح کی خوشی تھی، ہر شخص اپنی اپنی تیاروں میں مشغول تھا، ۔۔۔ چلو۔۔‌ صبح عید ہے۔۔ جلدی نہالیں گے۔۔ صبح جلدی اٹھنا بھی ہے اس لئے جلدی جلدی کھانا وغیرہ سے فارغ ہوکر سو جاتے ہیں، ۔۔ کہ اچانک امی کی آواز آئی۔۔۔۔ نفر۔۔ چلو سب کو یہاں بلاؤ۔۔ جی امی۔
والدہ کرسی پر بیٹھی کچھ سوچ رہی تھیں اور دو بیٹے اور ایک بیٹی فرش پر بیٹھے ماں کا چہرہ تک رہے تھے۔
امی جان آپ کس خیالوں میں گم ہیں؟  حامد نے پوچھا۔
ماں متوجہ ہوئی اور بول پڑییں ۔۔۔ میرے بچو۔ کیا تم سب نے عید کی تیاریاں کر لیں؟۔ سب نے بیک زبان ہوکر کہا::۔ جی امی ہماری سب تیاریاں مکمل ہیں۔ بس صبح کا انتظار ہے۔
ماں نے۔ پوچھا۔ میرے بچو۔ تمہارے دوست ضیاء کا کیا حال ہے۔ کیا اس کے پاس بھی کچھ ہے جس سے وہ عید کی خوشی منا سکے ( ضیا ایک یتیم بچہ تھا جو حامد اور نفر کا قریبی ساتھی تھا)  ماں کی یہ بات سن کر دونوں بھائی کے سر جھک گئے،۔ اور دونوں بھائی ضیاء کی یاد میں کھو گئے۔
ماں نے دونوں بھائ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،،
بیٹا ۔ اصل خوشی وہ ہے جس سے تم دوسروں کو خوشی دے سکو۔ تہوار نام ہے خوشی بانٹنے کا، یہ کیا کہ تم اپنی ہی خوشی میں مگن ہو اور تمہیں کسی کا حتی کہ تمہیں اپنے دوست کی بھی کوئی خبر نہیں)
سنو بیٹے۔۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  دیکھا کچھ لڑکے ہیں جو زرق برق لباس زیب تن کئے ہیں اور کھیل کود میں مشغول ہیں لیکن انہیں میں سے ایک بچہ ہے جو پھٹا پرانا لباس پہنے ہوئے ہے اور ایک کونہ میں غمگین حالت میں بیٹھا ہوا ہے ، یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تعجب ہوا کہ آج خوشی کا دن ہے سب لڑکے خوشی منانے میں مصروف ہیں اور یہ بچہ غمگین بیٹھا ہے آخر ماجرا کیا ہے؟۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کے پاس گئے اور پوچھا،
پیارے بچے ۔۔ تم اداس کیوں بیٹھے ہو؟۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ آج عید ہے خوشی کا دن ہے اتنے میں وہ بچہ بول پڑا۔۔ میرے پیارے نبی۔۔ یقینا آج خوشی کا دن ہے لیکن میرا کوئی سہارا نہیں جس کے سہارے میں خوشی مناؤں۔ میرے والد آپ کے ساتھ جنگ میں لڑتے ہوئے شہید ہوگئے،۔ والدہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی میں اکیلا تن تنہا رہ گیا ہوں کاش میرے بھی والدین ہوتے تو میں بھی آج نیا لباس پہنتا اور ان بچوں کے ساتھ خوشی مناتا۔
اتنا سننا تھا کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسوں جاری ہو گیا اور اس بچے کی انگلی پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور حضرت اماں عائشہ صدیقہ رض سے فرمایا کہ ۔ عائشہ۔ اس بچہ کو نہلا دھلا کر صاف کپڑے پہنا کر تیار کرو اور اسے بھی اپنی خوشی میں شریک کرو۔۔ چنانچہ اماں عائشہ صدیقہ رض نے اس بچہ کو نہلا دھلا کر صاف کپڑے پہنا دیا اور حضور صلی االلہ علیہ کے حوالہ کردیا۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچہ سے کہاکہ یاد رکھو۔ آج سے تمہارا باپ۔ محمد۔ تمہای ماں۔ عائشہ۔
تمہارے بھائی حسن و حسین، اور تمہاری بہن فاطمہ ہیں۔
بچہ یہ سن کر خوشی سے جھوم اٹھا اور وہ بھی عید کی خوشی منانے میں مصروف ہوگیا۔
میرے بیٹے۔۔۔۔ کیا دیکھا تم نے  ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی خوشی کس طرح منائی۔
اپنی خوشی میں آپ نے دوسروں کو بھی شریک کیا، کیا تمہیں اپنے نبی کا طریقہ اپنانا نہیں چاہیے؟
دونوں بھائیوں نے جواب دیا ۔۔ امی ۔ اگر ہم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو نہ اپنائیں تو ہم صرف نام کے مسلمان ہیں۔
امی۔۔ تو پھر جلدی کرو اور جاکر ضیا کی خبر لو اسے بھی اپنی خوشی میں شریک کرو دونوں بھائی اٹھے اور اپنا ایک ایک جوڑا نکال کر ضیا کے پاس پہنچ گئے،
ضیا اس طرح کی خاطر سے بہت خوش ہوا اور وہ بھی عید کی خوشی سے محظوظ ہورہا تھا۔