راجستھان کی سیاسی اٹھا پٹک

 ( از : ۔ قلم محمد ہاشم القاسمی ۔
خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال  فون ۹۹۳۳۵۹۸۵۲۸)
جمو کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبد اللہ دونوں پر ایک ہی طرح کا قانون  پبلک سیفٹی ایکٹ یعنی ( پی ایس اے ) کی تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا مگر عمر عبد اللہ باہر آچکے ہیں ،جبکہ محبوبہ مفتی ابھی تک حراست میں ہیں ۔کیا عمر عبد اللہ کے باہر آنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ سچن پائلٹ (سابق ڈپٹی وزیر اعلیٰ راجستھان )کے بہنوئی ہیں ؟
 ایسا چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیس بھگیل نے کہا ہے۔سچن پائلٹ کی کانگریس پارٹی سے بغاوت اور راجستھان میں کامیابی کے ساتھ چل رہے اشوک گہلوت کی حکومت گرانے کی کوشش کو عمر عبد اللہ یا فاروق عبد اللہ کی رہائی سے جوڑے جانے پر فاروق عبد اللہ بری طرح بھڑک گئے ہیں ۔اورانہوں نے ٹویٹ کر کے کہا ہے کہ وہ اس معاملہ میں چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیس بھگیل کے خلاف قانونی کار روائی کرینگے۔
در اصل سچن پائلٹ کی شادی فاروق عبد اللہ کی بیٹی اور عمر عبد اللہ کی بہن سارہ عبد اللہ سے ہوئی ہے۔وہ ہندوستان کی تاریخ میں ایک ایسی خاتون ہیں ،جن کے پاب یعنی فاروق عبد اللہ بھائی یعنی عمر عبد اللہ اور دادا یعنی شیخ عبد اللہ وزیر اعلی رہ چکے ہیں ۔اور اگر کسی طرح سچن پائلٹ بھی وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ ایک ایسا ریکارڈ ثابت ہوگا جو شاید آنے والے دنوں میں کبھی کوئی خاتون اس کا  برابری نہیں کر پائینگی ۔واضح ہوکہ کشمیر میں دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی سے پہلے وہاں کے موجود تینوں سابق وزراء اعلیٰ کو حراست میں لیا گیا تھا ۔ فاروق عبد اللہ کو عمر عبد اللہ سے دو ہفتہ پہلے رہا کیا گیا تھا جب کہ عمر عبد اللہ تقریباََ ۲۳۲ دن جیل میں تھے ۔سارہ عبد اللہ۔ جو  اب سارہ پائلٹ ہوچکی ہیں انہوں نے سپریم کورٹ میں اپنے بھائی فاروق عبد اللہ کی رہائی کے لئے اپیل کی تھی ۔ 
لیکن سیاسی تبصرہ نگاروں، اور لیڈران کا ماننا ہے کہ فاروق عبد اللہ اور عمر عبد اللہ کی رہا ئی کے پسِ پردہ مودی حکومت کے ساتھ کوئی نہ کوئی ڈیل ضرور ہے ۔ابھی چونکہ پورے ملک میں کرونا وائرس کی وبا نے ہر طرف تباہی مچا رکھی ہے ۔اس لئے اس کا ظہور جمو کشمیر کی سیاست میںوہاں کے انتخاب کے وقت پورا کھل کر سامنے آجائے گا ۔
 راجستھان میں کانگریس حکومت کو گرانے کی اٹھا پٹک ، ممبران کی خرید فروخت، لیڈران کی فون ٹیپنگ ،وغیرہ گھناؤنی حرکت سامنے آنے کے بعد فی الحال معاملہ کورٹ میں جا چکا ہے اور ہر دن بلکہ ہر پل ایک نیا موڑ سامنے آرہا ہے جو اس سے پہلے کسی بھی صوبہ میںدیکھنے کو نہیں ملا ہے۔
 دسمبر ۲۰۱۸ ؁ ء راجستھان کے۲۰۰ سیٹوں  والے  اسمبلی انتخاب میں کانگریس پارٹی اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ کی مسلسل جد و جہد کی بدولت ۹۹ سیٹیں نکالنے میں کامیاب ہوئی ۔جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے  اپنے  دگج نیتاؤں اور وزیر اعظم نریندر مودی کی مضبوط حمایت کے باوجود اپنی سرکار بچانے میں ناکام رہیں  اور ۷۳  سیٹیوں پر سمٹ کر رہ گئیں ۔آزاد امید واروں نے ۱۳ سیٹیں حاصل کیں ۔بی ایس پی کو ۶ سیٹیں ملی جبکہ راسٹریہ لوک تانترک پارٹی کو ۳ سی پی آئی کو ۲  اور آر ایل ٹی کو ایک سیٹ حاصل ہوئی ۔
 راجستھان میں حکومت سازی کے لئے کانگریس پارٹی ۹۹ سیٹیوں کے ساتھ سب سے آگے تھی ۔مگر وزیر اعلیٰ کی کرسی میں کون بر اجمان ہوگا ابتک یہ صاف نہیں تھا ۔ وزیر اعلیٰ کی دوڑ میں اشوک گہلوٹ کے مقابل میں راجستھان کانگریس پارٹی کے صدر، نوجوان اور خوب رو لیڈر سچن پائلٹ بھی مضبوط دعویداربن کر سامنے آگئے ۔اب سمجھانے بجھانے کو دور دورہ شروع ہوا اس میں کئی دن بیت گئے ہر طرف چرچا ہونے لگا کوئی اشوک گہلوت کو وزیر اعلیٰ کے لئے موزوں بتانے لگا ،کوئی نوجوانوں کو موقع دئے جانے کی وکالت کرتے نظر آئے ۔معاملہ ہائی کمان سونیا گاندھی راہل گاندھی پرینکا گاندھی وغیرہ تک پہچا ۔کسی بھی اہم ذمہ دار کیلئے یہ سخت آزمائش کا وقت ہوتا ہے کہ۔سب کو خوش رکھ کر معاملہ کو سلجھا لینا ہی اس کا امتیاز ہوتا ہے اور اسی وجہ سے وہ بڑے ہوتے ہیں ۔
 بالآخر ہائی کمان نے فیصلہ کیا کہ اشوک گہلوت وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف لینگے  اور سچن پائلٹ ڈپٹی وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہونگے ۔ بظاہر سچن پائلٹ کو وزیر اعلیٰ کی کرسی سے دور رکھنے میں کامیاب تو ہوگئیں اور سچن پائلٹ خاموش بھی ضرور ہوگئے مگر وہ خوش نہیں ہوئے ۔
 راجستھان کی حکومت سازی ہوگئی ۔ حلف برداری کا نہایت تزک و احتشام کے ساتھ پروگرام منعقد ہوا  جس میں ملک کے مختلف صوبوں کے  وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی ۔اشوک گہلوت اپنے وزراء کی مدد سے نہایت کامیابی کے ساتھ راجستھان کے عوام کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔دن گزرتے گئے اور تقریباََ دیڑھ سال کا زمانہ گزر گیا ۔اس دوران  ارونا چل پردیس، کرناٹک،گوا ،منی پور ،مہاراسٹر اور مدھ پردیش میں جس طرح بی جے پی نے کانگریس پارٹی کو پریشان کر کے ، انکے پارٹی ممبران کو پیسے اور عہدہ کی لالچ دیکر توڑ جوڑ کی۔ وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ٹھیک یہی کھیل سچن پائلٹ کو مہرا بنا کر راجستھان کی کامیاب حکومت کو گرا کربی جے پی اپنی حکومت قائم کرنے کے لئے میدان میں اتار دیا ۔سچن پائلٹ کی خواہش وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کی اس قدر جوش مارنے لگی کہ وہ اب اشوک گہلوت کی  کہنہ مشق سیاسی بصیرت سے بے خبر ہوکر وزیر اعلیٰ کی کرسی  اکھاڑ پھینکنے کے لئے باغیانہ تیور میں سامنے آگئے ۔ کچھ ممبران اسمبلی بھی ان کے  سپورٹ میں ساتھ ہیں ۔معاملہ بہت آگے جا چکا ہے ۔پارٹی ہائی کمان نے سرِ دست سچن پائلٹ کو اس کے عہدہ ڈپٹی وزیر سے بر خاست کر دیا ہے۔اور معاملہ کورٹ میں جا چکا ہے ۔
ابھی ہائی کورٹ سے کوئی فیصلہ آیا نہیں کہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا دیا گیا ہے ۔دونوں میںکوئی بھی صلح کے موڈ میں دکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔
 ہائی کورٹ نے پہلے ہی اسپیکر کو یہ ہدایت جاری کردی ہے کہ باغی ممبران کے خلاف ۲۴ جولائی تک کوئی کار روائی نہ کرے ۔اشوک گہلوت گورنر کو بار بار کہ رہے ہیں کہ ابھی تک ہمارے ساتھ ممبران کی مطلوبہ ممبران سے زیادہ کی حمایت حاصل ہے لہذا اسمبلی ہاؤس میں بیٹھک بلا کر اعتماد کی ووٹنگ کرائی جائے ۔
مگر شاید گورنر بھی  اسی انتظار میں ہیں کہ اس ہما ہمی میں کانگریس پارٹی کے اندر کچھ اور بگاڑ ہو ، ٹوٹ پھوٹ ہو ، انتشارو افتراق کا ماحول گرم ہو ، پارٹی بکھر جائے اور گہلوت اقلیت میں آجائے تب آناََ فاناََ اسمبلی کا اجلاس بلا لیا جائے گا اور وہ اپنی اکثریت دیکھا پانے سے مجبور ہو جائینگے اس طرح عوام کی ایک منتخبہ حکومت کا جنازہ نکال دیا جائے گا ۔
 راجستھان کے اس سیاسی گھماسان میں بازی کون مارے گا  اشوک گہلوت یا پھر سچن پائلٹ یہ تو کورٹ طے کریگی ۔ مگر سیاسی تبصرہ نگاروںکا ماننا ہے کہ اس جنگ میں اشوک گہلوت چونکہ ایک منجھے ہوئے سیاست داں ہیں اور سچن پائلٹ کی ہر ہر پہلو پر شروع ہی سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اس لئے ممکن ہے وہ سچن پائلٹ کو آسانی سے پچھاڑ دینگے ۔مگر سچن پائلٹ بظاہر جوان ہیں اور سیاست میں اتنے منجھے ہوئے بھی نہیں ہیں مگر ان کو جن بیک گراؤنڈ سے طاقت مل رہی ہے وہ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے اور یہ طاقت کہاں سے مل رہی ہے وہ فی الحال بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
راجستھان کی اس سیاسی گھماسان کی جنگ کو آج پندرہ دن ہوگئے مگر اب تک  اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور یہ جنگ کتنی طویل ہوگی اور اس جنگ میں کیسے کیسے سیاسی سپہ سالار سامنے آئینگے یہ وقت کے ساتھ دلچسپ رخ بھی اختیار کریگا ۔