حج کیا ہے؟؟

✍محمد روشن رضا مصباحی ازھری
ترجمان :چھتیس گڑھ علماء تنظیم 
رکن :مجلس علمائے جھارکھنڈ 
   اللہ عزوجل نے جب مذہب اسلام کی صورت میں ایک دائمی و مستقل نظام عطا کیا ایسا نظام کہ جس کے لواء عدل کے نیچے وہ جملہ حوادث و قضايا آگئے جو حیات یومیہ میں پیش آنے کے فراق میں تھے۔
  اس مذہب نے اپنے متبعین کے اوپر چند فرائض کی انجام دہی لازم کیا اور ان عبادات کو اس عمارت اسلام کی بنیادی اینٹ قرار دیا جیسا کہ حدیث نبوی اس پر دال ہے کہ "بني الإسلام على خمس شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمداً رسول الله صلى الله عليه وسلم وأقام الصلاة وايتاء الزكاة وصوم رمضان وحج البيت من استطاع إليه سبيلا" اس حدیث پاک میں جن پانچ اہم عبادات کا ذکر ہوا ان میں پانچواں حج ہے، یہ وہ عظیم الشان و مہتم بالشأن عبادت ہے جس کی ادائیگی صاحب دولت و ثروت مسلمان پر فرض ہے جو زاد سفر کی استطاعت رکھتا ہو۔
  حج کی رفعت تو اور بھی بلند ہوجاتی ہے کہ سال میں ایک مرتبہ ایک مخصوص ایام میں، مخصوص مقام میں مخصوص انداز میں سرزمین حجاز کی ان رتیلی وادیوں میں ادا کی جاتی ہے جو کبھی وادی غیر ذی زرع تھی مگر جب کائنات کا والی، نازش ہر دوجہاں اس زمین کو اپنے وجود ظاہری سے مشرف فرمایا تو یہ عشق و عقیدت و محبت و عبادت کا ایسا عظیم گہوارہ بنا کہ "ان اول بيت وضع للناس للذي ببكة مباركاً" کہہ کر خداوند عالم نے اس کی رفعت کو بلند سے بلند تر کردیا!!!                                  اللہ رب العزت نے جب جناب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا، "واذن في الناس بالحج" اے إبراهيم آپ لوگوں میں حج کا اعلان فرمائیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا مولی یہاں تو چند چرند و طیور کے سوا کوئی مخلوق نہیں ہے اور اس بے آب و گیاہ وادی و لق و دق صحراء میں جہاں ہزاروں بڑے بڑے جبل شامخ اپنے سینے تانے کھڑے ہیں. آخر مولی میری آواز سنے گا کون؟ کس کے لیے اعلان حج کروں؟ تو رب تعالی نے ارشاد فرمایا "يا ابراهيم عليك الأذان وعلىّ الإعلام" اے میرے پیارے خلیل تم اعلان تو کرو اعلان کرنا تمھارا کام ہے اور آواز پہنچانا میرا...!!! 
      الغرض حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جبل ابو قبیس اور ایک قول کے مطابق جبل صفا پر چڑھ کر اعلان جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے "فقام على مقامه ، وقيل : على الحجر ، وقيل : على الصفا ، وقيل : على أبي قبيس ، وقال : يا أيها الناس ، إن ربكم قد اتخذ بيتا فحجوه ، فيقال : إن الجبال تواضعت حتى بلغ الصوت أرجاء الأرض ، وأسمع من في الأرحام والأصلاب ، وأجابه كل شيء سمعه من حجر ومدر وشجر ، ومن كتب الله أنه يحج إلى يوم القيامة : " لبيك اللهم لبيك " .تو تاریخ گواہ ہے اور سیر و تواریخ کی کتابیں شاہد ہیں جتنے بھی جبال و أحجار بیچ میں حائل تھے سبھوں نے اپنی گردن جھکا دی اور عالم ارواح میں جتنی روحیں تھیں سب نے اس آواز کو سنا اور یک زبان ہو کر لبیک اللھم لبیک کی صداے دل نواز بلند کی اور اس آواز لاہوتی سے پورا عالم جگمگا اٹھا اور جس جس نے اس آواز کو سنا اور اعلان ربی پر لبیک کہا ان کے مقدر میں اللہ نے حج کی سعادت مقدر فرمادی،، 
 اللہ نے دوسرے مقام پر فرمایا "وأتموا الحج والعمرة لله" پہلے لوگ دور جاہلیت میں خانہ کعبہ کا طواف کرنے جب جاتے تو ان کا مقصد تفریح طبع اور لذت سیر و سیاحت بھی ہوتا تھا تو اللہ نے اس اتباع ھوی کے عمل پر قدغن لگاتے ہوئے "لله" فرمایا کہ اے میرے گھر کا قصد کرنے والوں جب تم میرے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اپنے گھر و اہل و عیال کو چھوڑ کر، اتنی مشقت شاقہ کرکے، نفس کو آسائش کی لذتوں سے دور کرکے اس دیار حرم کا قصد کیا ہے تو تمھارا مطمح نظر بھی رضاے الہی کا حصول ہونا چاہیے. 
  اب جب تم میرے اس گھر کی زیارت کے لیے اپنے محلات کو خیر باد کہہ کر آے ہو تو مناسک حج کی ادائیگی بھی خوش اسلوبی سے کرنا، صفا و مروہ کی سعی بھی خالصا لوجہ اللہ کرنا، تمھیں منی و مزدلفہ میں بھی جانا ہوگا جہاں نرم و گداز بستر تو نہیں ہوں گے مگر تجلی الہی کے ایسے مناظر ہوں گے جسے دیکھ کر سارے ناز و نعم کے خواہشیں کافور ہوجائیں گی ، اور تمھیں میدان عرفات میں قیام بھی کرنا ہوگا اس حال میں کہ سادہ لباس اور پرا گندہ بال و دنیا کے سارے زیب و آرائش کے سامان مہجور ہوں گے، تو جب عرفات میں آنا تو اس شان سے آنا کہ تمھارے لب اوراد و اذکار الٰہیہ سے تر ہوں، تمہارا دل خشیت ربانی سے مملو ہو، تمھارے اعضاء تسبیح الہی میں مشغول ہوں!!. 
جب بندہ اس حال میں آتا ہے تو اللہ رب العزت ملاء اعلی کے فرشتوں سے مخاطب ہو کر کیا کہتا ہے،؟ مصنف ابن عبد الرزاق میں یہ حدیث موجود ہے "عن ابن عمر رضي الله عنهما، في حديث الرجلين اللَّذين جاءا رسول الله صلى الله عليه وسلم، يسألانه عن أمر دينهم، وكان من جوابه لهما: (وأما وقوفك بعرفة، فإن الله تبارك وتعالى ينـزل إلى سماء الدنيا، فيباهي بهم الملائكة، فيقول: هؤلاء عبادي جاؤوا شعثًا غبرًا من كل فج عميق، يرجون رحمتي، ويخافون عذابي، ولم يروني، فكيف لو رأوني، فلو كان عليك مثل رمل عالج، أو مثل أيام الدنيا، أو مثل قطر السماء ذنوبًا، غسلها الله(مصنف عبدالرزاق) 
اللہ فرشتوں سے فرماتا ہے میرے ان بندوں کو دیکھو جن کے بال اٹے ہوے ہیں، ان کے جسم پر ایک کفن نما لباس ہے، یہ میری رحمت کے طلب گار ہیں اور میری عقوبت سے خائف ہیں، اور انھوں نے مجھے دیکھا تک نہیں، تو اے فرشتوں گواہ ہوجاؤ جتنے لوگ یہاں حاضر ہیں اگر ان کے گناہ سمندر کے جھاگ اور ریت کی تعداد کے برابر بھی ہوں تو میں نے اسے اپنی رحمت سے معاف کردیا!!! 
    اور جب انسان اس خوش اسلوبی سے حج کی ادائیگی کرلیتا ہے تو پھر بشری سارہ کا مستحق ہوتا ہے اس طور پر کہ -" وعن أبي هريرة قالَ: سَمِعْتُ رسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقولُ: منْ حجَّ فَلَم يرْفُثْ، وَلَم يفْسُقْ، رجَع كَيَومِ ولَدتْهُ أُمُّهُ(بخاری و مسلم) جس نے مناسک حج کی ادائیگی بغیر کسی گناہ و فسق میں مبتلا ہوے بغیر کیا تو وہ جب حج سے لوٹتا ہے تو اس حال میں کہ گویا ابھی اس کی والدہ نے جنم دیا ہو، اور جب ان کا حج ان منازل سے گزر کر حج مبرور تک پہونچا تو پھر مزدہ جانفزا کہ اے حاجیوں سنو "عن أبي هريرة رضي الله عنه قال أَنَّ رسولَ اللَّهِ ﷺ، قالَ: العُمْرَة إِلَى العُمْرِة كَفَّارةٌ لِمَا بيْنهُما، والحجُّ المَبرُورُ لَيس لهُ جزَاءٌ إلاَّ الجَنَّةَ. (متفق عليه) اگر تمھارا حج مقبول و مبرور ہوگیا تو اب تمھارے ان مشقات کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں!!! 
 یہ ہیں حج کے فضائل و مناقب بڑے خوش نصیب و لائق تحسین و قابل مبارکباد ہیں وہ لوگ جن کے مقدر کا ستارہ بام عروج کو پہنچا اور انھوں نے زیارت حرمین شریفین کے لیے رخت سفر باندھا!!! 
 بارگاہ صمدیت میں دعا گو ہوں کہ رب قدیر! تمام حجاج کرام کے سفر کی صعوبتوں و کلفتوں کو آسان فرمائے اور مناسک حج کی ادائیگی خوش اسلوبی سے کریں اور اللہ حج مبرور عطا کرے.!!
اللهم يسر على جميع الحجاج صعوبة الطريق وكلفته ويوصلهم إلى الأرض الحرم بالأمن والأمان ويوفقهم أن يؤدوا مناسك الحج والعمرة بغاية الجودة والإخلاص وأن يعطيهم كلهم حجا مبرورا يارب العالمين بجاه سيد المرسلين صلى الله عليه وسلم عليه افضل الصلاة و أزكى التسليم