قربانی اور موجودہ حالات

 از: محمد زاہد رضا، دھنباد
متعلم، جامعہ اشرفیہ، مبارک پور
(رکن: مجلس علمائے جھارکھنڈ)
ماہ ذی الحجہ کے شروع ہوتے ہی شعار اسلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال یادگار قربانی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، کہ کس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی کو خوش کرنے اور خواب کو پورا کرنے کے لیے ایک ایک کرکے اپنے محبوب اور پسندیدہ جانوروں کو قربان کر دیا، لیکن اس کے بعد ہی آپ کا خواب اور قربانی مقبول نہیں ہوئی اور پھر خواب دکھایا گیا کہ اپنے سب سے محبوب چیز کو میرے راہ میں قربان کرو، اخیر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھ جاتے ہیں اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو غسل کرا کر نئے نئے کپڑوں میں ملبوس کر کے راہ خدا میں قربان کرنے کے لیے چل دیتے ہیں۔گھر سے نکلتے ہی ابلیس پیچھے پڑ جاتا ہے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بہکانے لگتا ہے کہ تمہارے والد تمہیں قتل کرنے کے لیے لے جارہے ہیں، قربان جائیے حضرت اسماعیل ذبیح اللہ پر کہ اس نے ابلیس کو کتنا پیارا جواب دیا کہ " اللہ تعالیٰ نے مجھ کو پیدا کیا ہے اگر اسی کی راہ میں قربان ہوجاؤں تو اس سے بڑی اور کیا خوش نصیبی ہوسکتی ہے"۔
بہر حال! اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑھاپے میں نیک صالح اولاد عطا کیا تھا اور پھر اسے راہ خدا میں قربان کرنے کا حکم دے دیا، تو سوچیے اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام پر کیا گزرا ہوگا کہ ابھی بیٹے سے اچھی طرح محبت بھی نہ کی تھی کہ حکم الہی آجاتا ہے کہ فرزند ارجمند کو راہ خدا میں قربان کرو، ایسے نازک وقت میں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام ثابت قدم رہتے ہیں اور اپنے لخت جگر کو قربان کرنے کے لیے لٹا دیتے ہیں، کہ دریں اثنا حکم الہی سے حضرت جبرئیل علیہ السلام جنتی دنبہ لاتے ہیں اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر رکھ دیتے ہیں اور پھر دنبہ کی قربانی ہوجاتی ہے، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اس مشکل کن امتحان میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
اللہ تعالی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ تاقیامت اس کو باقی رکھا اور امت محمدیہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی کرنے کا حکم دیا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال رہے اور  اپنے اس دس سالہ زندگی میں آپ نے کبھی بھی قربانی ترک نہیں کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ ہر مسلمان، بالغ، آزاد اور صاحب استطاعت پر قربانی واجب ہے۔
  یہاں پر یہ بتاتا چلوں کہ قربانی کسے کہتے ہیں اور قربانی کے کیا معنی ہے۔
قربانی لفظ "قرب"سے بنا ہے اور عربی میں قرب کا معنی ہے قریب ہونا، نزدیک ہونا، اور چوں کہ بندہ قربانی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے اس لیے اس کو قربانی کہتے ہیں۔
  اردو زبان میں قربانی حلال جانور کو مخصوص دن (عید الاضحیٰ) میں ذبح کرنے کو کہتے ہیں۔
حدیث کی روشنی میں قربانی کی فضیلت ملاحظہ کریں۔
  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ قربانی کے دنوں میں آدمی کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ ہیارا نہیں ہے، اور وہ جانور قیامت کے روز اپنے بال، سینگ اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے خدا کے نزدیک مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے لہذا اسے خوش دلی سے کرو۔(ترمزی شریف، جلد ایک، صفحہ نمبر، 257)
   ابن ماجہ نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ صحابہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ قربانیاں کیا ہیں فرمایا: کہ "تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے" لوگوں نے عرض کی یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )ہمارے لیے اس میں کیا ثواب ہے فرمایا: ہر بال کے برابر نیکی ہے۔(سنن ابن ماجہ، باب ثواب الاضحیہ، حدیث، 3127،ص، 531)
  ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ "جو روپیہ عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا اس سے زیادہ کوئی روپیہ پیارا نہیں"۔ (المعجم الکبیر، حدیث،10894)
 ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا : کہ مالک نصاب ہونے کے باوجود جو شخص قربانی نہ کرے وہ میری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔(ابن ماجہ شریف)
 اب ہرمالک نصاب کو چاہیے کہ وہ خوش دلی اور تقرب الٰہی کے لیے قربانی کرے، کیوں کہ یہ ایک واجبی امر ہے۔
مالک نصاب کون ہے۔ جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا(93،گرام، 312،ملی گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(653گرام، 184،ملی گرام) یامال تجارت کی آمدنی کا مالک ہو تو اس پر قربانی واجب ہے، قربانی واجب ہونے کے لیے مرد ہونا شرط نہیں ہے، اگر عورت کے پاس بھی اتنا مال یا زیور موجود ہو یا وہ اتنی قیمت کی مالک ہو تو اس پر بھی قربانی واجب ہے۔
  موجودہ دور میں بہت سے لوگ مالک نصاب ہونے کے باوجود قربانی نہیں کرتے اور شادی بیاہ میں لاکھوں روپے یوں ہی ضائع کر دیتے ہیں جو کہ بہت بڑا گناہ ہے، لوگوں کو چاہیے کہ بتقرب الٰہی قربانی کریں اور اپنے اعمال میں نیکیوں کا اضافہ کریں۔
  تقسیم گوشت۔ قربانی کرنے کے بعد گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کریں، اور اگر جانور مشترک ہے تو گوشت کو تول کر برابر تقسیم کریں اندازے سے نہ بانٹیں کیوں کہ یہ حق اللہ ہے، اگر کسی کے پاس زیادہ چل جائے گا تو دوسرے بندے کے معاف کرنے سے بھی معاف نہ ہوگا، پھر اپنے حصہ کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کریں، ایک حصہ فقراء و غرباء کو دیں، ایک حصہ اپنے دوست و احباب کو دیں، اور ایک حصہ اپنے خاندان اور گھر والوں کے لیے رکھیں اور کھائیں، اس موقع پر غرباء،فقراء اور ان لوگوں کا خاص خیال رکھیں جو قربانی نہیں کرتے ،کیوں کہ اس کے گھر میں بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہوتے ہیں جو گوشت کا مطالبہ کرتے ہیں،اگر آپ ان کی مدد کریں گے اور ان کو گوشت وغیرہ دیں گے  تو یہ لوگ بھی خوشی بخوشی اپنی قربانی گزار لیں گے اور آپ کے حق میں دعائے خیر کریں گے۔
  موجودہ حالات اور کورونا وائرس کو مد نظر رکھتے ہوئے قربانی احتیاط سے کریں، ماسک، سینی ٹائزر اور سوشل ڈسٹنسنگ کا خاص خیال رکھیں، قربانی کے جانور کو قربانی کرنے سے ایک دو روز پہلے قربان گاہ میں لے جائیں، قربانی کے مناظر کو ہر گز کیمرہ میں قید کر کے  شیئر نہ کریں، ہمارے بہت سے نوجوان بھائی فخرانے کے طور پر شیئر کر دیتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں، ایسی غلطی اور لاپرواہی ہر گز نہ کریں، کیوں کہ آپ کی ایک لاپرواہی پوری امت مسلمہ کو بدنام کر سکتی ہے،     گودی میڈیا کو بھی موقع مل جائے گا اور بکاؤ نیوز اینکرز اس کو بریکنگ نیوز بنا کر شب و روز بحث و مباحثہ کروائیں گے، اور قوم مسلم کو بدنام کریں گے، یہ میں اس لیے کہ رہا ہوں کہ ابھی قربانی آئی بھی نہیں ہے کہ دلال نیوز اینکرز بقرعید کے نام پر مسلمانوں کو بدنام کرنے میں مصروف ہو گئے ہیں۔
بعد قربانی بچے ہوئے گوشت، ہڈی اور اوجھڑی کو ادھر اُدھر نہ پھینکیں بل کہ اس کو زمین کے نیچے دفن کردیں، تا کہ دوسرے لوگ اس کے بدبو سے محفوظ رہیں، یا آبادی سے دور جاکر پھینک دیں کہ کتے، چیل وغیرہ دوسرے جانوروں کی غذا بن سکے، جب کہ موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے دفن کر دینا ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا یے، ایسے موقع پر مسلم بھائی اگر ممنوعہ جانور کے بدلے دوسرے یا چھوٹے جانوروں کی قربانی کریں تو بہتر ہوگا، تاکہ فرقہ پرستوں کو زیادتی کا موقع نہ مل سکے، کیوں کہ روز بروز بے گناہ مسلمانوں پر گئو کشی کے نام پہ حملے کیے جارہے ہیں، اور گئو رکشکوں کی جماعت ٹڈی دل کی طرح گروپ بندی کرکے گاؤں اور شہروں میں چکر لگا رہے ہیں اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ییں۔
   اس لیے تمام مسلم بھائیوں کو چاہیے کہ امن و شانتی سے قربانی کریں اور ہجومی تشدد کے شکار ہونے سے محفوظ رہیں۔