عید قرباں کا پیغام فضائل و مسائل

عطاء الرحمن ندوی
متعلم،دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
قربانی ایک عظیم الشان عبادت، عبدیت تواضع اور انکساری کا مظہر ہے یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار اور ملت ابراہیمی کی اصل پہچان ہے،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے محض رضائے الٰہی کے حصول کیلئے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کے لئے پیش کیا تھا، اسی عمل کی یاد میں ہرسال مسلمان قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں، اس قربانی سے یہ پیغام ملتا ہے کہ مسلمان رب کی فرمانبرداری اور اطاعت میں ہر قسم کی قربانی کو قربانی پیش کریں اور اس سے دریغ نہ کریں، اور اللہ کے علاوہ عبادت کا شائبہ تک دل میں نہ رہے اور نماز، قربانی،جینا اور مرنا سب اللہ کی رضا مندی کیلئے ہو۔
قربانی پر مداومت
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد ہجرت دس سال مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا، ہر سال برابر قربانی کرتے تھے (ترمذی)۔ جس سے معلوم ہوا کہ قربانی صرف مکہ معظمہ میں حج کے موقع پر واجب نہیں بلکہ ہر شخص پر، ہر شہر میں واجب ہوگی، بشرطیکہ شریعت نے قربانی کے واجب ہونے کے لئے جو شرائط اور قیود بیان کی ہیں وہ پائی جائیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو اس کی تاکید فرماتے تھے، اسی لئے جمہور علمائے اسلام کے نزدیک قربانی واجب ہے۔ (شامی)
قربانی کس پر واجب ہوتی ہے
قربانی ہر اس مسلمان عاقل، بالغ، مقیم پر واجب ہوتی ہے، جس کی ملک میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال اس کی حاجاتِ اَصلیہ سے زائد موجود ہو، یہ مال خواہ سونا چاندی یا اس کے زیورات ہوں، یا مالِ تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان یا مسکونہ مکان سے زائد کوئی مکان، پلاٹ وغیرہ! قربانی کے معاملے میں اس مال پر سال بھر گزرنا بھی شرط نہیں، بچہ اور مجنون کی ملک میں اگر اتنا مال ہو بھی تو اس پر یا اس کی طرف سے اس کے ولی پر قربانی واجب نہیں۔ اسی طرح جو شخص شرعی قاعدے کے موافق مسافر ہو اس پر بھی قربانی لازم نہیں۔ جس شخص پر قربانی لازم نہ تھی اگر اس نے قربانی کی نیت سے کوئی جانور خرید لیا تو اس پر قربانی واجب ہوگئی۔
فضائل قربانی
قربانی ایسا عظیم عمل ہے جسکا کوئی بدل نہیں،اسلئے تمام مسلمانوں کو قربانی پورے اہتمام اور خوش دلی کے ساتھ کرنا چاہیے۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرات صحابہ رَضی اللہ عنہم نے دریافت کیا، یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہارے باپ اِبراہیم علیہ السلام کی سنت (طریقہ) ہے، صحابہ نے عرض کیا کہ  اس میں ہمارے لیے کیا (اجر وثواب) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: (جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی، اُنہوں نے عرض کیا کہ (دُنبہ وَغیرہ اگر ذبح کریں تو اُن کی) اُون (میں کیا ثواب ہے؟) فرمایا: کہ اُون کے ہربال کے بدلے ایک نیکی ملے گی،حضرت عائشہ رَضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:  عید الاضحیٰ کے دنوں میں کوئی نیک عمل اللہ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نہی اور قیامت کے دِن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے یہاں شرف قبولیت حاصل کرلیتا ہے، لہٰذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔
قربانی کی روح
قربانی کی روح اخلاص و للہیت ہے ہماری قربانی میں جتنا ہی اخلاص ہوگا اتنا زیادہ اجر حاصل ہوگا، اگر قربانی پیش کرتے وقت اخلاص کو پیش نظر نہ رکھا گیا تو صرف یہ ایک جانور کا خون بہانا ہے جسکا کچھ حاصل نہیں، اسلئے ہمیں چاہیے کہ ہم خلوص و للہیت کو پیش نظر رکھیں اور قربانی کے سچے جذبے سے اپنے دلوں کو معمور کریں تاکہ دلوں میں امن و آشتی،خوشی و عافیت کی فضا پیدا ہو اور عزت و عظمت کی بلندی پر پہونچ کر دنیا میں زندہ قوموں کی طرح رہنے کا حق حاصل ہوسکے۔
قربانی کرنے کا صحیح وقت
 جن بستیوں یا شہروں میں نمازِ جمعہ و عیدین جائز ہے، وہاں نمازِ عید سے پہلے قربانی جائز نہیں، اگر کسی نے نمازِ عید سے پہلے قربانی کردی تو اس پر دوبارہ قربانی لازم ہے۔ البتہ چھوٹے گاوٴں جہاں جمعہ و عیدین کی نمازیں نہیں ہوتیں، یہ لوگ دسویں تاریخ کی صبحِ صادق کے بعد قربانی کرسکتے ہیں۔ ایسے ہی کسی عذر کی وجہ سے نمازِ عید پہلے دن نہ ہوسکے تو نمازِ عید کا وقت گزرجانے کے بعد قربانی دُرست ہے (درمختار)۔ قربانی رات کو بھی جائز ہے مگر بہتر نہیں (شامی)۔
آدابِ قربانی
قربانی کے جانور کو چند روز پہلے سے پالنا افضل ہے، قربانی کے جانور کا دُودھ نکالنا یا اس کے بال کاٹنا جائز نہیں، اگر کسی نے ایسا کرلیا تو دُودھ اور بال یا ان کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے (بدائع)۔ قربانی سے پہلے چھری کو خوب تیز کرلے اور ایک جانور کو دُوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کرے، اور ذبح کے بعد کھال اُتارنے اور گوشت کے ٹکڑے کرنے میں جلدی نہ کرے جب تک پوری طرح جانور ٹھنڈا نہ ہوجائے۔ (بدائع)
قربانی کا مسنون طریقہ
 اپنی قربانی کو خود اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنا افضل ہے، اگر خود ذبح کرنا نہیں جانتا تو دُوسرے سے بھی ذبح کراسکتا ہے، مگر ذبح کے وقت وہاں خود بھی حاضر رہنا افضل ہے۔
جانور کو بائیں پہلو پر قبلہ رخ لٹائیں یعنی اسکے پیر قبلہ کی طرف کردیں اور اپنا دایاں پیر اسکے شانے پر رکھ کر تیزی تیز چھڑی سے ذبح کریں، قربانی کی نیت صرف دِل سے کرنا کافی ہے، زبان سے کہنا ضروری نہیں، البتہ ذبح کرنے کے وقت ”بسم الله اللہ اکبر“ کہنا ضروری ہے۔
جانور ذبح کرتے وقت کی دُعا
”بِسْمِ اللهِ اَللهُ اَکْبَرُ، اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، اِنَّ صَلَااتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ ِللهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔“
ترجمہ:… ”میں نے متوجہ کیا اپنے منہ کو اسی کی طرف جس نے بنائے آسمان اور زمین سب سے یکسو ہوکر، اور میں نہیں ہوں شرک کرنے والوں میں سے، بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا اللہ ہی کے لئے ہے، جو پالنے والا سارے جہان کا ہے۔“
جانور ذبح کرنے کے بعد کی دُعا
”اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمَّد وَخَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْھمَا السَّلَامُ۔“
ترجمہ:… ”اے اللہ! اس قربانی کو مجھ سے قبول فرما، جیسے کہ آپ نے قبول کیا اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ وعلیٰ نبینا الصلوٰۃ والسلام سے۔“
قربانی کے گوشت کی تقسیم
 جس جانور میں کئی حصہ دار ہوں تو گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے، اندازہ سے تقسیم نہ کریں۔ افضل ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصے کرکے ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے لئے رکھا جائے، ایک حصہ احباب و اعزّہ میں تقسیم کرے، ایک حصہ فقراء و مساکین میں تقسیم کرے۔ اور جس شخص کے عیال زیادہ ہوں وہ تمام گوشت خود بھی رکھ سکتا ہے۔ قربانی کا گوشت فروخت کرنا حرام ہے، ذبح کرنے والے کی اُجرت میں گوشت یا کھال دینا جائز نہیں، اُجرت علیحدہ سے دینی چاہئے۔
نوٹ: قربانی کا گوشت صرف خود ہی نہ کھالیا جائے بلکہ محتاجوں تک پہچانا چاہئیے، خواہ وہ ایسا محتاج ہو کہ خودداری سے کام لے یا ایسا شخص ہو جو ہاتھ پھیلاتا ہو بہرحال قربانی کی روح یہی ہے کہ اسمیں فقراء کا خیال رکھا جائے۔
فلاحی کاموں کے لئے قربانی کی کھالیں جمع کرنا
 قربانی کی کھالیں فروخت کرنے کے بعد ان کا حکم زکوٰۃکی رقم کا ہے، قربانی کی کھالیں ایسے ادارے اور جماعت کو دی جائیں جو شرعی اُصولوں کے مطابق ان کو صحیح جگہ خرچ کرسکے، لہذا بہتر یہ ھیکہ قربانی کی کھال کسی ایسے دینی ادارہ میں دی جائے جہاں نادار طلباء کی کفالت کی جاتی ہو،کیوں کہ اسمیں انکی امداد کرنے کا ثواب بھی ہے اور علم دین کے احیاء کا سبب بھی،اسکو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
کورونا وائرس اور قربانی
جس شخص پر قربانی واجب ہو اس کے حق میں قربانی  کے ایام میں جانور کا خون بہانے ہی سے اللہ تعالی کا یہ حکم پورا ہوگا،  اس کی جگہ رقم صدقہ کرنے سے قربانی کا وجوب ادا نہیں ہوگا، بلکہ ترکِ واجب کا گناہ ہوگا،لہذا کورونا وئرس کی وجہ سے اگر اپنے گھر پر قربانی کا اہتمام نہیں کرسکتے تو کسی دوسری جگہ اجتماعی قربانی میں شریک ہوجائیں،لیکن قربانی کی جگہ رقم صدقہ کردینے سے قربانی کا وجوب ساقط نہیں ہوگا، بلکہ یہ شعائر اسلام کومسخ کر نا ہے جو موجبِ گناہ ہے۔
احتیاطی تدابیر اپنائیں
موجودہ دور میں جبکہ کورونا وائرس سے تمام چیزیں متاثر ہیں ایسے وقت میں احتیاطی تدابیر اپنائیں یہ توکل کے ہرگز منافی نہی، اور پورے جوش و خروش کیساتھ بے خوف ہوکر قربانی کا عمل کریں اگر کسی علاقہ میں دشواری ہو تو وہاں کے علماء و ذمہ داران کو متوجہ کرتے ہوئے ضلع انتظامیہ سے رابطہ کریں اور انکو اعتماد میں لیتے ہوئے قربانی کریں اور اسکے پیغام کو اپنی زندگی میں اتاریں اسی میں دارین کی صلاح و  فلاح مضمر ہے۔