کثرت مطالعہ ادنیٰ سے اعلیٰ بنادیتی ہے

از: محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی. رام گڑھ
(رکن :مجلس علماے جھارکھنڈ )
اہل دانش کے نزدیک مطالعے کی بڑی اہمیت ہے۔ ان کے نزدیک مطالعے کا مطلب یہ ہے کہ مطالعہ کرنے والا اتنی انہماک اور یکسوئی سے کتب بینی کرے کہ کم از کم اس کا مفہوم ذہن میں محفوظ رہے ورنہ مطالعے کا کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکلے گا۔ 
مطالعہ: یہ باب مفاعلت کا مصدر ہے۔ اس کی خاصیت مشارکت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ذہن اور کتاب کے درمیان ایک خاص ربط و تعلق ہو تاکہ اس کا کوئی بہتر نتیجہ حاصل ہو سکے۔اس کے اغراض و مقاصد، فوائد و نقصانات: اس کی اہمیت اس وقت اور دو چند ہو جاتی ہے جب کہ کسی خاص موضوع پر خامہ فرسائی کی ضرورت ہو اور کتاب بھی دست یاب نہ ہو. 
درج ذیل اغراض و مقاصد کے لیے مطالعہ کیا جاتا ہے:-
استاذ کے مطالعے کا مقصد:* عموماً درس گاہوں میں وہی کتابیں  داخل نصاب ہوتی ہیں جنھیں سمجھنے میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کتابوں کے اسرار و نکات پر دست رس حاصل کرنے کے لیے مدرس خود مطالعہ کرتا ہے تاکہ اس کے مفاہیم و مطالب تک پہلے خود رسائی حاصل کرے، پھر درس گاہ میں تعلیم دیتے وقت مطالعے سے حاصل شدہ ادق اور پیچیدہ گفتگو کو آسانی سے مثالوں کے ساتھ طلبا کے قلوب و اذہان میں اتار سکے.
 طالب علم کے مطالعے کا مقصد:پڑھائی سے شغف رکھنے والا طالب علم آئندہ  پڑھنے والے اسباق  کو پہلے ہی مطالعے کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے پھر درس گاہ میں پہنچ کر اسے اپنے استاذ کی زبانی بغور سنتا ہے اور بالخصوص اس نکتے پر توجہ رکھتا ہے جو اسے بذات خود اپنے ذریعے حل کرنے میں دشواری ہو رہی تھی۔ اس طرح محنت سے پڑھائی کرنے والے طالب علموں کا مستقبل تابناک و روشن ہوتا ہے اور حصول علم کا یہی طریقۂ کار بھی  ہونا چاہیے کہ پہلے طالب علم خود ہی اسباق حل کرے پھر درس گاہ میں توجہ سے استاذ کی تقریر سماعت کرے۔
فراغت کے بعد مطالعے کا مقصد:زمانۂ طالب علمی سے نکلنے کے بعد بھی مطالعہ جاری رکھا جاتا ہے تاکہ معلومات میں اضافہ ہو۔ مزید یہ کہ مطالعہ اور انتھک کوششوں سے اپنے علم کو وسیع کر کے دین و ملت کی خدمات بہتر طریقے سے انجام دی جاسکیں۔
طالب علم کے لیے غیر درسی کتابوں کے مطالعے کا مقصد:طالب علم اپنی درسی کتابوں کے علوم سے بہرہ ور ہونے کے ساتھ ساتھ خارجی علوم کا بھی مطالعہ کرتا ہے تاکہ دیگر علوم سے بھی لیس ہوجائے۔ بالخصوص عصر حاضر میں انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیوں کہ اس زبان کا چلن اور رواج اس زمانے میں بہت زیادہ ہے اور اکثر اسی زبان میں ہمارے مذہب و مسلک پر کیچڑ اچھالنے کی کوششیں ہوتی ہیں، حتیٰ کہ ہمارے خلاف لٹریچرز بھی اسی زبان میں تیار ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان وجوہات کے پیش نظر  انگریزی جاننا اور اس میں مہارت حاصل کرنا ہمارے لیے اشد ضروری ہے  تاکہ ہم ان کی سازشوں سے آگاہ ہوسکیں اور اسی زبان میں ان کا دندان شکن جواب تیار کرکے اسے عام کرسکیں۔  اہل مدارس زمانے کے تقاضے کے مطابق  اپنے طلبا کو انگریزی زبان کی تعلیم دینے سے گریز نہ کریں اور اس معاملے میں چشم پوشی سے بھی کام نہ لیں بلکہ دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بھی تحریر و تقریر کا زبردست انتظام کریں تاکہ ہمارے طلبا ہر محاذ پر مسلمانوں کی نمائندگی بہتر طریقے سے کرسکیں۔اس کے علاوہ دیگر مکاتب فکر کی عیاری و مکاری سے آگاہی ضروری ہے اور ان کے اعتراضات کے جوابات کو بھی جاننے کی ضرورت ہے کیوں کہ ان کے جواب سے آگاہی طلبہ کے لیے  نہایت ضروری ہے.جیسے دیوبندی، وہابی، اہل حدیث، شعیہ و دیگر ادیان باطلہ، اس لیے کہ کہیں بھی ہم سے اس کے متعلق سوال ہوسکتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ پہلے ہی سے ہم تیار رہیں۔
بزرگان دین کے حالات زندگی کے مطالعے کامقصد: یہ ہوتا ہے کہ ہم ان کی عارفانہ زندگی سے عبرت حاصل کریں اور اپنی دنیا و عاقبت سنوار لیں۔ جب آپ اپنے بزرگوں کے سیرت و سوانح کا مطالعہ کریں گے تو آپ کے اندر ایک اسپرٹ اور جذبہ پیدا ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور ان کے طریقۂ کار کو اپناتے ہوئے کچھ کر گزرنے کا حوصلہ بھی ملے گا جس کے بہتر نتائج إن شاء اللہ ضرور سامنے آئیں گے۔
مضمون نگاری کے لیے مطالعہ:ایک اچھا مضمون نگار بننے کے لیے متعدد کتب و رسائل کا مطالعہ کیا جاتا ہے تاکہ ذخیرۂ معلومات اور خزانۂ الفاظ میں اضافہ ہو اور انشا پردازی کے مختلف اسالیب سے واقفیت بھی حاصل ہو۔جہاں تک مطالعے سے نقصان کی بات ہے تو اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جس طرح جسمانی صحت کے لیے خراب اور غلط غذا مضر اور نقصان دہ ہے۔ یوں ہی گندے اور فحش ناولوں، شہوت انگیز افسانوں، اور اسی قسم کے لٹریچرز سے اخلاق میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح بچوں، کم پڑھے لکھے لوگوں  اور کمزور عقیدے  رکھنے والوں کے لیے مذاہب باطلہ کی کتابیں زہر ہلال ثابت ہوتی ہیں۔ لہٰذا ان سے دوری اختیار کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے  مجدد اعظم امام احمد رضا خاں محدث بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ان کی کوئی کتاب نہ دیکھیں کہ شیطان کو معاذاللہ دل میں وسوسہ ڈالتے دیر نہیں لگتی۔ (شجرۂ طیبہ قادریہ رضویہ.ص:27) 
خودرو پیداوار اور معمولی ادبیات کے مطالعے سے احتراز ضروری ہے کیوں کہ ان سے اسلوب بگڑ جاتا ہے اور علم میں گہرائی اور فکر میں گیرائی پیدا نہیں ہوتی ہے۔ مزید اس طرح نفع کے بجائے نقصان ہوجاتا ہے۔
کتابیں ،رسائل وغیرہ کیسے ہوں؟: ان کتب و رسائل کا مطالعہ کیا جائے جو معتبر و مستند علما وفضلا کی تصانیف ہوں اور ایسے رسائل وجرائد ہوں جن میں اسی قسم کے حضرات کے مضامین و مقالات شائع ہوتے ہوں۔ طالب علموں سے عموماً  لوگ اپنے روز مرہ کے مسائل دریافت کرتے رہتے ہیں اس لیے ہر طالب علم کثرت سے مطالعہ ضرور کرے تاکہ ضروری مسائل سے واقفیت حاصل ہو سکے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کی کتابیں ضرور مطالعہ کریں تاکہ علم میں اضافہ ہو اور خصوصیت کے ساتھ اس لیے کہ جو باتیں ان کی کتابوں میں ملیں گی وہ شاید کہیں دوسری جگہ نا ملیں. علماے اہل سنت کے چھوٹے چھوٹے رسائل جو مفید باتوں پر مشتمل ہوں ان کا مطالعہ بھی سودمند ہوگا جیسے: علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ، علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ، مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ، حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ،علامہ محمد احمد مصباحی، علامہ عبدالمبین نعمانی،مولانا مبارک حسین مصباحی، ڈاکٹر غلام زرقانی دامت فیوضھم علینا  وغیرہ کے کتب و رسائل۔
درست وقت، مناسب عمل اور سود مندطریقہ:ہر کام کے لیے مناسب وقت ہوتا ہے جس میں اگر وہ کام کیا جائے تو نہایت عمدہ طریقے سے پائے تکمیل تک پہنچتا ہے۔ اسی طرح مطالعے کے لیے بھی کچھ مخصوص اوقات ہیں جن میں مطالعے کے بے پناہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
(1) مطالعے کے لیے صبح کا وقت بہت موزوں ہوتا ہے کیوں کہ اس وقت انسان آرام پا کر تازہ دم ہوتا ہے، طبیعت ہشاش ہوتی ہے. سما بھی سہانا ہوتا ہے اور ایسے پر کیف حالات میں بات خوب ذہن نشیں ہوتی ہے۔
(2) دوپہر میں قیلولہ کرنے کے بعد۔
(3) رات کی تنہائی میں۔
(4) جب طبیعت درست ہو اور ذہن مطالعے کے لیے مستعد ہو۔
 یہ مواقع سب سے بہتر ہوتے ہیں۔اس لیے ان اوقات کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے برخلاف
 (1) نیند کے غلبے کے وقت۔ (2) طبیعت میں انتشار کے وقت۔
 (3) بھوک کی شدت کے وقت۔
 (4) جب دماغ تکان محسوس کرے۔
 (5) غصے کی حالت میں۔
 ان حالتوں میں مطالعہ کرنا گویا کہ اپنا وقت ضائع کرنا ہے۔ اس کا مناسب عمل یہ ہے کہ مطالعے کے درمیان وقفہ ہو۔ مسلسل مطالعے سے آدمی کی طبیعت اچاٹ ہوجاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو بوجھل محسوس کرتا ہے جب کہ مطالعے کے درمیان وقفہ کرنے سے  یہ ہوتا ہے کہ وہ خود کو تروتازہ محسوس کرتا ہے اور دوبارہ جب مطالعہ شروع کرتا ہے تو بڑی توجہ کے ساتھ مطالعے میں مشغول ہوتا ہے۔مطالعے کے دوران دل آویز تراکیب، دل کش بندش الفاظ، دل چسپ محاورات، لطیف اشارات، نادر تشبیہات، جاذب  توجہ جملے، مؤثر اسلوب بیان جہاں جہاں نظر آئیں انہیں خاص توجہ سے پڑھنا چاہیے اور اگر بطور یاد داشت علا حدہ علاحدہ کسی کاپی یا ڈائری میں انھیں لکھ لیا جائے اور فرصت کے لمحات میں انھیں زیر مطالعہ رکھا جائے تو بہت ہی مفید ہو سکتا ہے. اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ تحریر اور اسلوب تحریر کو تاںٔیید و تقویت حاصل ہوگی۔
اپنے بھائیوں کو ترغیب دلانے کے اثرانداز نسخے:
(1)  اپنے دوستوں کے روبرو مطالعے کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالیں۔
(2) انھیں لائبریری لےجائیں اور اچھی و پرلطف کتابیں ان کے سامنے پیش کریں تاکہ اس طرح وہ کچھ نہ کچھ پڑھ لیں۔ 
(3) انھیں موقع بہ موقع اہم نکتے بتائیں، تاکہ جب وہ حیرت و استعجاب میں ڈوب کر آپ سے سوال کریں کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ تو جھٹ سے آپ جواب دیں کہ ہمیں یہ سارے نکات مطالعے اور تلاش وجستجو سے حاصل ہوئے۔ اس سے کافی متاثر ہو کر وہ بھی مطالعے میں إن شاء اللہ دل چسپی لینے لگیں گے۔
 (4) اپنے بھائیوں کے سامنے مفید و سود مند کتب ورسائل  کا تذکرہ کریں اور مصنف کی خوبیاں بھی بیان کریں۔ اس عمل سے ان کا دل اس کتاب کے مطالعے کی جانب مائل ہونے لگے گا کیوں کہ اچھی چیزوں کی طرف دل کا میلان زیادہ ہوتا ہے۔ 
(5) لمحہ بہ لمحہ انھیں اچھی اچھی کتابیں دیتے رہیں اور تحفے میں بھی کتابوں کا عمدہ سیٹ بھیجتے رہیں کیوں کہ اس طرح وہ خواہی نہ خواہی مطالعے کے گرویدہ ہو ہی جائیں گے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو نفع بخش کتابوں کے بکثرت مطالعہ کرنے،اس سے حاصل شدہ علم پر عمل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق بخشے۔آمین ثم آمین