حج بیت اللہ کی حقیقت و معنویت

   ظفر احمد خان کبیر نگری
امام جامع النقر، 
رجال المع ابہا، سعودی عرب
حج وہ عظیم عبادت اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہے جس کی ادائیگی پر نبی کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت اور گناہوں  سے پاکی کا عام اعلان فرمایا ہے، یہ اسلام کا بنیادی رکن ہے، اس کے بے شمار دینی، دنیاوی، مالی، معاشی، سماجی اور معاشرتی فوائد ہیں اور ان فوائد کو سمیٹنے کا تعلق یقیناً انسان کے ارادے و محنت کے ساتھ ہے، حج کا سفر اور بالخصوص مناسک حج ایک مسلمان کو اس بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ وہ اپنے تمام معاملات کو اللہ کے آگے پیش کرے اور اسی سے ان مسائل کے حل کی دعا کرے۔ اور دعا کو اپنی زندگی میں اپنی روزانہ کا معمول بنا لے۔ یہ ایک مالی عبادت ہے، اس کی فرضیت مشروط ہے، ﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ’’ جو لوگ بیت اﷲ کی طرف جانے کی استطاعت رکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ بیت اﷲ کا حج کریں(آل عمران:97)۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں آپؐ نے ایک دن خطبے میں فرمایا، اے لوگوں! تم پر حج فرض کردیا گیا ہے، لہذا اس کو ادا کرنے کی فکر کرو۔ (مسلم)، حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ آپؐ سے پوچھا گیا کہ کیا چیز حج کو واجب کرتی ہے تو آپؐ نے فرمایا، سامان اور سواری (ترمذی)، جس مسلمان، عاقل، بالغ، صحت مند غیرمعذور کے پاس اس کی اصل اور بنیاد ی ضروریات سے زاید اور فاضل مال اتنا ہو کہ جس سے وہ بیت اﷲ تک آنے جانے اور وہاں کے قیام و طعام کا خرچ برداشت کرسکے اور اپنی واپسی تک ان اہل و عیال کے خرچ کا انتطام بھی کرسکے جن کا نان نفقہ اس کے ذمے واجب ہے اور راستہ بھی مامون ہو تو ایسے ہر مسلمان پر حج فرض ہے۔ عورت کے لیے چوں کہ بغیر محرم کے سفر کرنا شرعا جائز نہیں اس لیے وہ حج پر اس وقت قادر سمجھی جائے گی جب اس کے ساتھ کوئی محرم حج کرنے والا ہو، خواہ محرم اپنے خرچ سے حج کر رہا ہو یا عورت اس کا سفر خرچ برداشت کرے۔، حضور پاکؐ نے حج کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ’’ حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں‘‘ (مشکوۃ)، ایک دوسری حدیث میں ہے’’ جو شخص حج کرے اور اس میں بے حیائی اور فسق و فجور نہ کرے تو وہ حج کرکے اس طرح گناہوں سے پاک لوٹے گا گویا آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے‘‘ (الترغیب و الترہیب)، عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی تو میں  رسول اکرم کی خدمت میں  حاضرہوا اور میں  نے کہا کہ اے اللہ کے نبی ﷺ آپ اپنا ہاتھ آگے بڑھایئے تاکہ میں  آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں  چنانچہ آپ نے جوں ہی اپنا دست مبارک آگے بڑھایا تو میں  نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا ،آپ ﷺ نے فرمایا عمرو تمہیں کیا ہوگیا ،میں  نے کہا اے اللہ کے نبی ﷺمیں  ایک شرط لگانا چاہتاہوں آپ نے پوچھا کون سی شرط ہے ،میں نے کہا میری شرط یہ ہے کہ اللہ میرے تمام گناہ معاف فرمادے ۔تو نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’ اما علمت یا عمرو۔۔۔ان الحج یھدم ماکان قبلہ‘‘(صحیح مسلم :کتاب الایمان)کہ اے عمرو کیا تم نہیں  جانتے کہ اسلام سابقہ تمام گناہوں کومٹادیتاہے ،ہجرت سابقہ خطائوں کو ختم کردیتی ہے اور حج تمام گناہوں کو مٹادیتاہے ۔ ایک بار صحابہ کرام ؓ نے آپؐ سے پوچھا کون سا عمل افضل ہے ؟ آپؐ نے جواب دیا’’ اﷲ پر ایمان لانا اور جہاد اور پھر حج مقبول جو بقیہ سارے اعمال پر اتنے درجے فضیلت رکھتا ہے جو سورج کے طلوع و غروب کے درمیان ہے ‘‘(طبرانی، احمد، الترغیب)، حضور اکرم ﷺ نے صرف فضائل بیان کرکے اپنی امت کو اس عمل کی طرف راغب نہیں کیا بل کہ عمل کرکے بتایا۔ بہت سے لوگ اپنے اوپر عجیب و غریب شرائط عاید کرکے اور بہانے بناکر حج سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو حضور اکرمؐ کے ان فرامین کو سامنے رکھنا چاہیے۔ آپؐ نے جان بوجھ کر حج ترک کرنے والے پر وعید بیان کرتے ہوئے فرمایا، جس شخص کے پاس ضروری سامان اور سواری ہو جو اسے بیت اﷲ تک پہنچا دے مگر اس کے باوجود وہ حج کو نہ جائے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہوکر۔ (ترمذی)
ا ﷲ تعالیٰ نے حج کو امت مسلمہ پر فرض کرکے انہیں اخوت و محبت، اجتماعیت اور اتحاد کا درس دیا ہے۔ اور بیت اﷲ کو مرکز عالم بنا دیا کہ اطراف عالم سے لوگ بلاامتیاز اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں، نہ رنگ و نسل کی قید، نہ قوم و قبیلے کی پابندی اور نہ ہی کسی زبان و لہجے کی شرط۔ حج کا موسم آتے ہی مکہ میں مسلمانوں کا ایک جم غفیر ہوتا ہے ، مختلف رنگ و زبان اور مختلف النسل کے لوگ ایک ہی لباس میں ایک کام کرتے ہوئے اور یک زبان ہو کر ایک ہی صدا لگاتے ہیں۔ لبیک اللھم لبیک۔ یعنی لبیک کا ترانہ توحید الٰہی کی شہادت اور عظمت الٰہی کا اعتراف ہے کہ ہم ہر قسم کے شرک سے اپنے آپ کو بری کر رہے ہیں کہ الٰہی! تیرے سوا نہ کوئی اس قابل ہے کہ ہم اس کی بندگی کریں اور نہ ہی کوئی اس قابل ہے کہ ہم اپنی مصیبتوں میں اس کی طرف نظر اٹھائیں اور نہ ہی کوئی اس قابل ہے کہ ہماری کسی مصیبت کو دور کر دے۔ تلبیہ کو بلند آواز سے پڑھنے میں یہی حکمت ہے کہ اس توحید کو نہ صرف قبول کریں بلکہ اس کا اعلان کریں۔ حج کا سب سے اہم ترین فلسفہ وہ اخلاقی انقلاب ہے جو حج کرنے والے میںرونما ہوتا ہے، جس وقت انسان احرام باندھتا ہے تو ظاہری امتیازات، رنگ برنگ کے لباس اور زر و زیور جیسی تمام مادیات سے باہر نکال دیتا ہے، لذائذ کا حرام ہونا اور اصلاح نفس میں مشغول ہونا (جو کہ مُحرِم کا ایک فریضہ ہے) انسان کو مادیات سے دور کردیتا ہے اور نور و پاکیزگی اور روحانیت کے عالم میں پہنچا دیتا ہے اور عام حالات میں خیالی امتیازات اور ظاہری افتخارات کے بوجھ کو اچانک ختم کردیتا ہے جس سے انسان کو راحت اور سکون حا صل ہوتاہے۔ اس کے بعد حج کے دوسرے اعمال یکے بعد دیگرے انجام پاتے ہیں، جن سے انسان ،خدا سے لمحہ بہ لمحہ نزدیک ہوتا جاتا ہے اور خدا سے رابطہ مستحکم تر ہوتا جاتا ہے، یہ اعمال انسان کوگزشتہ گناہوں کی تاریکی سے نکال کر نور وپاکیزگی کی وادی میں پہنچا دیتے ہیں۔ اس سال کرونا وائرس کے خطرناک وبا کی وجہ سے حج کو بہت ہی محدود کر دیا گیا ہے، لاکھوں فرزندان توحید اپنی استطاعت اور تیاری کے باوجود اللہ کے در کی حاضری سے محروم رہے، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس وبا کو جلد سے جلد دنیا سے ختم فرمائے، تاکہ اللہ کے گھر کے دروازے ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے کھل سکیں، اور پہلے کی طرح دنیا بھر کے مسلمان عمرہ حج کی ادائیگی کے لیے بیت اللہ کا سفر کر سکیں.