عید قرباں _عشق الٰہی کا عظیم مظہر

عاصم طاہر اعظمی 
ایڈیٹر آئی این اے نیوز اعظم گڑھ 
 7860601011 
عید قرباں اسلام کا دوسرا عظیم تہوار ہے جو اپنی اہمیت ،فضیلت ،معنویت،اور روحا نیت  کے حوالے سے منفرد شنا خت اور خصوصیات کا حامل ہے، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا عمل ایک طرف قرب خداوندی رضائے الہی اور پروردگار عالم کی خوشنودی کا با عث ہے تودوسری طرف ہر قدم پر سرفروشی، قربا نی، جاں نثاری اور صبر وشکر سے لبریز ہونے کے پیغام سے سرشار ہے، قربانی ایک ایسا عمل ہے جو امت مسلمہ کی طرح سابقہ امتوں کی متنوع عبادات کا اٹوٹ حصہ رہا ہے ،البتہ طریقہ کار اور قبولیت کے مدار و شرائط مختلف رہے ہیں، یہود ونصاری کے ہاں بھی قربا نی کا تصور ملتا ہے، ایرانیوں کے یہاں بھی فلسفہ قربا نی موجود ہے ،اور ہندوستان کے دیگر مذا ہب کے یہاں بھی قربا نی کا عملی اظہار ہو تا ہے، اور اسے مختلف الفاظ کا لباس پہنا کے کسی نے نروان،تو کسی نے بلیدان،اور کسی نے بھینٹ ،سے مو سوم کیا ہے مذہب اسلام میں اسے قربانی اور نحر کے سا تھ مختص کیا گیا ہے،
احادیث مبارکہ میں قربانی کی بے شمار فضیلتیں بیان کی گئی ہیں، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ابن آدم کا نحر  (یعنی قربانی کا دن)ایسا کوئی عمل نہیں جو اللہ تعالی کے نزدیک خوں بہانے ( یعنی قربانی کرنے) سے زیادہ محبوب ہو،اور قربانی کا جانور قیامت کے دن سینگوں اور بالوں اور کھروں کے ساتھ (زندہ ہو کر) آئیگا اور قربانی کا خون زمین گرنے سے پہلے اللہ تعالی کی رضا اور قبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے، پس اے اللہ کے بندو:دل کی پوری خوشی سے قربانیاں کیا کرو،اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
مَنْ کَانَ لہ سعۃ فلم یضح ، فلا یقربن مصلانا (رواہ ابن ماجۃ:،  3123)
’’جو آسودہ حال ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے،قربانی کا ذاتی مقصد یہ ہے کہ اللہ کا قرب حاصل کیا جائے ۔ قربانی کا مطلب ہی قربِ الٰہی کا حصول ہے۔ جب کوئی شخص قربانی کرتا ہے تو اللہ کی بارگاہ میں اس کا تقویٰ دیکھا جاتا ہے۔ اس مقصد کا حصول اسی وقت ممکن ہوگا جب خالص اللہ کی رضا کے لیے قربانی کی جائے ۔ اللہ تعالیٰ کی بابرکت ذات یہ نہیں دیکھتی کہ وہ جانور جو قربانی کے لیے پیش کیے گئے ان کی مالیت اور جسامت کیا ہے بلکہ وہ قربانی کرنے والے دلوں کی کیفیت پر نگاہ رکھتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ قربانی کرنے والے کی نیت کوئی مادی منفعت یا محض نمود و نمائش کا اظہار ہو ، اللہ رب العزت کو ایسی قربانی کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ اس قربانی کو قبول کرتا ہے جس کی اساس تقویٰ پر رکھی گئی ہو۔ اسی لیے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا: ’’اللہ تعالیٰ کے پاس ان (جانوروں ) کا خون اور گوشت نہیں پہنچتا بلکہ اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔ (سورۃ الحج: ۳۷)
اللہ تعالیٰ کو قربانی کے جانور کے گوشت ، پوست اور جسامت سے کوئی غرض نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ قربانی کرنے والے میں خوف خدا اور پرہیزگاری کی کیا کیفیت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اللہ تو صرف ان کی قربانی قبول کرتا ہے جو متقی ہوتے ہیں۔ (سورۃ المائدۃ:۲۷)اسی طرح حضور نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ تمہاری طرف اور تمہارے اموال کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو تمہارے دل کی نیت کو دیکھتا ہے۔ (ابن ماجہ: ۴۱۴۳)
الغرض در ج بالاآیاتِ مبارکہ اور احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ جس طرح قربانی کا مقصد جانور قربان کرکے گوشت تقسیم کرنا ہے اسی طرح قربانی کی اصل روح اور فلسفہ حاصل کرنا بھی ضروری ہے ۔ وہ یہ ہے کہ قربانی کاجانور ذبح کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کااپنی انا، خود غرضی، مطلب پرستی ، نفسانی خواہشات کو بھی ذبح کرناہے ۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر انسان غرو ر اور تکبر کا شکار ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اپنی زندگی کے شب و روز بسر کر رہاہے۔ اللہ رب العزت کے احکام کی حکمتوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں روزوں کے ذریعے نفسانی خواہشات کو قابو کرنا تھا اور اب عید الاضحی کے موقع پران قابو کی گئی نفسانی خواہشات پر چھر ی پھیرنی ہے تاکہ انسان اپنے رب کی بارگاہ میں سرخرو ہو کر روحانیت کے مقام پر فائز ہوسکے، ہر سال ہمارے درمیان عید قرباں کے تاریخی ایام آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے آج بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جو اس بات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ اس کی حقیقت کو جانیں اور سمجھیں کہ اس میں ایسی کون سی خصوصیات ہیں کہ اس دن کو قیامت تک کے لیے یادگار قرار دیا گیا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ ایثار و قربانی اور حصولِ رضائے الٰہی کا وہ جذبہ ہی تھا جس کی بنیاد پر ابراہیم علیہ السلام نے گھر، وطن، دولت تو چھوڑی ہی بادشاہ وقت سے بھی بغاوت کی، پھر اللہ کی خاطر بیوی اور ننھے سے دودھ پیتے بچے کو بے آب وگیاہ میدان میں بے سہارا چھوڑ آئے اور خود آگ کے دہکتے الاؤ میں ڈالے گئے، یہاں تک کہ اپنی جان ہی نہیں لختِ جگر کی قربانی کے آخری حکم کی بھی تعمیل کی۔ اخلاص و سچائی اور ایثار و قربانی کا یہ ایسا بے نظیر واقعہ ہے جس کی مثال آج تک کوئی قوم پیش نہیں کرسکی، اسی لیے اللہ نے اس بلند ترین عمل کو قیامت تک کے لیے ایک فریضہ کی حیثیت دے دی، تاکہ عید قرباں کی تاریخی حیثیت پر نگاہ رکھتے ہوئے بندۂ مومن اپنے اندر بھی وہی جذبہ پیدا کرے اور رضائے الٰہی کے حصول کے لیے وہ سب کچھ قربان کردے جو میسر ہو۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ لوگوں نے اسے بھی رسم بنا ڈالا، نہ اس کی حقیقت کو پہچانا اور نہ اس کے تقاضے کو سمجھا۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ جانور کا گوشت اور نہ اس کا خون چاہیے بلکہ مومن کا تقویٰ اور رضائے الٰہی مطلوب ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں ہمارے لیے بڑی نصیحت ہے کہ ہم نے بھی یہی اقرار کیا ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ ہمارا نہیں ہے اللہ کا ہے۔ ہم اللہ کے حکم پر چلیں گے، اور اس کے حکم کے سامنے نہ اپنے دل کی بات مانیں گے اور نہ کسی دوسرے کی خواہش کی پرواہ کریں گے۔
ہم جس طرح جانور کی قربانی کرتے ہیں۔ اسی طرح اپنی نفسانی خواہشات کو بھی قربان کردیں گے، تاکہ اختلاف، انتشار بغض و حسد، کبر و غرور، عناد و دشمنی، مکر و فریب اور حق تلفی وجاہ طلبی کے ذریعہ انسانیت کی تباہی کا ذریعہ نہ بنیں بلکہ عظمت و بلندی کا جو معیار قرآن مجید نے بتایا ہے، اسے ہم اپنی زندگی میں سجا بسا لیں۔ ذات برادری، رنگ و نسل اور دولت و غربت کے سارے امتیازات کو مٹا کر اخوت و مساوات، پیار و محبت اور ایک خدا کی عبادت و بندگی کی فضا قائم کریں۔
اس عید کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر قربانی کی وہی روح، اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت اور وفاداری کی وہی شان پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے۔ اگر کوئی انسان محض ایک جانور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل اس روح سے خالی رہتا ہے جو قربانی میں مطلوب ہے، تو وہ ایک ناحق جاندار کا خون بہاتا ہے۔
احکاماتِ خداوندی کو بجا لانے میں اخلاص کا ہونا بے حد ضروری ہے، نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کا فرمانِ مقدس ہے: ’’بے شک! اللہ تعالیٰ تمہاری طرف اور تمہارے اموال کی طرف نہیں دیکھتا، بل کہ وہ تو تمہاری نیت کو دیکھتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم کتاب قرآن پاک میں ارشاد فرمایا، ’’ اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا بل کہ اُسے تو صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘
عیدِ قرباں کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر بھی وہ روحِ ایمانی پیدا ہو جس کا عملی مظاہرہ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ اور سیدنا اسمٰعیل ذبیح اللہ نے ہزاروں سال قبل کیا تھا  لیکن دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ یہ عظیم الشان دن بھی فقط ایک تہوار بن کر رہ گیا اہلِ ثروت لوگ اس مقدس تہوار پر بھی نمود و نمائش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے جس سے معاشرے کے غریب اور نادار طبقوں میں اس روز احساسِ کمتری پوری شدت سے جنم لیتا ہے آج امتِ مسلمہ جن مسائل اور حالات سے دوچار ہے اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے اپنے دینی شعار کی اصل روح کو بھلا دیا، دنیا کی چاہت اور دیکھا دیکھی اپنے اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کی خاطر اسلام سے کوسوں دور ہو چکے ہیں حقیقت یہ ہے کہ دکھاوے کے نمائشی کام تو بہت ہو رہے ہیں، لیکن معاشرے میں عملی طور پر بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اگر ایسا ہوتا، تو آج یہ معاشرہ بھوک، جہالت، منافقت، خود غرضی اور نفاق و دشمنی کی کرب ناک تصویر نہ بنا ہوتا۔ہماری آدھی سے زیادہ آبادی کو دو وقت کا کھانا تک میسّر نہیں۔ میرا توایمان ہے کہ ہم ظاہری طور پر قربانی کا جو اہتمام کرتے ہیں، اگر ایثار و قربانی کا یہ سچّا جذبہ ہماری عملی زندگیوں کا بھی حصّہ بن جائے، تو ہمارے سارے دکھ درد اور مسائل دور ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’اللہ کو تمہارے جانوروں کا خون اور گوشت نہیں پہنچتا، بلکہ تمہارا تقویٰ اور پرہیزگاری پہنچتی ہے۔‘‘اےکاش! کہ ہم اس چھوٹی سی آیت اور سنتِ ابراہیمی کی حقیقی روح کو سمجھنے اور اس پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہونے کے قابل ہوتے۔
چندسالوں سے ہمارے شہری و دیہی معاشروں میں قربانی کے گوشت کو فریز کرنے کا کلچر رواج پاگیا ہے، اس کلچر سے نجات پانے کی بھی ضرورت ہے، اسوۂ حسنہ کے مطابق قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہئے، ایک حصہ اپنے لیے، ایک اعز و اقارب کے لیے اور ایک غربا کے لیے،عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ قربانی کے جانوروں کی گندگیوں کو گلی محلے میں چھوڑ دیتے ہیں یہ طریقہ اسلام کی روح اور حفظان صحت کے اصولوں کے سخت منافی ہے قربانی اگر دینی فریضہ ہے تو صفائی بھی نصف ایمان ہے، ہمیں عید قرباں کے موقع پر صفائی کا بے حد خیال رکھنا چاہیے،اللہ جل مجدہ ہمیں ان تمام باتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔