ماہ ذی الحجہ کی فضیلت احادیثﷺ کی روشنی میں

رتیب۔ریاض فردوسی
9968012976
قسم ہے فجر کی! اور دس راتوں کی! اور جفت اور طاق کی!اور رات کی جب وہ چلتی ہے! یقینا اس میں عقل والے کے لیے بڑی قسم ہے،(الفجر:5-1)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں،واللیالی العشر:
المراد بہا عشر ذی الحجۃ کما قالہ ابن عباس وابن الزبیر ومجاہد وغیر واحد من السلف والخلف (تفسیر ابن کثیر)
دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے۔جیسے کہ ابن عباس، ابن زبیر، مجاہد اور ان کے علاوہ سلف و خلف نے کہا ہے۔(تفسیر ابن کثیر) 
فجر کا وقت دُنیا کی ہر چیز میں ایک نیا انقلاب لے کر نمودار ہوتا ہے، اس لئے اُس کی قسم کھائی گئی ہے۔ بعض مفسرین نے اس آیت سے خاص دس ذُوالحجہ کی صبح مراد لی ہے، اور دس راتوں سے مراد ذُوالحجہ کے مہینے کی پہلی دس راتیں ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی تقدس عطا فرمایا ہے، اور اس میں عبادت کا بہت ثواب ہے۔
ذوالحجہ کے دس فضیلت والے دنوں میں قرآن مجید کی مکمل تلاوت کرنے کا اس طرح سے احتمام کریں۔ان دنوں کی فضیلت پانے کے لئے ہم نیکی کے مختلف کام کر سکتے ہیں مثلاً روزے،صدقات،دعا، تکبیرات، تھلیل (لا الہ الا اللہ)رات کی نماز  اور سجدوں میں دعا کیونکہ یہ دن اللہ کے نزدیک بہت عظمت والے ہیں اور سب نیک بندوں کے لیے مغفرت کا موقع فراہم کرتی ہے۔
پہلا دن سورۃالفاتحۃسے 
آل عمران کے آخر تک۔
دوسرا دن سورۃ النساء سے سورۃ المائدۃتک۔
تیسرا دن سورۃالانعام سے سورۃالتوبۃ تک۔
چوتھادن سورۃیونس سےسورۃ بنی اسرائیل تک۔
پانچواں دن سورۃالکہف سے سورۃالنور تک۔
چھٹا دن سورہ فرقان سے سورۃفاطر تک۔
ساتواں دن سورۃ یس سے سورۃالحدید تک،
آٹھواں دن سورۃالمجادلۃسے سورۃ الناس تک۔
نواں دن اللہ تعالی سے اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے دعائیں مانگیں۔
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
دنیا کے دنوں میں افضل ترین دن'' دس دن'' یعنی عشرہ ذوالحجہ ہیں۔
(صحیح الترغیب والترہیب، 1150)
ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما،ان دس دنوں میں بازار کی طرف نکل جاتی اوردونوں تکبیرات پڑھتے، لوگ ان کی تکبیر سن کرتکبیر کہتے،اور محمد بن علی نفل نمازوں کے بعد بھی تکبیر کہتے تھے.
(صحیح البخاری, بَاب فَضْلِ الْعَمَلِ فِی أَیَّامِ التَّشْرِیقِ_قبل الحدیث-969)
رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا۔
’’اللہ کو کوئی نیک عمل کسی دن میں اس قدر پسندیدہ نہیں ہے جتنا کہ ان دنوں میں پسندیدہ ہے یعنی عشرہ ذوالحجہ۔
صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا ’’نہیں، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں مگر جو شخص اپنی جان و مال لے کر نکلا ہو اور پھر کچھ واپس نہ لایا ہو۔
(سنن ابو داود،حدیث نمبر-2438)
(مسند احمد،حدیث نمبر- 3139)
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-969)
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ کے نزدیک ذو الحجہ کے دس دنوں میں نیک اعمال بہت زیادہ پاکیزگی اور بہت بڑے ثواب کا باعث ہیں،(صحیح البخاری الترغیب والترہیب،صفہ۔1148)
نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالی کے نزدیک عشرہ ذوالحجہ کے دنوں سے بہترین دن کوئی نہیں،ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا یہ افضل ہیں یا ان کی گنتی کے برابر اللہ کے راستے میں جہاد کرنا؟
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان کی گنتی کے برابر اللہ کے راستے میں جہادکرنے سے بھی زیادہ یہ افضل ہیں، سوائے اس شخص کے جس کا چہرہ مٹی میں ملا دیا گیا ہو(یعنی شہید کردیا گیا ہو)(صحیح البخاری الترغیب والترہیب،صفہ۔1150)
نبی اکرم ﷺ نیارشاد فرمایا:
کوئی دن اللہ کے ہاں ان دس دنوں سیزیادہ عظمت والانہیں ہےاور نہ ہی کسی دن کا عمل اللہ تعالی کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے پس تم ان دس دنوں میں کثرت سیتہلیل(لا الہ الا اللہ)، تکبیر(اللہ اکبر) اور تحمید(الحمد للہ) کہو۔
(مسند احمد، حدیث نمبر- 5446، ابن حجر العسقلانی الأمالی المطلقۃ۔14 حسن)ابن باز- حدیث المساء .248،إسنادہ حسن،حدیث صحیح اسنادہ ضعیف)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ذی الحجہ کے ابتدائی دس  دنوں میں جس قدر اللہ تعالیٰ کو عمل صالح پسند ہے۔اتنا باقی دنوں میں نہیں پسند ہے  صحابہ کرام نے عرض کیا،  یا رسول اللہ، اللہ کے  راہ میں جہا د کرنا بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا، اللہ کی راہ میں جہا د  کرنا بھی نہیں سوائے اس مجاہد کے جو اپنی  مال اور جان لیکر نکلا پھر کسی چیز کے  ساتھ  واپس نہیں  آیآ) یعنی  وہ شہید  ہو گیا  یہ  دوسروں سے  یقیناً  افضل ہے)
 ذو الحجہ کے ابتدائی  دس دن ایسے ہیں کہ ان میں مناسک حج کی ادائیگی کا خصوصی اہتمام ہو تا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان دس دونوں کو نیک عمل کے لئے سب سے  زیادہ فضیلت والاقرار دیکر ان  لوگوں کے لئے بھی نیکیاں کمانے کے راستے کی نشاندہی فرما دی ہے جو حج کی سعادت سے محروم  رہنے والے ھیں وہ اپنے اپنے مقام پر رہ کر ان ایام میں نفلی روزوں اور دیگر عبادات کے ذریعے سے زیادہ سے زیادہ اجروثواب ثواب حاصل کر  سکتے ہیں۔
قربانی کا ارادہ رکھنے والے کو نبی اکرم صلی اللہ وسلم نے حکم دیا کہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کرنے تک اپنے بال کاٹے نہ ناخن تراشے (صحیح مسلم،/160، ح،1977)
سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے (مدینہ میں) قربانی کرنے کے بعد سر کے بال منڈوائے،فرمایا؛ یہ واجب نہیں.(موطّأ امام مالک، 2 /483، وسندہ، صحیحٌ) 
سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے ایام ذی الحجہ میں ایک عورت کواپنے بچے کے بال کاٹتے دیکھ کر فرمایا،''اگر قربانی والے دن تک موخر کر دیتی تو بہتر تھا ''(المستدرک علی الصّحیح اللحاکم، 4/246،ح،7520, وسندہ، حسنٌ)
قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والا ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے پہلے جسم کے فاضل بال (زیر ناف)، سر کے بال اور مونچھیں کاٹ لے، ناخن تراشے،پھر قربانی تک اس سے پرہیز کرے، تو اسے قربانی کا پورا اجروثواب ملے گا.(مسند أحمد، 2/649، سنن أبی داؤد،2789، سنن النّسائی، 4360، وسندہ، حسنٌ)اسے امام ابنِ حبان (5914)، امام حاکم (4/233)، اور حافظ ذہبی نے ''صحیح '' کہا ہے)
جو لوگ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں، ان کے لئے ذی الحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کرنے تک بال اور ناخن تراشنے کی ممانعت ہے.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔یعنی جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ داخل ہو، اور تم میں سے کسی کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو اپنے بال اور کھال میں سے کسی کو ہاتھ نہ لگائے۔
 یعنی جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھا اور اس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔رواہ مسلم، والنسائی، وغیرہما، مشکاۃ مع المرعاۃ، 5/ 86)
 ان احادیث کی بنا پر امام احمد، اسحاق، سعید بن المسیب، ربیعہ، اور بعض شافعیہ و حنابلہ وغیرہ اس بات کی جانب گئے ہیں کہ جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو اس کے لئے ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں اپنے ناخن اور بال کاٹنا اور کٹوانا جائز نہیں، کیونکہ بظاہر نہی تحریم کے لئے ہے، یہی فتویٰ علماء اہل حدیث کا بھی ہے۔
 بعض ائمہ نے یہاں نہی کو تنزیہی مانا ہے، اور اس کی بنیاد پر اس عشرہ میں بال کاٹنے کو صرف مکروہ قرار دیا ہے، مگر راجح پہلا قول ہی معلوم ہوتا ہے۔  
 البتہ اگر کسی نے ناخن اور بال کٹوا لئے تو اس کے اوپر کوئی کفارہ نہیں ہے، اس کے لئے صرف توبہ واستغفار کرنا ہی کافی ہے۔  
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : قربانی کا ارادہ رکھنے والا بال او ر ناخن تراشنا ترک کردے گا اور اگر اس نے تراش لیا تو اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرے گا اور بالاجماع اس پر فدیہ نہیں ہے، خواہ اس نے ایسا عمدا کیا ہو یا بھول چوک کر اور جو قربانی کا ارادہ نہیں رکھتا اس کے لئے اس عشرہ میں ناخن اور بال تراشنے سے ممانعت کے بارے میں میری نگاہ سے کوئی صریح حدیث نہیں گذری، البتہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا 
(رواہ ابوداود، والنسائی، والحاکم،وصححہ، ووافقہ الذہبی، وضعفہ الألبانی، انظر المشکاۃ مع تعلیق الألبانی،1/ 466 (1479)والمشکاۃ مع المرعاۃ، 1/ 466)
 مجھے قربانی کے دن عید منانے کا حکم دیا گیا ہے، اللہ تعالی نے اس امت کے لئے اسے عید قرار دیا ہے، اس پر آپﷺ سے ایک شخص نے عرض کیا، اگر میرے پاس دودھ کے لئے عاریۃً دی گئی بکری کے سوا کوئی جانور نہ ہو تو کیامیں اسی بکری کی قربانی کردوں؟ آپ نے فرمایا، نہیں! لیکن (قربانی کے دن) اپنے بال اور ناخن تراش لو، اپنے مونچھ کے بال کاٹ لو اور زیر ناف بال کا حلق کرلو، یہ اللہ کے نزدیک تمہاری مکمل قربانی ہو جائے گی۔
 اس حدیث کی بناء پر بعض علماء نے اس شخص کے لئے بھی جس کے پاس قربانی کی استطاعت نہ ہو، اس عشرہ میں ناخن اور بال تراشوانے سے اجتناب کرنے کو کہا ہے، لیکن ان حدیث میں ناخن اور بال تراشنے کی ممانعت نہیں ہے، بلکہ اس کے لئے قربانی کے دن سر، مونچھ، اور زیر ناف بال اور ناخن کے کاٹنے کی فضیلت اور قربانی کے برابر اجر وثواب کا بیان ہے، اسی بنا پر امام نسائی وغیرہ نے اسے ’’باب مَنْ لَمْ یَجِدِ الأُضْحِیَۃَ‘‘ کے تحت ذکر کیا ہے۔  
 اس واسطے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس کے پاس قربانی کرنے کی استطاعت نہ ہو، اگر وہ اس عشرہ میں ناخن اور بال مختصراً تراش لے، اور پھر دس تاریخ کوبھی تراش لے تو وہ اس اجر سے محروم اور کسی ممنوع چیز کا مرتکب نہیں ہوگا  
یاد رہے کہ اس حدیث کی تصحیح و تضعیف کے بارے میں اختلاف ہے، مگر راجح یہ ہے کہ یہ ضعیف ہے اس واسطے غیر مستطیع کے لئے یوم النحر کو بال اور ناخن ترشوانے پر قربانی کے ثواب کی بات محل نظر ہے۔
ابن ابی عمر مکی نے کہا،ہمیں سفیان نے عبدالرحمان بن حمید بن عبدالرحمان بن عوف سے حدیث سنائی،انھوں نے سعید بن مسیب سے سنا، وہ  حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حدیث روایت کررہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
جب عشرہ (ذوالحجہ)  شروع ہوجائے اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو نہ کاٹے۔سفیان سے کہا گیا کہ بعض راوی اس حدیث کو مرفوعاً (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے)  بیان نہیں کرتے(حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کا قول بتاتے ہیں)انھوں نے کہا: لیکن میں اس کو مرفوعاً بیان کرتا ہوں۔(صحیح مسلم.5117)
حوالہ جات۔ (صحیح مسلم، 6/83(5232) کتاب الأضاحی، باب نہی من دخل علیہ عشر ذی الحجۃ وہو مرید التضحیۃ أن یأخذ من شعرہ أو أظفارہ شیئا,المصدر السابق, صحیح مسلم،13/ 138(1977)کتاب الأضاحی،باب نہی من دخل علیہ عشر ذی الحجۃ وہو مرید التضحیۃ أن یأخذ من شہرہ أو أظفارہ شیئا,سنن النسائی،7/211 (4361)کتاب الضحایا,انظر المرعاۃ،5/ 87، التعلیقات السلفیۃ، 
(2/ 194)المغنی، 8/ 619 (7853) سنن أبی داود،3/ 93 (2789) کتاب الضحایا، باب ما جاء فی إیجاب الأضاحی، وقال الألبانی، ضعیف،سنن النسائی،7/ 212 ]4365[ کتاب الضحایا، باب من لم یجد الأضحیۃ،مستدرک الحاکم،4/223 ]7529[ کتاب الأضاحی،نعمۃ المنان مجموع فتاوی فضیلۃ الدکتور فضل الرحمن المدنی، جلد ششم، صفحہ 34 - 37)