قربانی کے فضائل و مسائل

  احمد رضا قادری امجدی، ہزاریباغ
خاص جانور کو مخصوص دنوں میں ثواب کی نیت سے اللہ کے نام پر ذبح کرنے کو قربانی کہتے ہیں۔ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لیے باقی رکھی گئی ہے اور نبی کریم ﷺ کو قربانی کا حکم دیا گیا۔ ارشادربانی ہے: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وانْحَرْ ’’تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو‘‘ (پ :۳۰، سورۃ الکوثر)
    قربانی کی اہمیت و فضیلت سے متعلق ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا ’’ یَو مُ الْنَّحرِ (دسویں ذی الحجہ) میں ابن آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک خون بہانے(قربانی کرنے ) سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ ، بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔لہٰذا اس کو خوش دلی سے کرو۔(بہار شریعت :حصہ پانزدہم(۱۵)ص:۳۲۷)
قربانی کس پر واجب ہے؟
 قربانی ہر مسلمان آزاد، عاقل، بالغ ، مرد و عورت، مقیم مالک نصاب پر ہرسال اپنی طرف سے واجب ہے۔اگر کوئی مالک نصاب ہوتے ہوئے قربانی نہیں کرے گا تو سخت گنہگار ہوگا۔ حضور اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔‘‘(بہار شریعت: حصہ: پانزدہم ، ص: ۳۲۸) واضح ہوکہ اگر کوئی مالک نصاب اپنی طرف سے قربانی کرنے کی بجائے دوسرے کی طرف سے کردے تو بری الذمہ نہ ہوگا۔ لہٰذا اگر دوسرے کی طرف سے کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے دوسری قربانی کا نظم کرے۔
مالک نصاب کی وضاحت:
    مالک نصاب وہ شخص ہے جو ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت کا سامان تجارت یا غیر تجارت کا (ایام نحر میں)مالک ہو یا مذکورہ چیزوں کی قیمت کا مالک ہو اور یہ چیزیں حاجت اصلیہ سے زائد ہوں۔(جدید پیمانے کے اعتبار سے ساڑھے باون تولہ چاندی کا وزن 612 گرام  36 ملی گرام ہے اور ساڑھے سات تولہ سونا کا وزن 87 گرام 48 ملی گرام ہے)
حاجت اصلیہ کی وضاحت:
 رہنے کا مکان، سامانِ خانہ داری، گرمی ، جاڑے میں پہننے کے لیے کپڑے ، سواری کے لیے سائیکل، پیشہ وروں کے اوزار اور اہلِ علم کے لیے حاجت کی کتابیں یہ سب حاجت اصلیہ سے ہیں۔(قانون شریعت)
قربانی کاوقت:
دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے یعنی تین دن اور دو راتیں لیکن دسویں سب میں افضل ہے، پھر گیارہویں اور بارہویں۔ خیال رہے کہ غروب آفتاب کے بعد اور صبح صادق سے پہلے قربانی کرنا مکروہ ہے۔ لہٰذا اجتناب کریں۔ اگر شہر میں پہلے دن قربانی کریں تو نماز عید کے بعد ہی کریں۔
کن جانوروں کی قربانی درست ہے؟
قربانی کے جانور اونٹ، گائے، بھینس، دنبہ، بھیڑ، بکرا(مذکر، مونث دونوں جائز ہیں) ان کے علاوہ کسی جانور کی قربانی جائز نہیں۔
قربانی کے جانور کی عمرکتنی ہونی چاہیے؟
قربانی کے جانوروں کی عمریں متعین ہیں بکرا، بکری، دنبہ، بھیڑ ایک سال کے ہوں ، گائے ، بیل، بھینس ، بھینسا پورے دو سال کے ہوں اور اونٹ پانچ سال کا ہو ۔ ہاں بھیڑ یا دنبہ چھ ماہ سے زیادہ اور ایک سال سے کم عمر کے ہوں مگردیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔
قربانی کے گوشت کا مصرف:
قربانی کاگوشت خود کھائے، مالداروں اور فقیروں کو بھی کھلاسکتا ہے۔ نیز فقیروں اور محتاجوں پر صدقہ کرنا چاہے تو کرے اور بہتر یہ ہے کہ صدقہ کرنے میں تہائی سے کمی نہ کرے ۔ واضح ہو کہ گھر میں اگر زیادہ افراد ہوں تو کل گھر کے صرف میں لا سکتا ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ قربانی کا گوشت کافر کو دینا سخت گناہ کا کام ہے۔
قربانی کے چند مختلف مسائل:
۱) اگر میت نے قربانی کی وصیت کی ہے تو اس کا گوشت نہ خود کھا سکتا ہے نہ غنی کو کھلا سکتا ہے بلکہ کل صدقہ کردینا واجب ہے۔(بہار شریعت)
۲) سات شخصوں نے قربانی کے لیے گائے خریدی تھی ان میں ایک کا انتقال ہو گیا اس کے ورثہ نے شرکا سے یہ کہہ دیا کہ تم اس گائے کو اپنی طرف سے اور اس کی طرف سے قربانی کرو اونھوں نے کر لی تو سب کی قربانیاں جائز ہیں اور اگر بغیر اجازت ورثہ ان شرکا نے کی تو کسی کی نہ ہوئی۔(بہار شریعت ح 15)
۳) بالغ لڑکوں یا بی بی کی طرف سے قربانی کرنا چاہتا ہے تو ان سے اجازت حاصل کرے بغیر ان کے کہے اگر کردی تو ان کی طرف سے واجب ادا نہ ہوا۔ (بہار شریعت :ج: ۱۵، ص: ۳۳۵)
۴) اگر جانور مشترک ہو تو گوشت تول کر تقسیم کیا جائے ، اندازے سے نہ باٹیں کہ اگر کسی کو زیادہ پہنچ گیا تو دوسرے کے معاف کرنے سے بھی جائز نہ ہوگا کہ حق شرع ہے۔ (قانون شریعت)
 قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا سنت ہے اور بوقت ذبح وہاں حاضر رہنا بھی سنت ہے۔ (نوٹ) کسی بد عقیدہ ، گمراہ شخص سے اپنا جانور ہرگز ذبح نہ کروائیں.
نوٹ: قربانی کے ایام میں  مدارس اسلامیہ کا خاص خیال رکھیں اور خدمت علم دین کے سلسلے کو مستحکم کریں-