"مشترکہ خاندانی نظام"، غور و فکر کے چند پہلو"

 محمد قمر الزماں ندوی 
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ
 (٣) 
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس دنیا کو انسانوں سے آباد کیا، ان کو ہر طرح کی نعمتوں اور آسائشوں سے نوازا، تمام مخلوقات میں ان کو نمایاں اور ممتاز مقام دیا، اشرف المخلوقات کے لقب اور تمغہ سے نوازا، کائنات کی ساری چیزوں کو اس کے لئے مسخر کیا، تین و زیتون طور سنیین اور بلد امین کی قسم کھا کر انسان کو باور کرایا کہ ہم نے تم کو سب سے بہترین سانچے میں ڈھالا ہے ۔۔۔۔ اور باہم تعارف کے لیے خاندانوں کا سلسلہ جاری کیا، ان کے آپس میں رشتے ناطے قائم کئے، اور باہمی حقوق و فرائض کا ایک جامع، مکمل اور کامل نظام اور دستور العمل عطا فرمایا، ان تمام چیزوں سے یہ باتیں ظاہر ہوتی ہیں اور اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ انسان باہم مربوط بھی ہے اور ان کے درمیان کچھ فاصلے بھی ہیں، انسان بہت سے سماجی اقدار و روایات کا پابند و مکلف ہے تو دوسری طرف وہ اپنی ذاتی زندگی اور نجی معاملات میں بہت حد تک خود مختار اور آزاد بھی ہے، جب یہ دونوں چیزیں اپنے حدود اور دائرہ میں رہیں گی، تو گھر اور معاشرہ سوسائٹی اور سماج خوش حال رہے گا، اور اگر توازن بگڑ جائے، بے اعتدالی پیدا ہو جائے تو وہی گھر اور سماج نمونہ جہنم، ہوجائے گا،۔۔ اور اس سے خوشحالی اور امن و سکون کا خاتمہ ہوجائے گا۔
انسانی فطرت اور طبیعت :
یہ حقیقت ہے کہ انسان فطرتاً آزاد پسند اور آزاد طبیعت واقع ہوا ہے وہ اجتماعیت میں بھی انفرادیت کا متمنی اور خواہاں رہتا ہے اور مشغولیت کے ہجوم میں بھی تنہائی کا شیدا اور خوگر ہوتا ہے، خدائے وحدہ لاشریک نے حضرت انسان کو عجیب نرالے انداز  اور ڈھنگ سے پیدا فرمایا ہے کہ وہ ساتھ رہتے ہوئے بھی تنہا و اکیلا رہنا چاہتا ہے اور اکیلے اور تنہائی میں بھی وہ اکیلا اور تنہا نہیں ہوتا، ہر انسان کی اپنی شناخت اور پہچان ہوتی ہے، اپنا ذوق اور مزاج ہوتا ہے، ہر ایک کی چاہت اور پسند ، شوق اور انتخاب الگ الگ ہوتا ہے، مزاج و رجحان اور زاوئہ فکر بھی جدا جدا ہوتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی انسان زندگی کے کسی بھی موڑ اور کسی بھی مرحلے میں یہ نہیں چاہتا کہ اس کی شخصیت گم ہوجائے، ان کی شناخت ختم ہوجائے، ان کی انفرادیت باقی نہ رہے، اور وہ اپنے وجود اور ذوق و مزاج، پسند و ناپسند نیز اپنے شخصی اور ذاتی مسائل کو دوسروں کی خاطر نظر انداز کردے، آدم خاکی میں کام آنے کا جذبہ ہوتا ہے ، مگر دوسروں کے لیے خود اس کی ذات اور شخصیت یا اس کا سراپا مٹ جائے، فنا ہو جائے اس کے لیے دل سے کم ہی کوئی تیار ہوتا ہے، وہ عام انسانی جذبات، اور اقدار و روایات کا احترام کرتا ہے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ اس کی زندگی بھی نہ مٹنے پائے اور اس کا وجود نہ ختم ہونے پائے، وہ ہر رنگ و نوع کو قبول کرنے کے لیے اپنے کو آمادہ کر لیتا ہے ، مگر اس خیال کے ساتھ کہ اس کا اپنا امتیاز اور تشخص بھی برقرار رہے، اولاد آدم کے اسی مزاج اور طبقاتی اور خاندانی تنوع اور رنگارنگی کے راز کو قرآن مجید نے مختلف پیرائے میں جگہ جگہ بیان کیا ہے اور اس حقیقت کو اچھی طرح واشگاف کیا ہے۔۔۔( مستفاد از کتاب مشترکہ خاندانی نظام از سلطان احمد اصلاحی رح) 
خاندان کی اہمیت اور حقیقت :
قرآن مجید نے خاندانی نظام کو بڑی اہمیت دی ہے، یہ خاندان اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی نعمت اور اعلی و قیمتی انعام ہے، اللہ تعالیٰ نے خاندان کے وجود کو اپنے احسانات میں شمار کیا ہے، خاندان کا وجود انسان کے لیے سامان الفت و محبت بھی ہے، اور اس کی نصرت و حمایت اور پشت پناہی کے لیے ذریعہ اور قوت بھی، اسی کے ذریعہ انسان کی پہچان اور شناخت ہوتی ہے، لوگوں میں متعارف ہوتا ہے، خاندانی پس منظر آدمی کے لیے ڈھال کی حیثیت رکھتا ہے، اور زندگی کے منجھدار میں گویا وہ ایک پتوار کی کشتی پر سوار ہو، قرآن مجید میں خطیب الانبیاء حضرت شعیب علیہ السلام کے قصہ میں خاندانی قوت، کافروں کے پاوں کی زنجیر بن گئی تھی، ان کی زبان سے نکلا ہوا یہ جملہ اسی بے بسی کا غماز ہے : ولو لا رھطک لرجمناک و ما انت علینا بعزیز قال آ رھطی اعز علیکم من اللہ ( سورہ ھود ۹۱/۹۲) 
اگر تمہارے کنبہ کے لوگ نہ ہوتے تو ہم تم کو سنگسار کر دیتے، ہمارے نزدیک تمہاری کوئی عزت نہیں، حضرت شعیب نے فرمایا کیا اللہ کے مقابلے میں میرا کنبہ اور خاندان تمہارے نزدیک زیادہ باعزت ہے،؟ 
آنحضرتﷺ کی مکی زندگی میں شعب ابی طالب کا واقعہ خاندانی قوت، اور وحدت و اجتماعیت کی بہترین مثال ہے۔ جس میں مذھب کی قید و شرط کے بغیر بنو ہاشم کے ہر فرد نے شرکت کی، ( سیرت ابن ھشام ۱۲۳/۱) 
         اسی دار الندوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (معاذ اللہ) منصوبئہ قتل پر قریش کو دس بار سوچنا پڑا کہ کہیں پورا بنی عبد مناف مقابلہ پر نہ آجائے اور پھر یہ تجویز پاس ہوئی کہ تمام قبائل کے لوگ اس میں شریک ہوں اور ہر قبیلہ سے ایک شخص اس کام میں نمائندگی کرے۔ (طبقات ابن سعد ۱۵۲/۱) 
آنحضرتﷺ کے مقاطعہ کے پیچھے بھی جو اصل محرک کار فرما تھا، وہ بنو ہاشم کی خاندانی قوت کو کمزور کرنا اور بآلاخر حضور ﷺ کی آواز اور دعوت کو بے اثر کرنا۔
  غرض خاندان کی طاقت و قوت مسلم ہے، خاندان انسان کی شہرت اور عزت کا ذریعہ  بنتا ہے اسے نیک نامی بخشتا ہے، خاندان کی بنیاد پر لوگ سماج اور معاشرے میں پہچانے جاتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں خاندان کی عزت و احترام کے بقا کے لیے لوگ اپنی جانیں دے دیا کرتے تھے، اگر خاندان کا کوئی فرد مدد اور نصرت کی گہار لگا دیتا یا کسی قوم کے خلاف مدد کی اپیل اور درخواست کرتا ، تو وہ دلیل اور وجہ نہیں معلوم کرتے، فورا مدد کے لیے ٹوٹ پڑتے تھے، عرب میں ہزار جہالت تھی، لیکن خاندانی نظام کا استحکام اور اس کو بہتر اور مضبوط رکھنا، اس کی شہرت و عزت پر آنچ نہ آنے دینا،یہ ان کی خصوصیت ، خوبی اور کمال تھا، خصوصاً چچا اور چچازاد بھائیوں سے محبت و تعلق اور الفت و مودت اور ایک دوسرے کے لیے دل و جان قربان کر دینے کی مثال اس قدر ہے کہ اس کو بیان کرنا مشکل ہے، جاہلی شعراء کے کلام میں ہزاروں اشعار موجود ہیں، جس کا پس منظر مشکل موقع پر خصوصا جنگ کے موقع پر خاندان کی مالی، جسمانی اور دفاعی مدد کے نمونے موجود ہیں، بعض شعراء کو جب ان کی بیویوں نے خاندان کی مدد اور چچا زاد بھائیوں کے لیے داد دہش پر کوسا، سخت سست اور برا بھلا کہا تو انہوں نے اپنے رویہ اور روش میں کوئی تبدیلی نہیں کی ، بلکہ داد و دہش اور عطیات میں اور اضافہ کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ اگر تمہیں میرے ساتھ رہنا ہے تو رہو ورنہ رشتہ زوجیت ختم کر لو میں اپنے خاندان کی مدد اور نصرت و حمایت ترک نہیں کرسکتا میں اپنے چچا زاد بھائیوں کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑ سکتا، اس موقع پر جو اشعار کہہ کر انہوں نے خاندان کی عظمت و اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور ان کے کوسنے کی کوئی پرواہ نہیں کیا، وہ بہت ہی خاصا کی چیز ہے۔
  میں نے اوپر بھی ذکر کیا تھا کہ خاندان کسی بھی قوم کا اہم ترین اور بنیادی ادارہ ہوتا ہے، اور نظام خاندان قوم کی تہذیب و تمدن اور معاشرتی اقدار و روایات کو استحکام عطا کرتا ہے، چنانچہ زمانہ قدیم سے یہ تصور چلا آرہا ہے کہ خاندان جتنا مضبوط ہوگا، قوم کی بنیاد اتنی ہی مضبوط ہوگی۔
قرآن مجید، خاندان کا ایک وسیع اور جامع تصور رکھتا ہے، اس کے نزدیک خاندان معاشرے کا اہم اور بنیادی ادارہ ہے۔ جس کی بہتری اور ابتری پر معاشرے کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے،(جاری ) 
 اسی وجہ سے قرآن مجید میں خاندان کے استحکام کی طرف خصوصی توجہ دی گئی ہے۔۔۔ تاکہ اس کی تعلیمات کی روشنی میں ایک مضبوط اور مستحکم اور صالح معاشرہ وجود میں آئے جو انفرادی و اجتماعی حقوق و فرائض کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرے۔۔۔ ( مستفاد ندائے اعتدال شمارہ مارچ ۔ اپریل ۲۰۱۴ء) 
" :خاندانی نظام کا ڈھانچہ :"
اوپر کی تفصیلات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ خاندانی نظام کو بڑی اہمیت اور مقام حاصل ہے، اور جس طرح انسان کی ذاتی اور نجی زندگی کے لیے خاندان کی ضرورت ہے، اسی طرح دینی مقاصد میں اس کی بڑی اہمیت ہے، یہاں یہ بھی واضح ہو جائے کہ انسانی خاندان کی بنیاد تین حصوں میں محیط ہے۔۔۔۔۔۔۔ 
 دادیھال، نانیہال اور سسرال۔۔۔۔۔۔۔۔ دادیہال اور نانیہال ماں باپ کی طرف سے ہوتے ہیں جن کو نسبی رشتہ کہا جاتا ہے، اور سسرال شوہر و بیوی کی طرف سے ہوتا ہے جسے قرآنی اصطلاح میں صھر کہا جاتا ہے۔ 
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
و ھو الذی خلق من الماء بشرا فجعلہ نسباً و صھرا و کان ربک قدیرا * (الفرقان ۵۴) 
اور وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا پھر اس کو خاندان والا اور سسرال والا بنا دیا، اور آپ کا پروردگار بڑی قدرت والاہے۔ 
و اللہ جعل لکم من انفسکم ازواجا، و جعل لکم من ازواجکم بنین و حفدة و رزقکم من الطیبات۔۔۔۔( النحل ۷۲) 
اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لئے بیویاں بنائیں اور تمہارے لئے تمہاری بیویوں سے بیٹے اور پوتے پیدا کئے، اور تمہیں لذیذ چیزیں کھانے کو دیں۔ 
و من آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیہ و جعل بینکم مودة و رحمۃ ان فی ذلک لآیات  لقوم یتفکرون۔ (انعام ۲۱) 
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ تم میں سے تمہارے واسطے جوڑے بنا دئیے کہ ان کے پاس چین و سکون سے رہو اور تمہارے بیچ میں پیار و محبت اور مہربانی رکھی، البتہ اس میں بہت پتے کی باتیں ہیں ان کے لیے جو دھیان کرتے ہیں،۔۔ 
و اولو الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ* (الاحزاب /۹) 
   اور قرابت والے ایک دوسرے سے لگاو رکھتے ہیں اللہ کے حکم میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  جاری