امت مسلمہ تنزلی کا شکار کیوں؟

محمد روشن رضا مصباحی ازہری 
استاذ و مفتی مدرسہ اصلاح المسلمین ،
 رائے پور چھتیس گڑھ
 یہ وقت کا ایک ایسا اہم سوال ہے جو ہر صاحب عقل سلیم و فکر مستقیم کے دریچہ ذہن میں اٹھتا ہے اوراس کےضمیر کوجھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے،اور اس کے چہرے پر پڑے ہوئے ناامیدی و نامرادی کے دبیز پردے کو ہٹاکر بڑی متانت و سنجیدگی سے پوچھتا ہے کہ آج ہماری جماعت جس دور پر خطر و جن نامساعد حالات سے گزر رہی ہے  اس کا سبب کیا ہے؟ تو ہماری تنزلی و ہر محاذ پر ذلت آمیز شکست کی وجہ جہاں مسلم مخالف طاقتوں کی ریشہ دوانیاں اور نت نئے منصوبے ہیں وہیں پر ہماری زبوں حالی اور پس ماندگی اور انجماد و انحطاط کی وجہ شریعت طاہرہ کے اصول برحق سے انحراف اور اسوہ رسول مقبول سے اعراض و اہمال ہے، جس رسول کی صبح وشام، ان کا طریقہ طعام و قیام، اپنے اور بیگانے سے معاملات کا اسلوب الغرض آپ کی زندگی کا ہر ہر لمحہ ہمارے لیے ایک روشن معیار تھا ہم نے اسے برطرف کر کے اپنی ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہر محاذ پر ہم اپنی بے بسی و بے مائگی کا رونا روتے ہیں اور ہمارے اغیار ان پر قابض ہو کر اپنے مشن کی ترویج و اشاعت میں سرگرداں ہیں. 
وہ امت جس کی خیریت کی شہادت قرآن دیتا ہو "كنتم خير أمة أخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنهون عن المنكر وتومنون بالله" اس کی افضلیت پر احادیث رسول مہر صحت ثبت کرتی ہو ، وہ امت جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی عملی تصویر ہو اور اور دوسروں کی رشد و ہدایت و فلاح و بہبود کے دیرینہ خواب کی روشن تعبیر ہو بھلا وہ امت ہر محاذ پر ہزیمت و شکست سے دوچار کیوں؟  کچھ تو ہے جس سے ہم چشم پوشی کر رہے ہیں اور اپنے عیوب و نقائص پر فضائل و مميزات کے حسین پردے ڈالتے جارہے ہیں مگر آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا در اصل ایک ناقابل انکار حقیقت یہ ہے ہم نے اپنے اخلاقی اقدار کو کھودیا اور اپنے وقار کو اس قدر مجروح کردیا ہے کہ جس اخلاق کی تعلیم میرے سرکار نے دی تھی آج اس کا تصور تک نہیں، یہی وہ عظیم صفت ہے جس کو سرکار نے اپنی بعثت کا مقصد بیان فرمایا "جیسا کہ مسند امام احمد حنبل میں ہے" إنما بعثت لأتمم حسن الاخلاق "(رواۃ الإمام أحمد) اور سنن کبری میں اسی حدیث کو یوں نقل کیا گیا ہے" إنما بعثت لأتمم مکارم الأخلاق "(رواہ البیہقی)
حسن اخلاق  یہ وہ عظیم ممتاز وصف ہے جس سے متصف ہونے کو تکمیل ایمان کا سبب کہا گیا اور تمامیت دین کی وجہ بھی، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے" عن النبي صلی الله عليہ وسلم:أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم أخلاقاً "(رواه الترمذي) اور اسے تقرب الی اللہ و رسولہ و رضاے الہی کے حصول کا ذریعہ بتایا گیا. ابوداؤد شریف میں یہ روایت مذکور ہے"قال رسول الله صلی الله عليہ وسلم :إن من أحبكم إلىّ وأقربكم مني مجلساً يوم القيامة احاسنكم أخلاقاً"(رواه أبو داود)  اس وصف کو وہ غیر معمولی اہمیت حاصل ہے کہ ایک بار سرکار علیہ السلام سے کسی نے پوچھا :یا رسول الله وہ کون سا ایسا عمل ہے جس کی بنیاد پر کثرت سے لوگ جنت میں داخل ہوں گے؟؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"تقوی الله وحسن الخلق "(رواہ مسلم)
نیز سرکار علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :یقیناً بندہ اپنے حسن اخلاق کی بدولت قیامت کے دن بلندی درجات و مراتب علیا سے سرفراز کیا جائے گا اگرچہ اس کے پاس عبادت کا ذخیرہ کم ہو.
قیامت کا وہ کرب ناک منظر جہاں نفسی نفسی کا عالم ہوگا کوئی کسی کا پرسان حال نہیں ہوگا، آفتاب اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ آگ برسا رہا ہوگا وہیں زمین تانبے کی ہوگی اور آگ اگل رہی ہوگی،ایسے عالم میں میزان عدل قائم کیا جائے گا اور اس پر بندوں کے اعمال حسنہ و سئیہ وزن کیے جائیں گے میزان عدل و انصاف پر اس اخلاق کی کیا قدر و منزلت ہوگی آپ اپنے سرکار علیہ السلام کے اس ارشاد سے اندازہ لگائیں جس کو امام مسلم اپنے صحیح میں نقل فرمایا:"قال رسول الله صلّی الله عليہ وسلم :مامن شيء في الميزان أثقل من حسن الخلق "(رواہ مسلم)
أن احادیث صحیحہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ اسلام میں حسن خلق کا مقام کیا ہے، اگر آج ہم اخلاق حسنہ کے صفت متمیزہ سے آراستہ ہو جائیں تو آسانی سے ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہو سکتی ہے جو سماجی بھید بھاؤ، باہمی ستم ظریفی، آپسی چپقلش، غیبت و چغلی و باہمی قتل و غارت گری جیسے تمام تر اوصاف رذیلہ سے پاک ایک  معاشرہ کی تشکیل دی جاسکتی ہے جو باہمی أخوت و مودت و مروت کے زیر سایہ زندگی گزارنے میں ممد و معاون ثابت ہوگا.                                            کیوں کہ آج ہمارے اندر اخلاقی اقدار کا اس قدر فقدان ہے کہ ہم بھائی بھائی ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں اور ہمارے چھوٹے بڑوں کی تعظیم سے ناآشنا ہیں، اکابر اصاغر پر شفقت و محبت نچھاور کرنے کے بجائے اس سے پہلوتہی کرتا ہوا نظرآتا ہے، ہم اس قدر قساوت قلبی کا شکار ہیں کہ رفق و نرم خوئی دور دور تک نظر نہیں آتی اور آج ہماری نگاہوں پر کبرو نخوت و انانیت کا ایسا دبیز پردہ پڑا ہے کہ تواضع و انکساری و عاجزی کا تصور ہی ختم ہوگیا جب کہ سرکار علیہ السلام نے ارشاد فرمایا "قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :إن الله أوحى إلىّ أن تواضعوا حتى لا يفخر أحد على أحد ولا يبغى أحد على أحد" (رواه مسلم)
 اور دوسری روایت میں مذکور ہے "يسروا ولا تعسروا، بشروا ولا تنفروا"تو ہماری ترقی اور خوشحالی کی راہیں جو مسدود ہیں اپنی انھیں کارستانیوں کی بنیاد پر جس کے ذمہ دار ہم خود ہیں. ہماری زبوں حالی کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ جب سے ہم نے اپنے اسلاف کی روش سے روگردانی و ان کے فرامین سے اعراض کرنا شروع کردیا ہے اور ان کے نشان قدم کی پیروی کو جو ہمارے لئے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھی پس پشت ڈال دیا اور قرآنی احکامات و بیانات کو صرف نظر کردیا اسی وقت سے تنزلی، پس ماندگی ہمارا مقدر بن گئے.
    نظر آتی ہے گلشن میں ہوا ناسازگار اپنی 
گل باغ خلیلی بھیج دے باد بہار اپنی
تو ایسے پر آشوب ماحول میں ہمیں ضرورت ہے خود کو متحد کرنے اور باہمی أخوت و مودت کے اسلحہ سے لیس ہونے کی تاکہ ہم اپنے مخالف قوتوں کا نہایت ہی جواں مردی سے مقابلہ کر سکیں!!
 آج اگر ہم عصبیت کے عینک اتار کر غیر جانبدارانہ طورحقائق کی نظروں سے دیکھیں تو وہ کون سی ایسی برائی ہے جو ہمارے معاشرے میں نہ ہو، بد عہدی، بددیانتی، بد عملی کے شکار ہم ہیں، آج بلا کسی تردد کے ہم ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں جن کا شریعت طاہرہ سے کوئی علاقہ نہیں ہے، ابھی حال ہی میں واقع ہونے والے محرم الحرام کے خرافات و منکرات کو دیکھیں جس میں ہم مسلمانوں نے عقیدت امام حسین رضی اللہ عنہ میں ایسے ایسے کام کیے جو ہمارے اغیار کا شیوہ رہا ہے، ہم محبت امام حسین رضی اللہ عنہ کا دم بھی بھرتے ہیں اور ان کے نانا کے اصول برحق سے انحراف بھی کرتے ہیں، سچی عقیدت تو اس وقت ہوگی کہ جب ہمارے اقوال و افعال و اعمال سب شریعت طاہرہ کی روشنی میں ہو،اور فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے رگ و ریشہ میں جذب ہو جائے!
آج ہم اپنے فرائض منصبی اور نصب العین سے اس قدر چشم پوشی کر رہے ہیں کہ ان اوصاف کے ہوتے ہوئے ہم فروغ و استحکام کی دعا و توقع تو کر سکتے ہیں مگر عملی طور پر اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ہمارے لیے ایک امر غیر ممکن کی صورت اختیار کر چکا ہے!!
 اگر آج بھی ہم متحد ہو کر باہمی أخوت و مودت کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے، علاقائی و سماجی عصبیت سے فروتر ہوکر، اخلاص و اخلاق سے لیس ہوکر میدان عمل میں آجائیں تو ہم سے بڑا جفا کش و مجتہد کون ہو سکتا ہے؟؟؟
 وہ امت جو کبھی اپنی قلت تعداد و بے سروسامانی کے باوجود قیصر و کسری جیسے شاہانہ کروفر کو محض اپنے توکل و عزیمت کے دم پر خاک چٹائی ہو اور وقت کے بڑے بڑے سورماؤں کو اپنے در کی دریوزہ گری کے لئے مجبور کیا ہو تو آخر آج کیوں وہ سر اٹھا کر نہیں جی سکتی؟ بس ضرورت ہے ایک ایسے جذبہ کی جس میں حق گوئی، بے بیباکی، و خدا ترسی کی جبلت کار فرما ہو! کیوں کہ
 ہم سمندر ہیں ہمیں اپنا ہنر معلوم ہے جس طرف بھی رخ کریں گے راستہ ہوجائے گا۔
اخیر میں بارگاہ صمدیت میں دعا گو ہوں کہ رب قدیر! صراط مستقیم پر چلنے واسوہ حسنہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور دارین کی سعادتوں سے شادکام فرمائے!!!
  رب أوزعني أن اشكر نعمتك التي أنعمت علىّ وعلى والدي وأن أعمل صالحا ترضاه وادخلني برحمتك في عبادك الصالحين بالمصطفي خاتم الأنبياء والمرسلين عليه أفضل الصلاة وأتم التسليم!!!